تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     29-04-2016

اپنی زبان اردو

جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو ڈاکٹر ابوالحسن نجمی پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری تھے۔ان کی اسمبلی مارشل لاء کے بھینٹ چڑھ چکی تھی،صوبے میں قانون سازی کا کام گورنر ہاؤس منتقل ہوچکا تھا جہاں سے جنرل مشرف کے نامزد گورنر آرڈیننسوں کے ذریعے خود ہی قانون گھڑتے اوراس پر اپنے دستخط فرما کراسے نافذ کردیتے۔ اس ڈرامے میں نجمی صاحب کا کردار اتنا ہی تھا کہ وہ ادھر ادھر فون کرکے گورنر کے جاری کردہ آرڈیننس کی کاپی حاصل کرکے اسمبلی کے ریکارڈ میں لگا دیں۔فراغت کے ان دنوں میں انہیں پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ قوانین کو اردو میں منتقل کرنے کا خیال آیا۔ نجمی صاحب چونکہ سول جج بھی رہے تھے اس لیے اپنے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ڈیڑھ سو کے قریب ایسے قوانین منتخب کیے جو عام استعمال میں آتے ہیں اور عدالتوں میں زیادہ تر مقدمات بھی انہیں قوانین کے تحت زیر سماعت ہیں۔ان قوانین کے انتخاب کے بعد اگلا مرحلہ انہیں اردو میں ڈھالنے کا تھا، جس کے لیے انہوں اسمبلی کے سٹاف میں سے ہی کچھ لوگوں کو چن کر انہیں ترجمے پر لگا دیا۔ جب کام شروع ہوا تو پتا چلا کہ اسمبلی میں ایسا کوئی شخص موجود نہیں جو قانون کو اردو میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی اور اسمبلی سٹاف کو کوشش جاری رکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترجمے پر مامور لوگوں کے دماغ نے آہستہ آہستہ کام کرنا شروع کردیا اور یہ قوانین اردو میں ڈھلنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر نجمی نے پاکستانی یونیورسٹیاں کھنگالنا شروع کردیں کہ انہیں کوئی 
ایسا شعبہ یا افراد مل جائیں جو یہ کام کرنے کے اہل ہوں۔ پندرہ سولہ سال کی تلاش کے باوجود انہیں مطلوبہ صلاحیتیں رکھنے والا کوئی شعبہ ملا نہ فرد تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے ۔ ستمبر دوہزار پندرہ میں سپریم کورٹ نے دستور کے مطابق اردو کو سرکاری زبان بنانے کا حکم دیا تو ایک بار پھر موجودہ قوانین کے اردو ترجمے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اب نجمی صاحب صوبائی وزارت قانون کے سیکرٹری ہوچکے تھے۔ وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پاس پہنچے اور ترجمے کے لیے فنڈز کی درخواست کی۔ حیرت کی بات ہے کہ بظاہر انگریزی زبان سے احساسِ کمتری کی حد تک متاثر نظر آنے والے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس درخواست کے جواب میں کہا، ''آپ کو اس کام کے لیے جتنے پیسوں کی بھی ضرورت ہو گی، حکومت فراہم کرے گی۔ آپ کام شروع کریں‘‘۔ پیسوں کا مسئلہ حل ہوچکا تھا لیکن اس کام کے لیے مطلوبہ استعداد مہیا ہونے کا مسئلہ ابھی تک باقی تھا۔ اس مسئلے کے حل کی اب صرف ایک ہی صورت بچی تھی کہ ترجمہ کرانے کے لیے اخبار میں اشتہار دے دیا جائے۔ وہ مسئلہ جو پندرہ برس سے حل نہیں ہو پارہا تھا، اخبار کے ایک اشہتار سے حل ہوگیا۔جامعہ گجرات نے لکھ بھیجا کہ وہ یہ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ 
جامعہ گجرات میں دوہزار بارہ سے ترجمیات ( مطالعہ و فنِ ترجمہ) کا ایک خصوصی مرکز کام کررہا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مرکز ہے جہاں زبانوں کے ترجمیاتی پہلو پر تحقیق کے ساتھ ساتھ عالمی زبانوں کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔اس مرکز کے سربراہ ڈاکٹر غلام علی نے ٹھان لی کہ وہ قوانین کے اردو ترجمے کا کام اپنے شعبے میں لے کر آئیں گے۔ سرکاری اشتہار کی شرائط کے مطابق ترجمے کی مطلوبہ سہولیات صرف جامعہ گجرات کے پاس ہی تھیں اس لیے صوبائی حکومت نے پندرہ ہزار صفحات پر لکھے قوانین کے اردو ترجمے کا کام اس مرکز کو سونپ دیا۔ ڈاکٹر نجمی نے ایک شر ط یہ رکھی کہ ان قوانین کے ترجمے کے ساتھ ہی اردو میں قانون کی ایک فرہنگ بھی تیار کی جائے گی جس میں ہر قانونی اصطلاح معین تعریف کے ساتھ درج ہوگی تاکہ آئندہ ترجمہ کرتے ہوئے اس فرہنگ کی مدد لی جاسکے۔ قوانین کے اردو ترجمے اور فرہنگ کی تیاری کتنی اہم ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ سپریم کورٹ کے دوہزار تیرہ کے ایک فیصلے میں لکھا گیا : 
''عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت ِ شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے، اوراکثر فاضل وکلاء اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین و قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
جامعہ گجرات اور حکومت پنجاب نے قوانین کے ترجمے کا جو معاہد ہ کیا ہے اس کے تاریخی ہونے میں تو کوئی شک نہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ معاہدہ بھی انگریزی زبان میں ہے۔ اتفاق سے گجرات میں اس معاہدے پر دستخط کی تقریب میں سجاد میر صاحب کے ساتھ مجھے بھی شرکت کو موقع ملا تھا۔ معاہدے کی زبان دیکھی تو دل میں آئی کہ فریقین کی توجہ اس طرف دلاؤں لیکن اس خوف سے خاموش رہا کہ کہیں حکومت پنجاب ِ اس معاہدے کے اردو ترجمے کے چکر میں اتنا اہم کام کھٹائی میں ہی نہ ڈال دے۔ البتہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی خدمت میں عرضی گزاردی کہ اپنی جامعہ میں طلبہ کو ہر قسم کے امتحانات اردو میں دینے کی اجازت دے دیں ۔ جو بات نہیں کہہ پایا وہ یہ ہے کہ آخر بی اے کی ڈگری کے لیے انگریزی لازمی کیوں ہے؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ طلبہ کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ انگریزی ، عربی، فارسی ، سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی یا براہوی میں سے کوئی ایک زبان منتخب کرکے اس کا امتحان دے سکیں؟ 
پاکستان میںانگریزی کی وجہ سے صرف عدالتی کام ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ اور ہر شہری انگریزی کے ہاتھوں خوار ہورہا ہے۔ پاکستان بننے سے آج تک کی تین نسلیں انگریزی سیکھنے کی کوشش میں خود کو برباد کرچکی ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے طلبہ کو انگریزی آتی ہے نہ اردو۔ ہماری حالت یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر جنہیں ہم نے خون پسینہ ایک کرکے انگریزی میں تعلیم دی وہ انگریزملکوں میں جاکر وہیں کے ہورہے اور ہمارے لیے ادھر ادھر سے پڑھ کر آنے والے ''ینگ ڈاکٹر‘‘ رہ گئے۔ ہم نے پیٹ کاٹ کر انگریزی میں وہ انجینئر بنائے جن کی اکثریت دنیا کے دوسرے ملکوں کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں مصروف ہے۔ ہم نے انگریزی سے محبت میں اعلیٰ ملازمتوں کے لیے امتحان کو صرف انگریزی کا امتحان بنا دیا اور نتیجے میں ہمیں ایسے افسر ملے جنہیں انگریزی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ہم نے دفاعی اداروں سے اردو کو دیس نکالا دیا تو یہ خالد بن ولیدؓکی خود شناسی چھوڑ کر نپولین بونا پارٹ کی حد سے بڑھی اولوالعزمی کا شکار ہوگئے۔ انگریزی نے ہمیں اپنی تاریخ سے کاٹا اور تاریخ ہمیں روند کر گزر گئی۔یہ گراوٹ کی انتہا نہیں تو کیا ہے کہ ستر سال انگریزی پڑھنے کے بعد ہم آج چین اور ترکی کی دریوزہ گری کررہے ہیں جو انگریزی کے بغیر ہی ترقی کر گئے اور ہمیں معلوم ہی نہ ہوا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved