ہاں تو ریاض (خیر آبادی) ابا جانی قبلہ کو لکھنؤ کی سیر دکھاتے ہوئے ایک بالا خانے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے یہاں ایک ماہ لقا رہا کرتی تھی‘ بے اختیارانہ سیڑھیاں طے کر کے اوپر پہنچا‘ حیا وادا کے لطف اٹھانے کی دیرینہ تمنا کو شرمندۂ وصال کرنا چاہا مگر اس رخِ رنگین کی تابانی سے سدھ بدھ کھو بیٹھے‘ جیسے گئے تھے ویسے ہی پلٹ آئے‘ ہنستے جاتے اور یہ واقعہ سناتے جاتے تھے‘ زبان پر اس جملے کی تکرار‘ خدا رعب ِ حسن سے بچائے۔
حادثہ گزند پاشبلی‘ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا کا مظہر نہیں پاکھنڈ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گولی کسی اور نے چلائی حسنِ اتفاق سے نشانہ خطا گیا اور جان بچ گئی۔ اس قسم کے اسباب پیدا کر لینا شبلی کی رنگینیٔ طبع سے کچھ بعید بھی نہیں تھا‘ پھر کیوں ہم ریاض کی روایت کو ضعیف گردانیں۔''پکچر ہائوس‘‘ کراچی کے پرانے سینما گھروں میں سے تھا‘ اپنی وضع قطع اور تراش خراش کے اعتبار سے الگ تھلگ‘ افسوس اسے منہدم کر کے پٹرول پمپ بنا دیا گیا ہے۔ بندر روڈ پر میونسپلٹی کے قریب‘ اسی پکچر ہائوس کے پچھواڑے بلند و بالا عمارت کی تیسری منزل کا دروازہ اسی کمرے میں کھلا جس میں حضرت نیاز لیٹے ہوئے ‘ ریڈرز ڈائجسٹ‘ پڑھ رہے تھے۔ پلنگ اور فرش پر بھی ڈائجسٹ بکھرے پڑے تھے‘ ممکن ہے ذائقہ بدلنے یا نگار کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ مواد چھانٹ رہے ہوں‘ جسے بغیر حوالے کے چھاپ دینا ان کے یہاں روا تھا‘ بلکہ لوگ تو یہ کہتے ہیں پوری پوری کتابیں ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کر دیا کرتے تھے۔ یہ ملاقات پچیس سالہ طویل وقفے کے بعد ہو رہی تھی اس لیے خاصی جذباتی رہی۔ گھنٹے بھر کی نشست میں
پرانی یادیں تازہ کی جاتی رہیں اور کسی امریکن صحافی کے اس شگفتہ تبصرے پر تبصرہ ہوتا رہا کہ''یہاں آ کر خدا کے وجود کا اقرار کر لینا پڑتا ہے‘ اس لیے کہ نہ تو یہاں کوئی قانون ہے نہ کوئی کام کرنے والا‘‘ذکر خیر مولانا مودودی کا بھی آیا‘ فرمایا میرے شاگرد ہیں‘ بلائوں تو آنے میں پس و پیش نہ کریں گے‘ اور یہ بات کہ نگار کے نیاز نمبر کے لیے فرمائشِ مضمون کا ٹکا سا جواب فرمان فتح پوری کے نام دے کر رہ گئے۔ نیاز تڑپ اٹھے اور اس کا ماتم باوجود یکہ نیاز نمبر کی ترتیب و تدوین سے اظہار بے تعلقی کر چکے تھے، نیاز نمبر کے بعد کے شمارے میں بڑے درد انگیز طریقے سے کیا‘ جی چاہتا ہے اس کی تلخی میں حلاوت کا جو مزہ ہے تھوڑا سا ہم بھی چکھ لیں‘ لکھتے ہیں اب المیہ کی روداد سنیے‘ فرمان صاحب نے باوجود میری مخالفت کے ابوالاعلیٰ مودودی کو بھی خط لکھا اور جس کا جواب ان الفاظ میں موصول ہوا،
آپ کا عنایت نامہ ملا‘ میری صحت آج کل اتنی خراب ہے کہ اپنے بہت ضروری کام بھی انجام دینے قاصر ہو رہا ہوں‘ اس لیے تعمیلِ ارشاد سے معذور ہوں۔
عبدالماجد صاحب نے تو خیر اپنے خط میں ایک جگہ میرا نام بھی لے لیا ہے لیکن ابوالاعلیٰ نے تو یہ بھی گوارہ نہ کیا‘ غالباً اس لیے کہ وہ بھی مجھے کافر وملحد سمجھتے ہیں حالانکہ اب سے تقریباً نصف صدی پہلے کی بات ہے کہ ابوالاعلیٰ اور ان کے بڑے بھائی ابوالخیر دونوں کا طویل زمانۂ تعلیم
( جب دام ہمرنگ زمیں بود) اسی کافر و ملحد کی صحبت میں بسر ہوا ہے اور سب سے پہلے نگار ہی نے انہیں روشناس خلق کیا‘ ہو سکتا ہے کہ بھوپال کی وہ رنگین شامیں جب تاج محل کے تالاب میں وہ اور میں دونوں ایک ہی کشتی میں بیٹھ کر پانی سے کھیلتے ہوئے گزر جایا کرتے تھے انہیں فراموش ہو گئی ہوں اور روز و شب کے علمی و ادبی مذاکرات جن سے ان کے ذہن کی تعمیر ہو رہی تھی ان کے دل سے محو ہو گئے ہوں لیکن میں اس لطیف زمانہ کی یاد کبھی نہیں بھلا سکتا اور اس وقت بے اختیار مجھے مومن کی ایک مشہور غزل یاد آ رہی ہے(ابوالاعلیٰ کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو) مجھ کو ابوالاعلیٰ (مولانا مودودی نہیں) اب بھی اسی طرح عزیز ہیں اور غالباً ہمیشہ عزیز رہیں گے ؎
دوست بودی شکوہ سرکردم ولے جرمِ تو نیست
کایں ہمہ بیداد برمن از دلِ تنگِ من است
رونا مولانا عبدالماجد دریا بادی کا بھی رویا گیا۔ مگر وہ چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد کے سوا اور کچھ نہیں ''من ویزداں‘‘ مرتب کرتے وقت نیاز صاحب کو شوق چرایا کہ اس پر کسی سے مقدمہ لکھوایا جائے تو کیسا رہے‘ وہ غالباً یہ بھول گئے کہ ان پر مقدمہ دائر تو کیا جا سکتا تھا‘ لکھنے کی ایک ہی رہی۔ شوخی ملاحظہ ہو اس کارِ خیر کے لیے مولانا دریا بادی کو منتخب کیا گیا ۔ صاحب موصوف یہ سمجھے اپنا قصیدہ لکھوانا چاہتا ہے‘ جواباً ایک مصرع لکھا تھا۔ ع
عشق و مزدوریٔ عشرت گہِ خسرو کیا خوب
سالہا سال بعد یہ مصرع اس وقت پھر دہرایا گیا جب فرمان صاحب نے نیاز نمبر میں شرکت کی دعوت دی۔ نیاز نے ماضی میں وضاحت کر دی تھی کہ میں کتاب یا اپنی تعریف نہیں لکھوانا چاہتا۔ مقصود اصل یہ ہے کہ آپ جتنی گالیاں مجھے دینے والے ہوں سب لکھ کر بھیج دیں تاکہ دوبارہ غم و غصہ کھانے سے بچ جائیں لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے خط کا جواب دیا نہ کوئی قصیدۂ سب و شتم لکھ کر بھیجا کہ میں اسے توشۂ آخرت سمجھ کر ''من ویزداں‘‘ میں شامل کر دیتا۔
آپ اگر بھول نہ گئے ہوں تو بات چلی تھی پہلی ملاقات سے جس کا حاصل یہ جملہ تھا ''میرا مقام بہت اونچا ہے مولویوں کی دسترس سے باہر رہتا ہوں‘‘۔
یہ وہ دور تھا جب میں جناب رئیس احمد جعفری کے سایۂ عاطفت میں گویا پروان چڑھ رہا تھا۔ والد صاحب کی استدعا پر مرحوم نے مجھے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ علم و ادب کی دنیا میں سانس لینے لگا، ماہنامہ ''ریاض‘‘کا اجرا میرے سامنے کی بات ہے۔ اس میں کبھی کبھار نیاز کے خطوط بھی چھپ جایا کرتے تھے۔ گھر آنا ہوتا تو یہاں
ایک شاعر کا انجام''شہاب کی سرگزشت ‘‘ وغیرہ سے سابقہ پڑتا یا ابّا کے نام ذاتی مکاتیب نظر نواز ہوتے‘ مختصر یک سطری‘ بہت کم مختصر کی تہمت سے آزاد‘ بات ''من ویزداں‘‘ تک بھی پہنچی اور ہم کوشاں نگارش نیاز کے رہنے لگے یہاں تک کہ میں اپنی خود سری کے ہاتھوں تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر آ براجا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اپنی بیکاری کھل گئی‘ تلافیٔ مافات کے لیے رہنمائی نیاز سے چاہی‘ جواب دوسری ڈاک سے آیا جس میں مولوی عبدالحق کے اردو کالج میں داخلے کا مشورہ دیا گیا اور یہ اجازت بھی کہ براہ راست مولوی صاحب کو میرے حوالے سے لکھ دو‘ میں نے حوالہ دیے بغیر لکھ مارا‘ حاشیہ نشینی تو نہیں مراسلت کی سعادت ضرور حاصل ہو گئی۔ نیاز سے پہلے نگار ''مشرف بہ اسلام‘‘ ہوا یعنی پاکستان منتقل ہوا۔ یہ دور بھی عجیب رہا‘ تاہم داد دینا پڑتی ہے کہ سلسلہ اشاعت میں کوئی جھول نہیں پڑا۔ وہ تو 51ء ہی میں ڈھاکہ کو منتخب کر چکے تھے‘شوکت سبزواری کو واسطہ بنا کر اس وقت کے ڈائریکٹر تعلیمات فضل احمد کریم فضلی کو پیغام بھجوایا کہ سر چھپانے کی جگہ مل جائے تو میں رخت سفر باندھوں ‘ مگر اس کو کیا کیجیے کہ شوکت صاحب کو عندلیب شادانی کی خاطر کچھ ایسی عزیز تھی کہ انہوں نے یہ پیغام فضلی صاحب تک پہنچایا ہی نہیں‘ کیا ہوا اگر اس کا بھگتان دس برس تک نیاز کو بھگتنا پڑا۔
آج کا مطلع
ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دوبارہ مجھے
ابھی کریں نہیں آرام کا اشارہ مجھے