یہ پانامہ پیپرز کی مہربانی ہے یا عمران خان کا دبائو کہ میاں نوازشریف 2013ء کے بعد پہلی بار وزیراعظم ہائوس سے نکل کر عوام کے پاس آئے‘ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کی اور آواز لگائی کہ ''موٹروے بنوا لو‘‘۔ نئے تعلیمی ادارے‘ بہترطبّی سہولتیں اور روزگار کے مزید مواقع عوام کا درد سر سہی‘ پر حکمرانوں کی طبیعت ادھر نہیں آتی۔ غریب کا بچہ پڑھ لکھ جائے‘ صحتمند اور برسرروزگار ہو تو کرپٹ سسٹم کو چیلنج کرنے سے نہیں چوکے گا۔ لہٰذا اس کے لیے موٹروے ہی بہتر ہے یا میٹرو بس‘ اورنج لائن ٹرین اور پیلی ٹیکسی‘ بہرحال کرپشن کے خلاف مہم کا عوام کو اتنا فائدہ ہوا کہ وہ پٹرول سابقہ نرخ پر خرید سکتے ہیں اور جب تک دبائو برقرار ہے بجلی کے نرخ نہیں بڑھیں گے۔
''فریب ناتمام‘‘ میں محرم راز درون خانہ کے طور پر جمعہ خان صوفی نے انکشاف کیا ہے کہ ''اجمل خٹک کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ نیپ پہلے ہی کر چکی تھی لیکن بھٹو کے اقدامات نے اس فیصلے کو حتمی اور عملی صورت میں متشکل کیا۔ عبدالولی خان نے یہ فیصلہ اپنے طور اور اپنی سوچ کے مطابق کیا تھا جبکہ باچا خان نے اسے مجبوراً قبول کیا کیونکہ انہیں اس معاملے پر کئی ایک تحفظات تھے مگر اس زمانے میں قوم پرست سیاست پر ولی خان چھائے ہوئے تھے اور اس نے اپنے فیصلے کی تائید میں پوری پارٹی کو ہمنوا بنا لیا تھا۔ بدقسمتی سے 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی میں حزب اختلاف کے جلسے پر‘ جس میں نیپ ایک اہم جماعت کے طور پر شریک تھی‘ بھٹو حکومت کی جانب سے گولیاں برسائی گئیں‘ جس سے اجمل خٹک کو بہانہ ہاتھ آ گیا اور وہ باجوڑ کے راستے افغانستان چلے گئے۔ موصوف اس وقت نیپ کے جنرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے‘‘۔
''1973ء کے اواخر میں ولی خان آنکھ کے علاج کے بہانے لندن جانے کے بجائے پہلے
کابل تشریف لائے اور تمام تخریبی اور تربیتی پروگرامات کا خود معائنہ کیا اور انہیں آخری شکل دی۔ جب موسم بدلنے لگا اور برف پگھلنے کے ساتھ بہار کا آغاز ہونے لگا تو(مارچ 1974ء) پشتون اور بلوچ جوان ٹریننگ لینے کی غرض سے مختلف گروپس کی شکل میں آنے لگے۔ پہلے گروپ میں بلوچستان کی رہنمائی رزاق بگٹی اور صوفی خالق کر رہے تھے جبکہ پشتون عالم زیب کی قیادت میں آئے تھے۔ یہ تمام لوگ عالم زیب کی عمومی کمان میں چہارآسیاب کے نزدیک ٹریننگ کے لیے آمادہ ہو گئے‘ یہ ٹریننگ نظریاتی کے ساتھ عملی بھی تھی۔ یہاں انہیں گوریلا جنگ لڑنے کے لیے اسلحہ کا استعمال اور دھماکہ کرنے کی تربیت دی جاتی۔ ان لوگوں کو تقریباً ایک ماہ کی منظم تربیت دی گئی۔ اسی زمانے میں ولی خان کابل سے بذریعہ ہوائی جہاز لندن گئے اور پھر لندن سے واپسی میں سڑک کے راستے کابل آ گئے۔ ولی خان کا مختلف افغان صوبوں میں گورنروں اور دیگر عہدیداروں نے گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ ہم نے بھی صوبہ میدان وردگ میں ان کا استقبال کیا‘ اس استقبال میں دائود کی کابینہ کے اہم ارکان بھی شامل تھے۔ اس شاندار استقبال سے صدر سردار دائود خان نے کھلے عام نیپ کے ساتھ اپنی حکومت کے مقدر کو نتھی کر دیا تھا۔ پاکستان سے آنے والے جوانوں کی ٹریننگ کے اختتام پر پاسنگ آئوٹ پریڈ میں ولی خان نے بھی حصہ لیا۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد ولی خان جوانوں سے گھل مل گئے اور ہنسی مذاق بھی کرتے رہے۔ ولی خان قصر صدارت میں رہائش پذیر تھے جہاں وزیر‘ جرنیل‘ ریاستی عہدیدار‘ سیاستدان اور قبائلی مشیران ان سے ملاقات کے لیے آتے رہے۔ ولی خان نے
ہندوستان اور عراق کے سفراء کے علاوہ سوویت یونین کے سفیر سے بھی ملاقات کی۔ سردار دائود سے تو ملاقاتیں جاری ہی رہتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں ولی خان سردار دائود کو یہ باور کراتے رہے کہ تمام پشتون اور بلوچ نہ صرف نیپ کے ساتھ ہیں بلکہ ایک بھرپور جنگ کے لیے بھی آمادہ ہیں۔ ولی خان سردار کو یہ یقین بھی دلاتے رہے کہ افواج پاکستان ہندوستان سے شکست کی وجہ سے پست ہمت ہیں اور ان کا مورال کمزور ہے اور یہ کہ پشتونوں اور بلوچوں کی مشترکہ قوت کے سامنے یہ فوج ٹھہر نہیں سکتی‘‘۔
''تربیت یافتہ جوان اپنی ٹریننگ کے اختتام پر مختلف راستوں سے پاکستان واپس ہوئے‘ یہ لوگ اپنے ساتھ اسلحہ‘ گولہ بارود‘ ٹائم بم‘ گرنیڈ اور دیگر مواد پاکستان لے گئے۔ جاتے ہی ان لوگوں نے پلان کے مطابق دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کیں۔ پہلے بیچ کے بعد تواتر سے جوانوں کے گروپ گوریلا کارروائیوں کی ٹریننگ کے لیے افغانستان آتے گئے۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں تخریب کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہیں بینک میں بم دھماکہ ہوتا‘ کہیں جی ٹی ایس کی بس میں‘ کبھی پولیس تھانوں میں اور کبھی کسی تانگے میں بم پھٹتا۔ کوئی ریل کی پٹڑی کو اڑا دیتا تو کوئی بجلی اور ٹیلی فون کی تنصیبات کو نشانہ بناتا۔ گویا صوبہ بھر میں جگہ جگہ بم دھماکے اور تخریبی کارروائیاں ہوتی رہیں اور بے گناہ لوگ مرتے رہے۔ ان کارروائیوں نے حکومت کو اچھا خاصا پریشان کیا‘ تب حکومت پاکستان نے راست اقدام اٹھایا اور پولیس کو مزید بااختیار کیا۔ گرفتاریوں اور تشدد کا آغاز کیا گیا۔ بہت سے افراد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے۔ ان لوگوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ہر حال میں گرفتاری سے بچنے کی کوشش کریں۔ بہرحال جو مطلوب آدمی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا‘ بیچارا اچھا خاصا ٹارچر ہوتا۔ اسی طرح بعض جوانوں کی بیویوں اور بہنوں کو تھانے بھی بلایا جاتا اور بہت سے لوگوں کو بے عزت کیا گیا۔ بلوچستان میں بھی فوج کے خلاف جگہ جگہ کارروائیاں ہوتی رہیں۔ فوج کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا نتیجتاً فوج نے لشکر کشی اور آپریشن کا فیصلہ کر لیا ‘‘۔
''پاکستان اور افغانستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ اور خراب ہو گئے۔ بلوچستان میں بلوچ گوریلا کاررائیوں اور پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تخریبی سرگرمیوں جبکہ سرحد میں پختون زلمے کے دھماکوں میں اضافے کی وجہ سے معاملات خراب ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبائلی علاقوں کے دورے میں سردار دائود کے خلاف نازیبا اور تندوتیز لہجہ اپنایا۔ اس دوران سعودی عرب اس کوشش میں تھا کہ دونوں برادر ممالک میں صلح ہو۔ کابل میں مقیم سعودی سفیر جو شاہی خاندان سے تھا‘ ہمارے ساتھ قریبی رابطے میں رہا اور کئی بار اُس نے ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل مصر کے حسن التہامی کابل آئے اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کی۔ افغانستان نے موقف اپنایا کہ پاکستان پشتون اور بلوچ بھائیوں کے حقوق غصب کر رہا ہے اور ہم ان کے ساتھ ہیں اور اگر پاکستان ان حقوق کی پاسداری کرتا ہے تو پھر ہم راضی ہیں۔ تاہم اس گفتگو کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نیپ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک وسیع خلیج بن گئی تھی۔ ولی خان کسی طرح صلح کے لیے آمادہ نہ تھے‘ بلکہ ان کا رویہ کافی حد تک مغرورانہ تھا‘ سو حالات کی سازگاری کے لیے اٹھائے گئے ثالثی کے تمام اقدامات بے ثمر رہے۔‘‘
''افغانستان میں دائود کے خلاف بھی سازشوں کے تانے بانے بن رہے تھے۔ جون 1974ء میں ڈاکٹر نیازی اور بعض اخوانی عناصر کی گرفتاری سے بغاوت اور تخریبی کارروائی ناکام بنا دی گئی۔ ڈاکٹر نیازی اور اس کے بعض ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد گلبدین حکمت یار‘ برہان الدین ربانی‘ احمد شاہ مسعود‘ مولوی یونس خالص‘ مولوی محمد نبی‘ قاضی امین وقاد اور بہت سے دیگر فوجی اور چھوٹے اور گمنام ساتھی پاکستان چلے آئے اور بعض لوگ پاکستان کے زیر سایہ رہنے لگے۔ ان لوگوں میں بہت سے مائو نواز بھی افغانستان سے پاکستان بھاگ آئے۔ بعض قبائلی مشران بھی پاکستان شفٹ ہو گئے۔ حضرت صبغت اللہ مجددی نے جو دائود کے سخت مخالف تھے‘ ڈنمارک ہی میں رہائش اختیار کی۔ پاکستان اور بھٹو کی حکومت کو اللہ نے بہترین موقع فراہم کر دیا اور وہ ان لوگوں کی مدد کے لیے فوراً تیار ہوا۔ اس وقت نصیراللہ بابر فرنٹیر کور کے آئی جی تھے۔ موصوف اپنی کارروائی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے عادی تھے اور ان افغانوں کی ٹریننگ کا سال 1973ء بتاتے تھے‘ جبکہ کرنل سلطان (جو کرنل امام کے نام سے مشہور ہوئے) اس سلسلے میں صحیح طور پر ان لوگوں کی مدد اور تربیت 1974ء کے اواخر بتاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان لوگوں کی تربیت دراصل ہماری کارروائیوں کے ردعمل میں کی‘‘۔