بلاتبصرہ
ایک اخباری اطلاع کے مطابق شریف خاندان نے آف شور فرمیں سیٹ کرنے سے پہلے ملکی بینکوں سے 6380 ملین روپے قرض لیے، تفصیلات کے مطابق جو وزیراعظم نوازشریف نے اپنی فیکٹریوں کے نام پر حاصل کئے اور پھر آف شور کمپنیاں قائم کرنے سے پہلے انہیں ری شیڈول کروایا اور یہ سب کچھ پانامہ لیکس میں درج ہے، جبکہ سپریم کورٹ کے پاس ان قرضوں کا ریکارڈ پہلے ہی سے موجود ہے۔ موصوف نے یہ قرضے چھ شوگر ملوں اور ٹیکسٹائل ملوں کے نام پر حاصل کئے جو ان کے خاندان کی ملکیت تھیں جس میں سے 350 ملین کے قرضے انہوں نے اپنے پہلے دورانیے کے دوران بطور وزیراعظم رائٹ آف کروائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ان قرضوں کی تردید کی ہے نہ تصدیق۔ البتہ انہوں نے سوال کرنے والے رپورٹر کو یہ مشورہ دیا کہ وہ یہ اطلاع مجوزہ جوڈیشل کمشن میں پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پہلے ہی چیف جسٹس کو ایک جوڈیشل کمشن قائم کرنے کے لیے لکھ دیا ہے جو قرضے رائٹ آف کرانے والوں کے معاملات کو دیکھ لے گا۔ دستاویزات کے مطابق نوازشریف نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے سابقہ دور حکومت میں یہ قرضے مختلف پاکستانی بینکوں سے حاصل کئے۔ انہوں نے ناکافی ضمانتیں داخل کر کے یہ قرضے حاصل کئے۔ شہادتوں سے معلوم ہوا کہ نوازشریف نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اتفاق فائونڈریز کے نام پر 1556 ملین کا قرضہ حاصل کیا اور 543 ملین کا قرضہ حسیب رمضان شوگر مل کے نام پر لیا جبکہ مذکورہ شوگر ملز 22 ملین کی گیس چوری کی بھی الزام الیہ ہے۔ شریف فیملی نے 955 ملین کا قرضہ ایک بینک سے مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کے نام پر لیا اور 373 ملین کا قرضہ رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز اور 339 ملین کا قرضہ چوہدری شوگر ملز کے نام پر حاصل کیا گیا۔
شریف فیملی نے 226 ملین روپے اتفاق برادرز اور 205 ملین کا قرضہ ساندل بار ٹیکسٹائل ملز کے نام پر حاصل کیا۔ رپورٹ کے مطابق 182 ملین کا قرضہ شریف فیملی کو حدیبیہ انجینئرنگ اور 15.3 ملین حمزہ بولٹس ملز کے نام پر دیا گیا۔ شریف فیملی کو 134 ملین کا قرضہ حدیبیہ پیپرز ملز اور 351 ملین روپے کا قرضہ برادرز سٹیل ملز کے لیے دیا گیا۔ انہوں نے 174 ملین کا قرضہ برادرز ٹیکسٹائل ملز‘ 159 ملین کا پھر برادرز سٹیل ملز کے نام پر اور 623 ملین چنیوٹ میں واقع رمضان شوگر ملز کے نام پر لیا۔ شریف فیملی نے 191 ملین کا قرضہ خالد سراج ٹیکسٹائل ملز اور 239 ملین اتفاق برادرز کے نام پر حاصل کیا۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن کے مطابق 35 بلین کے قرضے یا تو رائٹ آف کروائے گئے یا موصوف کے دوسرے دور حکومت میں ری شیڈول کرائے گئے۔ سپریم کورٹ نے رائٹ آف قرضوںکی پڑتال کے لیے جسٹس (ر) سید جمشید علی شاہ کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمشن قائم کیا۔ کمشن نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سوموٹو نوٹس جو متحدہ قومی محاذ کی ایک درخواست پر لیا گیا پر اس کے چیف الطاف حسین اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی شروع کی جنہوں نے قرضے معاف کرائے تھے۔
مزید بلاتبصرہ
اطلاعات کے مطابق متعدد بھارتی ٹی وی چینلز نے پانامہ لیکس کے موضوع پر وزیراعظم نوازشریف کی حمایت شروع کر دی ہے۔ بھارتی میڈیا یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ آرمی چیف راحیل شریف ہی بھارت کے لیے اصل خطرہ ہیں اور وہی پاکستان بھارت امن مذاکرات کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ ایک بھارتی جاسوس کی پاکستان میں گرفتاری کے بعد بھارت نے جنرل راحیل شریف کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی ہوئی ہے۔ جو ملک میں ایک طاقتور شخصیت بن کر ابھرے ہیں اور نوازشریف کو مکمل طور پر ایک طرف لگا دیا گیا ہے۔ ایک پرائیویٹ انڈین نیوز چینل آئی جی سما چار نے نوازشریف کے حق میں پروپیگنڈا مہم شروع کر دی ہے جو کہ جنرل راحیل شریف کے سراسر خلاف ہے۔ چینل نے اپنی پروپیگنڈا مہم شروع کر دی ہے جو کہ جنرل راحیل شریف کے لیے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ انہوں نے نوازشریف پر غلبہ قائم کر رکھا ہے۔ بھارتی میڈیا نے اپنے بے بنیاد پروپیگنڈے میں کہا ہے کہ راحیل شریف نے نوازشریف کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کا بہت برا منایا ہے جو دسمبر کو لاہور میں ہوئی تھی۔ نیوز چینل نے کہا ہے کہ راحیل شریف نے بھارت پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس سلسلے میں آئی ایس آئی نے 30 افراد کو تربیت بھی دینا شروع کر دی تھی جس میں جماعت الدعوہ کے حافظ سعید کی مشاورت شامل تھی۔ اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے چینل نے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ایک بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نوازشریف کو آزادانہ طورپر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ بھارتی چینل نے اس پروپیگنڈے میں کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی تصاویر پورے ملک میں آویزاں کر دی گئی تھیں چینل نے یہ بھی کہا کہ اس سے لگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف آئندہ الیکشن لڑنے جا رہے ہیں (آن لائن)
مرد مومن مرد حق
اطلاعات کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے اگلے روز جلسے میں مرد مومن مرد حق کے نعرے لگائے گئے جو صاحب موصوف نے پورے ذوق و شوق سے سنے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے یہ نعرہ جنرل ضیاء الحق کے لیے مخصوص تھا اور اسے لگانے والوں میں جماعت اسلامی بھی پیش پیش ہوا کرتی تھی جس نے ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں متعدد وزارتیں بھی قبول فرمائی تھیں‘ ہو سکتا ہے نوازشریف کی طرح جماعت کے اندر بھی ضیاء الحق کی روح ابھی تک موجود ہو‘ اور یہ ضیاء الحق کا نعرہ اس نے قبول کر لیا ہو۔ اس جلسے کی دوسری خاص چیز یہ تھی کہ سٹیج پر صف اول میں ریحام خان بھی جلوہ افروز تھیں۔ خوشی ہوئی کہ وہ معاملات میں اب بھی دلچسپی رکھتی ہیں، اگر وہ عمران خان کے جلسے میں چلی جاتیں تو اور بھی اچھا ہوتا‘ انہیں کسی نے وہاں سے نکال تو نہیں دینا تھا کیونکہ کپتان سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی ان کی سیاست کے ساتھ دلچسپی کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوتی بلکہ ایک خود اعتمادی اور کشادہ دلی کا اظہار ہوتا۔ واضح رہے کہ علیحدگی کے بعد سے عمران خان کی نسبت لوگوں کی ہمدردی ریحام خان کے ساتھ زیادہ ہے۔
آج کا مقطع
تمہیں تو رنج نہیں ہونا چاہیے تھا‘ ظفرؔ
وہ بے وفا نئے گھر میں اگر بہت خوش ہے