تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-04-2016

تین دن اور ایک حسرت نا تمام

تین دن اتنے مزے سے اور جلدی گذرے کہ لگتا تھا بس ابھی آئے اور ابھی واپس جا رہے ہیں۔ قومی کتاب میلے میں گذارے ہوئے یہ تین دن ایسے تھے کہ ایک عرصہ بعد اتنی فراغت میں گذرے۔ فراغت ان معنوں میں کہ جو دل کرتا تھا وہ کیا۔ کافی پینے کو دل کیا تو نیچے آ گئے۔ گپیں مارنی ہوئیں تو پورا پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر موجود تھا۔ کتابوں کو دیکھنا اور کھڑے کھڑے پڑھنا ہوا تو ایک سو نوے سٹال موجود تھے۔ مذاکرہ سننا ہوا تو اپنی پسند کے کسی کمرے میں چلے گئے اور اگر کچھ نہ کرنا ہوا تو ڈاکٹر پروفیسر ریاض مجید کے دریافت کردہ ایک ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ گئے۔ رات جا کر سو گئے اور صبح اُٹھ کر پھر پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر آ گئے۔
بعض دوستوں کے نزدیک ایک قباحت بہر حال موجود تھی کہ دو چار ناپسندیدہ شخصیات موجود تھیں مگر مجھے اس کی رتی برابر پروا نہیں تھی کہ اس کتاب میلے میں ایسی ایسی شخصیات موجود تھیں کہ ان کی محبت کے عوض ان دو چار نا پسندیدہ لوگوں کا بوجھ بخوشی اُٹھایا جا سکتا تھا۔ یہ سودا ان کی موجودگی کے باوجود بہت سستا تھا۔ مسعود مفتی، مسعود اشعر، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر آغا محمد ناصر، توصیف تبسم، محمود شام، قاسم بگھیو، جبار مرزا، کشورناہید، زاہدہ حنا، اسلم کمال، ڈاکٹر احسان اکبر، حمید شاہد، جلیل عالی، منیر بادینی، نوید ہاشمی، حمید شاہد، ناصر علی سید، فرخ سہیل گوئندی، امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید کے علاوہ اپنے اپنے میدان کے شہسواروں کی ایک قوس قزح۔ ساتھ میں ملتان کے شاکر حسین شاکر او رضی الدین رضی کی کمپنی۔ غرض ایک ایسے موج میلے کا سماں تھا کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ جن دوستوں کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں وہ میری بھول چوک سے یہ مراد نہ لیں کہ وہ ان دو چار نا پسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ان تین دنوں کا مزہ کرکرا کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام رہے بلکہ یہ محض میری ناقص یادداشت کے باعث ہے۔ ہاں ان میں وہ دو چار نام بھی شامل ہیں تا ہم دوست گمان کریں کہ ان کا نام قصداً نہیں، نسیان کے باعث لکھنا بھول گیا ہوں۔
خیال رکھنے کے لیے محبت کرنے والوں کی ایک پوری بریگیڈموجود تھی۔ سب سے بڑھ کر واہ سے تعلق رکھنے والا عارف۔ شاعر تو وہ ہے ہی اور مزاح لکھنے والوں میں ایک خوبصورت اضافہ بھی لیکن ابھی حال ہی میں اس نے ایک نہایت ہی اہم موضوع پر ایک 
تحقیقی کتاب لکھی ہے ''مزاحیہ غزل کے خدوخال‘‘ اپنی نوعیت اور موضوع کے اعتبار سے یہ نہ صرف ایک بڑی اہم پیشرفت ہے بلکہ اس موضوع پر پہلی کتاب بھی۔ مجھ لاپروا اور نکمے آدمی کا جتنا خیال اس نے رکھا اگر میرا کوئی چھوٹا بھائی ہوتا اور میرے ہمراہ ہوتا تو شاید ہی اتنا دھیان ر کھتا جتنا عارف نے رکھا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا اولین دیا جانے والا تھیلا۔ اس تھیلے میں پورے تین دن کا پروگرام اور دیگر پرنٹڈ میٹریل تھا۔ سست اور کاہل میں ہوں مگر میرا تھیلا گم کرنے میں این بی ایف والوں کی کاوشیں رنگ لائیں اور میں وہ تھیلا وصول کرنے سے بچ گیا۔ بچ گیا ان معنوں میں کہ میں نے بھی وہ تھیلا اس ہنگامے میں جلد یا بدیر گم کر دینا تھا‘ سو میں اس تہمت سے بچ گیا مگر عارف نے میری اس خوشی پر پانی پھیر دیا اور کہیں اور سے میرا تھیلا برآمد کر کے لے آیا۔ مجھے تب بھی شک گذرا کہ وہ اپنا تھیلا تو مجھے نہیں دے رہا؟ عارف نے جھٹ سے اپنا تھیلا مجھے دکھا کر چپ کروا دیا۔ میں پوچھنے لگا کہ پھر یہ تھیلا اس نے کہاں سے لیا ہے اور کس کا غائب کیا ہے مگر خوف فساد خلق سے خاموش ہو گیا کہ ایسا نہ ہو ایک سے زائد دعویدار پیدا ہو جائیں۔ میں نے عارف کو کہا کہ میں یہ تھیلا گم کر دونگا‘ لہٰذا اسے اپنے پاس ہی سنبھال کر رکھے۔ عارف مسلسل تین دن وہ تھیلا گلے سے لگائے پھرتا رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس عاجز کا اندازہ درست ثابت کیا اور تیسرے دن این بی ایف کے عمران نے میرا تھیلا اور گلے میں لٹکانے والا نام والا کارڈمجھے دے دیا۔ میں نے عارف سے پوچھا کہ وہ جو تھیلا تم نے میرا کر کے مجھے دیا تھا وہ کس کا تھا؟۔ عارف نے حلفیہ بیان دیا کہ وہ بھی آپ کا ہی تھا۔ میں خاموش ہو گیا۔ آخر عارف کے حلف کے سامنے میرے شک کی کیا حیثیت رہ جاتی تھی؟۔
ان تین دنوں میںسے دو دن تو میرا عمران سے مسلسل شغل چلتا رہا کہ میرا گلے میں لٹکانے والا کارڈ کہاں ہے؟۔ رات اسلام آباد پہنچتے ہی سب کو یہ تھیلا بمعہ کارڈ مل گیا۔ جہاں میرا تھیلا کھو گیا وہیں یہ کارڈ بھی اڑن چھو ہو گیا۔ میلے کے دوران سینکڑوں لوگ ملے اور حال چال پوچھا گپ شپ کی۔ اس دوران بہت سے لوگوں نے پہچانتے ہوئے سوال کیا کہ ''آپ خالد مسعود ہیں؟‘‘ جواباً میں انہیں شکر گذاری کے جذبات کے ساتھ بتاتا کہ جی جناب! میں ہی خالد مسعود خان ہوں۔ ہر بار دل ہی دل میں اللہ کا لاکھ بار شکر ادا کرتا کہ جس نے اس معمولی سے آدمی سے محبت کرنے والوں کی اتنی تعداد بنائی۔ میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس فقیر کے اتنے چاہنے والے اس دنیا میں موجود ہوں گے۔ رات کو میں نے عمران کو گھیر لیا اور کہا کہ صرف کارڈ گلے میں نہ ہونے کی وجہ سے مجھے بے شمار لوگوں کو بتانا پڑا کہ میں ہی خالد مسعود ہوں۔ اگر میرے گلے میں میرے نام والا کارڈ موجود ہوتا تو مجھے اس نام بتانے والی خودنمائی سے نجات مل جاتی ۔عمران میرے اس تقاضے سے زچ بھی ہوتا اور لطف بھی لیتا۔ سب دوستوں نے اس بات کو مذاق بنا لیا اور مجھے دیکھتے ہی عمران سے تقاضا شروع کر دیتے کہ خالد مسعود کا گلے میں لٹکانے والا کارڈ کہاں ہے؟۔ تیسرے دن میں نے صبح ہی صبح عمران کو دھمکی دی کہ آج عارف ان تمام لوگوں کی گنتی کرے گا جو مجھ سے میرا نام پوچھ کر کنفرم کریں گے کہ میں ہی خالد مسعود ہوں اور رات کو میں عمران سے سو روپیہ فی کس کے حساب سے جرمانہ وصول کرونگا۔ دس منٹ بعد عمران نے میرا کارڈ بمعہ تھیلا میری خدمت میں پیش کر دیا۔ آخری دن اس لحاظ سے بڑا بے رونق گذرا کہ عمران سے تقاضا کرنے کی بنیاد ہی ختم ہو گئی۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود دن میں کئی بار حال چال پوچھتے۔ یہی حال محبوب ظفر کا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پرانے صحافی دوست اور موجودہ مشیر عرفان صدیقی اس میلے کے دوران دس بارہ بار ملے اور دو تین بار باقاعدہ ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور کافی کا تقاضا کیا۔ اس سارے کتاب میلے کے دوران عرفان صدیقی پورے تین دن آتے رہے اور صرف پھیرا ڈالنے اور حاضری لگانے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ باقاعدہ گھنٹوں وہاں موجود رہے اور وقتاً فوقتاً کتابوں کے سٹالوں پر بھی پھرتے رہے اور مختلف مذاکروں اور سیمیناروں میں شریک بھی ہوئے اور شریک گفتگو بھی رہے۔
پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر کی پہلی منزل پر ہونے والے یہ مختلف مذاکرے اور سیمینار مختلف لوگوں کے لیے مختلف موضوعات پر بڑی دلچسپی پیدا کر رہے تھے۔ ان تین دنوں میں قریب پچاس سے زائد مختلف Activities ہوئیں جن میں بچوں کی شرکت سے لیکر خالص ادبی اور تحقیقی موضوعات پر گفتگو شامل تھی۔ کتاب خوانی پر کئی سیشن ہوئے۔ انگریزی، اُردو اور پاکستانی زبانوں میں شہکار ادب سے انتخاب پر مبنی کتاب خوانی مسلسل تین دن چلتی رہی۔ اس دوران نظریہ پاکستان اور ہمارا ادب، پاکستان میں بنیادی حقوق کی تعلیم، بچوں کے ادب پر ادبی نشست، بیرون ملک پاکستانیوں کا ادب، انتظار حسین صاحب پر ایک سیشن جس میں ان کے افسانوں اور یادوں پر گفتگو ہوئی۔ اصغر ندیم سید نے اپنی گفتگو سے سارا پروگرام ہائی جیک کر لیا۔ کتاب دوستی کا فروغ اور سفیران کتب کی کانفرنس بھی بڑے اہم پروگرام تھے لیکن علمی اور ادبی حوالوں سے جدید اُردو نظم اور اکیسویں صدی پر ہوئے مذاکرے اور بعد ازاں جدید نظم پر مشتمل ایک مختصر سے دورانیے نے بڑا لطف دیا۔ خاص طورپر ڈاکٹر وحید کی نظم نے سامعین پر واضح کیا کہ ہماری جدید اُردو نظم کس مقام پر فائز ہے اور کتنی سرعت سے ترقی کا سفر طے کر چکی ہے۔ ''غلام اعظم مصّلی‘‘ پڑھنے اور سننے کی چیز تھی۔ اسی طرح ''غزل کا ارتقائی سفر‘‘ کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے نے اتنا لطف دیا کہ بیان کرناممکن نہیں۔ اس مذاکرے کی صدارت ڈاکٹر توصیف تبسم کر رہے تھے۔ اُن کے ساتھ امجد اسلام امجد، جلیل عالی، تابش الوری، ناصر علی سید، محبوب ظفر، ڈاکٹر نجیب جمال،اصغر ندیم سید اور عالم بے بدل فیصل آباد والے ڈاکٹر ریاض مجید تھے۔ امجد اسلام امجد، ناصر علی سید، ڈاکٹر نجیب جمال اور خاص طور پر ڈاکٹر ریاض مجید نے اُردو غزل کے ارتقائی سفر پر اتنی پرمغزاور خوبصورت گفتگو کی کہ مزید گفتگو کرنا تقریباً نا ممکن ہو گیا مگر گفتگو کے شوقین حضرات نے محض گفتگو کے شوق میں سارے مذاکرے کا مزہ کر کرا کر دیا۔ پروگرام کی رابطہ کاری کے فرائض عائشہ مسعود نے انتہائی سلیقے سے سرانجام دیے اور اسے ہمہ وقت تازہ رکھا۔ ایک مرحلے پر عائشہ مسعود نے میری مزاحیہ غزل میں استعمال کردہ میری جدید تراکیب کے حوالے سے مجھے گفتگو کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ اس دقیق اور علمی موضوع پر پہلے ہی کافیIrrelevant گفتگو ہو چکی ہے اور میں اس میں مزید اضافے کا باعث نہیں بننا چاہتا۔ براہ کرم میرا وقت کسی ایسے شخص کو دیا جائے جو اس موضوع پر گفتگو کا حقیقی اہل ہو۔ میرے اس جملے نے محفل میں نئی جان ڈال دی۔ اصغر ندیم سید، پروفیسر ریاض مجید، ناصر علی سید اور حمید شاہد نے باقاعدہ داد دی۔
یہ تین دن۔ زندگی، حرارت، علم سے آگاہی، کتاب سے محبت اور دوستوں کی صحبت سے بھرپور تین دن۔ ان تین دنوں کے سہارے اگلے سال ایسے ہی تین دنوں کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ این بی ایف کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کا سارا سہرہ ہمدم دیرینہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے سر ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاویدسے گفتگو ہوئی تو کہنے لگے اتنی بھرپور تقریبات کے لیے انہیں نئی وزارت کا پورا تعاون حاصل رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس وزارت کا نام ''قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن‘‘ ہے۔ اس ڈویژن کے تحت مرکزی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تمام ادبی اور ادب سے متعلق ادارے اس کے زیر انتظام کر دیے گئے ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی ادبیات، اُردو سائنس بورڈ، اُردو ڈکشنری بورڈ، قائداعظم اکیڈمی، ایوان اقبال، قائداعظم پیپرز اور ادارہ فروغ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) کو اس ڈویژن کے تحت کر دیا گیا ہے۔
ان تین دنوں میں کتابوں کے سٹالز پر اتنا رش رہا کہ چھپی ہوئی کتاب کی معدومی کا خوف دل سے نکل گیا۔ صرف کتاب کی قیمت میں رعایت نے کتاب کے امکانی مستقبل کو روشن کر دیا۔ ان تین دنوں میں اندازاً اڑھائی کروڑ روپے کی کتب فروخت ہوئیں۔ یہ حساب کتاب رعائتی قیمت پر مشتمل ہے۔ اصل چھپی ہوئی قیمت کے اعتبار سے چار کروڑ کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ صرف ایک ادارے کی کاوش تھی۔ اگر ہمارا پبلشر اور کتاب فروش اپنا ہاتھ ہلکا رکھیں تو کتاب کی فروخت میں نا قابلِ یقین اضافہ ہو سکتا ہے مگر صرف خواہش کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ حسرت نا تمام شاید اسی کو کہتے ہیں؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved