حکومت نے اپنی قوّت برداشت اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں اپنے تصوّرات کا بھانڈا پھوڑ دیا ۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں کرپشن کی کارفرمائی اور اندوہناک اثرات کا ذکر ہو تو عموماً جوابی دلیل کے طور پر بھارت کی مثال پیش کی جاتی ہے ‘جہاں جے للیتا اور لالو پرشاد یادیو جیسے بدعنوان اور اُٹھائی گیرے اسمبلیوں میں پہنچ کر وزیراعلیٰ بن جاتے ہیں مگر سیاست میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والی فلم پر پابندی لگاتے ہوئے کسی کو بھارت یاد نہیں رہا‘ جہاں گزشتہ دس بارہ برس کے دوران کم و بیش نصف درجن فلمیں اس موضوع پر بن کر باکس آفس پر ہٹ ہوئیں۔ ان فلموںمیں وہ سب کچھ تھا جو پابندی کی زد میں آنے والی پاکستانی فلم میں نظر آتا ہے۔ البتہ ایک فرق ضرور ہے کہ اُن فلموں کا ہیرو ملک و قوم کے لیے جان کی بازی لگانے والا کمانڈو نہ تھا جس سے ہمارے اہل سیاست الرجک ہیں۔
ایک زمانہ تھا معاشرے میں مالی کرپشن‘ اخلاقی بداعمالی سے بھی زیادہ معیوب سمجھی جاتی تھی۔ اخلاقی طور پر کمزور کردار کے شخص کو تو لوگ یہ کہہ کر برداشت کر لیتے تھے کہ یہ اس کا ذاتی فعل ہے مگر کسی رشوت خور پٹواری‘ تحصیلدار اور تھانیدار کو برادری اور محلے میں معنی خیز نظروں ‘ طنزیہ جملوں اور مخاصمانہ طرزعمل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پڑھے لکھوں کے علاوہ چٹے ان پڑھوں کو بھی حضور اکرمﷺ کا یہ قول ازبر تھا کہ برائی کو ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو اور یہ بھی ممکن نہیں تو دل میں ضرور بُرا جانو کہ ایمان کا پست ترین درجہ ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کے بارے میں تو کوئی سوچتا ہی نہیں تھا کہ یہ امانت میں خیانت اور اختیارات کو ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کرنے کا جرم کر سکتے ہیں۔ سیاستدانوں نے بھی دیانت و امانت کی روشن مثالوں سے یہ تاثر پختہ کیا۔ قائداعظمؒ کے اے ڈی سی جنرل (ر) گل حسن نے اپنی کتاب ''آخری کمانڈر انچیف‘‘ میں لکھا ہے کہ مرکزی کابینہ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تو گورنر جنرل اور بانی پاکستان کے طور پر قائداعظمؒ بھی موجود تھے۔ اجلاس چونکہ گورنر جنرل ہائوس میں ہو رہا تھا‘ چنانچہ میزبانی کے فرائض گورنر جنرل ہائوس کے عملہ نے سنبھالے‘ گل حسن نے قائداعظمؒ سے پوچھا ‘اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟ قائداعظمؒ نے استفہامیہ انداز میں پوچھا: ''یہ لوگ اپنے گھروں سے چائے پی کر نہیں آتے؟‘‘ اے ڈی سی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا:''جس وزیر کو چائے کا شوق ہے وہ گھر سے پی کر آئے یا گھر جا کر پیے‘ قوم کا پیسہ قوم کے وزیروں کی خاطر تواضع کے لیے نہیں‘‘۔
قائداعظمؒ کے بعد آنے والے سول اور فوجی حکمرانوں نے مگر قوم کے پیسے کو حلوائی کی دکان سمجھ کر نانا جی کی فاتحہ پڑھی۔ پرتکلف دعوتوں پر اڑانے تک محدود رہتے تو پھر بھی قابل برداشت تھا مگر اسے لوٹنے اور بیرون ملک لے جانے میں بھی شرم محسوس نہ کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان وہ پہلے
حکمران تھے جن کے صاحب زادگان پر باپ کے اقتدار‘ اختیارات اور اثرورسوخ کو استعمال کر کے دولت سمیٹنے کا الزام لگا اور پھر چل سو چل۔ سوئٹزر لینڈ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ سپین‘ دبئی اور دیگر ممالک میں پاکستانی دولت کے انبار لگتے رہے اور جس قوم کے خون پسینے کی یہ کمائی تھی وہ آج بھی پینے کے صاف پانی‘ تین وقت کی روکھی سوکھی اور علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہے۔ تعلیم اور روزگار کا تو مذکور ہی کیا۔ حکمران اشرافیہ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اُس نے معاشرے میں کرپشن کو قابل نفرت جرم اور اخلاقی گناہ نہیں رہنے دیا۔ سنگین برائی کو دل میں بُرا جاننے کے بجائے اس قدر قابل قبول بنا دیا ہے کہ اب کسی ملزم یا مجرم کے حمایتی اسے بے قصور کہہ کر دفاع نہیں کرتے بلکہ ''کرپٹ ہے تو پھر کیا ہوا‘‘ کہہ کرآستین چڑھاتے اور معترضین کا مُنہ چڑاتے ہیں۔ اپنے ممدوح کی دیانتداری کا ڈنکا نہیں بجاتے بلکہ بددیانتی‘ خیانتِ مجرمانہ اور ڈکیتی کا ڈھٹائی سے جواز پیش کرتے ہیں ۔
حکمران اشرافیہ کی کرپشن کا دفاع کرنے والے جمہوریت پرست جب قائداعظمؒ‘ لیاقت علی خان‘ فیروز خان نون کی بطور سیاستدان خدمات کا ذکر کرتے اور ان کی آڑ میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے جاری لوٹ مار کو جمہوریت کا حُسن اور سیاسی نظام کے ماتھے کا جھومر قرار دیتے ہیں تو آدمی سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ لیاقت علی خان نے نئی دہلی میں اپنی عالیشان محل نما کوٹھی پاکستان کے لیے وقف کی جہاں پاکستان کا ہائی کمشن قائم ہے۔نہرو نے مشورہ دیا کہ اہلخانہ کو فی الحال کراچی نہ لے جائو‘ رد کر دیا۔ فوت ہوئے تو ذاتی گھر تھا نہ کوئی زرعی رقبہ۔ وفاقی حکومت نے بیگم رعنا لیاقت علی خان اور اُن کے بچوں کی رہائش کے لیے خصوصی اقدامات کی منظوری دی۔ مرحوم وزیراعظم کی اولاد نے لاہور کے قریب ایک قطعہ زمین الاٹ کرانا چاہا تو بیورو کریسی آڑے آ گئی اور ان کی پوتی آج تک سرکاری دفاتر کے چکر لگا رہی ہے‘ اُسے سمجھ نہیں آتی کہ کرنال کے نواب کا قصور کیا تھا جس کی سزا اس کا خاندان آج تک بھگت رہا ہے۔ سر فیروز خان نون کے حوالے سے گوادر سب کو یاد ہے مگر یہ کسی کو یاد نہیں کہ اُن کی پڑھی لکھی بیگم وقار النسا نون نے ایک بار جب پرنسپل سیکرٹری الطاف گوہر کو خاوند کی موجودگی میں فائل پر ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی تو ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے وزیراعظم نے کہا ''بکن دے سُو‘ توں او کر جو قانون کہندا اے‘‘۔
گورنر پنجاب عبدالرب نشتر کے صاحبزادگان سائیکل پر سکول جایا کرتے تھے اور دور آمریت کے گورنر نواب آف کالا باغ کے بچوں کو گورنر ہائوس میں رات گزارنے کی اجازت نہ تھی‘ مگر اب سیاستدانوں کے صرف اہلخانہ نہیں دیگر رشتہ دار اور دوست احباب بھی سرکاری وسائل کو شیرمادر سمجھ کر ہضم کرتے اور ڈکار نہیں لیتے۔ سرکاری رہائش گاہیں‘ ہیلی کاپٹر‘ جہاز‘ گاڑیاں جو چاہیں استعمال کریں کوئی روک ٹوک نہ باز پرُس۔ سولہ لاکھ مربع میل رقبہ کے حکمران حضرت عمرؓ سے ایک بدّو کرتے کا حساب طلب کرتا ہے اور امیر المومنینؓ لمبی چوڑی تمہید باندھنے‘ اپنے خاندان کی قربانیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے اور عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے وضاحت کرتے ہیں مگر سلطانی جمہور کے دوران کرپشن‘ بے ضابطگی اور اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے قوم میں پائی جانے والی باقی ماندہ حساسیت اور نفرت بھی حیلوں بہانوں سے ختم کی جا رہی ہے‘ سوال اٹھانا جرم اور کرپشن کے خلاف نفرت ابھارنا قابل گرفت ہے۔ فلم اس سوچ کا نشانہ بنی۔ بھارت پر صدقے واری جانے‘ موقع بے موقع وہاں میسر آزادی اظہار کے گن گانے‘ کرپٹ سیاستدانوں پر بننے والی فلموں پر عش عش کرنے والوں میں سے کسی کو اس پر تشویش ہے نہ احتجاج کا یارا‘ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان دشمن بھارتی فلم پر لگنے والی پابندی پر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اسے آمرانہ سوچ کی علامت قرار دیا تھا۔
عمران خان پر حکمرانوں اور ان مداحوں کے بے حد و حساب غصہ کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اُس نے اپنی تمام تر شخصی کمزوریوں اور اپنے مالدار ساتھیوں کی خامیوں کے باوجود کرپشن کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا ہے اور معاشرے کو کرپشن سے متنفر کرنے اور امانت و دیانت کو شعار بنانے کی جدوجہد کی ہے۔ نوجوان نسل اسی سبب فریفتہ ہے‘ کرپشن کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو باشعور اور پڑھا لکھا نوجوان بخوبی جانتا ہے کہ اس کا مستقبل مخدوش اور پاکستان کی بقا خطرے میں ہے۔
1999ء میں دورہ بیجنگ کے دوران ہم نے اپنی میزبان لی فنگ سے پوچھا کہ اس کا آخری ہدف کیا ہے‘ جواب ملا کہ چین کا صدر بننا۔ نصرت مرزا اور طاہرہ شیریں خیلی نے تعجب سے پوچھا تُم؟ ایک عام خاتون اتنے بڑے ملک کی صدر بن سکتی ہو؟ اس نے کہا کیوں نہیں؟ کیا میں کمیونسٹ پارٹی کی رکن نہیں؟ میری تعلیم میں کمی ہے یا جدوجہد میں؟ موجودہ صدر کو کیا سرخاب کے پر لگے ہیں؟جمہوریت سے محروم ملک میں ایک عام خاتون یہ خواب دیکھ سکتی ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان؟ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی میں اپنی قیادت کی بدعنوانیوں‘ غلطیوں اور اقرباء پروری کا دفاع کرنے والا کوئی شخص ملک تو کجا‘ پارٹی کی سربراہی کا خواب دیکھ سکتا ہے؟ دانیال عزیز‘ طلال چودھری‘ زبیر عمر یہ خواب دیکھنے کے بعد پارٹی میں رہ جائیگا؟ مگر یہ بات کوئی کہہ دے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور جمہوریت پرستوں کوہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں‘ یہ جمہوریت نہیں کرپشن کا دفاع ہے۔