کسی بھی ریاست میں جرائم پر قابو پانا ‘ امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ‘دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر کڑی نگاہ رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس ریاست میں پولیس کا ادارہ فعال ہوتا ہے اس میں جرائم کی شرح خودبخود کم ہوجاتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں پولیس کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں، سفارش اور رشوت کے ذریعے اُن کو دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔ سعودی عرب اور برطانیہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جہاں بڑے سے بڑا سرمایہ دار،سرکاری اہلکار، تاجر اور سیاسی رہنما پولیس کے کسی عام کانسٹیبل کو بھی اپنے اثرورسوخ کے ذریعے مرعوب نہیں کر سکتا۔
پاکستا ن میں پولیس کا کردار مثالی تصور نہیں کیا جاتا بالخصوص دیہی علاقوں میں پولیس کے ظلم و بربریت کی داستانیں سننے میں آتی ہیں۔ دیہی اور قبائلی علاقوں میں پولیس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ وہاں کے جاگیر داروں اور علاقے کے سیاسی رہنماؤں کے اثر ورسوخ پر ناجائز پرچے کاٹنے، لوگوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے جیسی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں۔ تاہم شہری علاقوں میں پولیس کے بارے میں دیہی علاقوں کی نسبت منفی رائے کم پائی جاتی ہے۔ اگرچہ کسی تنازعے اور جھگڑے کی صورت میں تھانے پہنچ جانے والے لوگ پولیس کے بارے میں مثبت آراء کا اظہار نہیں کرتے لیکن دیہی علاقوں کی طرح بھرپور منفی آراء بھی سامنے نہیں آتیں۔
تھانوں کے بارے میں لوگوں میں یہ بات عا م پائی جاتی ہے کہ تھانوں میں ایسے لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے جو تعلیمی اعتبار سے مثالی ریکارڈ کے حامل نہیں ہوتے اور شعبہ تعلیم میں اپنی غیر تسلی بخش کارکردگی کے بعد پولیس کے محکمے میں کسی نہ کسی سفارش اور اثرورسوخ کے ذریعے داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تاہم بہت سے پولیس افسران اپنی کارکردگی اور فعالیت کے اعتبار سے مثالی ریکارڈرکھتے ہیں۔ والدِگرامی کے قریبی دوستوں میں خواجہ طفیل صاحب جیسے ایماندار پولیس افسر شامل تھے، جن پر اپنے پورے عرصہ ٔملازمت کے دوران کسی بھی قسم کی رشوت ستانی اور بدعنوانی کا الزام عائد نہ کیا جا سکا۔
جب انسان سیاسی، مذہبی اور تنظیمی زندگی میں حصہ لینا شروع کرتا ہے تو لا محالہ اس کا سابقہ پولیس سے بھی پڑنا شروع ہو جاتا ہے ۔ جلسوں کے انعقاد اور اہتمام کے لیے متعلقہ تھانوں سے رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں جتنے بھی بڑے خطباء ، سیاسی زعماء ، مذہبی قائدین گزرے تمام کے تمام لوگوں کا کسی نہ کسی حوالے سے پولیس سے گہرا تعلق رہا۔ پولیس اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے درمیان کئی مرتبہ نفرت انگیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے اور کئی مرتبہ مصالحت، مفاہمت اور ایک دوسرے کے بارے میں تعریفی جملے بھی کہے جاتے ہیں۔ حزبِ اقتدار والے عام طور پر پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے اور پولیس کی کارکردگی کو سراہتے نظرآتے ہیں جبکہ حزب اختلاف کے لوگ بالعموم پولیس سے بدگمان اور نالاں نظر آتے ہیں۔ میں نے بھی جب سے اپنی تنظیمی اور جماعتی زندگی میں قدم رکھا ہے کئی مرتبہ پولیس کے ساتھ معاملات کرنے کا موقع میسر آیا۔ پولیس کے بہت سے سینئر افسران سے ملاقاتوں کے مواقع بھی ملتے رہے۔ایک دور میں سہیل سکھیرا تھانہ سول لائنز کے انچارج ہوا کرتے تھے اور مرکزلارنس روڈ کے گردونواح میں ہونے والے تمام اجتماعات کے سلسلے میں ان سے رابطہ رہا کرتا تھا۔ سہیل سکھیرا عوامی تعلقات رکھنے اور نبھانے کے ماہر تھے اور بالعموم بغیر کسی انتشار اور خلفشار کے پروگراموں کے انعقاد میں معاون ثابت ہو ا کرتے تھے۔ لارنس روڈ پر بالعموم جمعہ کے روز پولیس اہلکاروں کو ملک کے دیگربڑے مراکز کی طرح تعینات کیا جاتا ہے۔ پولیس کے اہلکار بالعموم نمازیوں کو سہولیات پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس جمعہ جب میں اپنے مرکز پہنچا تو ایک پولیس کانسٹیبل نے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے اس بات کی اطلاع دی کہ علاقے کے ایس پی جمعہ کے بعد مرکز لارنس روڈ تشریف لانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ نمازیوں کے سامنے اپنی آراء کو رکھا جا سکے۔ جمعہ کے خطبہ کے بعد نمازیوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری وساری تھا کہ پولیس کانسٹیبل نے آکر اطلاع دی کہ اسماعیل خٹک صاحب مرکز میں تشریف لا چکے ہیں۔ نمازیوں کی معقول تعداد جمعہ کی ادائیگی کے بعد بھی تاحال مرکز میںـ موجود تھی۔ اسماعیل خٹک صاحب کو میںنے اور میرے ساتھیوں نے پرتپاک انداز میں خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر اسماعیل خٹک صاحب نے اور میں نے پبلک کے سامنے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسماعیل خٹک صاحب نے بریفنگ دیتے ہوئے یہ بات کہی کہ معاشرے میں قانون کو نافذ کرنا سٹریٹ کرائمز کو روکنا ، دہشت گردی کی سرگرمیوں پر قابو پانا پولیس کی اہم ذمہ داری ہے لیکن پولیس کی نفری اتنی بڑی تعداد میں موجود نہیں کہ ان تمام واقعات پر تنہا قابو پا سکے۔ اس سلسلے میں اس کو عوام کے تعاون کی ضرورت ہے اور بالخصوص مذہبی اداروں اور بڑی مساجد میں نماز ادا کرنے والے نمازیوں کی معاونت کے بغیر یہ کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ انہوں نے اس موقع پر اس بات کا اظہار کیا کہ مساجد اور مدارس کے بارے میں پولیس کے دل میں کوئی رنجش اور تحفظات نہیں پائے جاتے اور پولیس مدارس اور مساجد سے تعاون کی توقع رکھتی ہے۔ اسماعیل خٹک صاحب کی مثبت گفتگو کے بارے میں نے بھی اپنی آراء کا اظہار کیا اور میں نے یہ بات کہی کہ ملک کا دفاع کرنا فوج کی اور ملک میں لاقانونیت اور جرائم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح چونکہ یہ ملک کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے اس لیے ملک میں دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کے لیے تعاون کرنا مذہبی اداروں اور جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم میں نے اس سلسلے میں ان کے سامنے اپنے تحفظات کو رکھا کہ ملک میں موجود مذہبی جماعتوں اور مذہبی اداروں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ بعض باعمل نوجوانوں کو صرف شک وشبہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کے بعد ان کے گھروں سے یا دفاتر سے اُٹھالیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اعزہ اور والدین کو بہت زیادہ خوف اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں حکام بالا اور پالیسی ساز اداروں کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی چاہیے اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی کسی شخص کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے لیکن فقط شک اور شبہ کی بنیاد پر کسی شخص کو لمبا عرصہ حبس بے جا میں رکھنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔ میں نے اپنی رائے پیش کرنے کے بعد یہ بات بھی کہی کہ اگر مذہبی ادارے، پولیس اور فوج باہم مربوط ہو جائیں اور ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی حدوـںکے دفاع کے لیے مل جل کر اپنا کردار ادا کریں تو ملک ایک مثالی ریاست میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسماعیل خٹک صاحب میری، میرے احباب اور تمام دینی جماعتوں کے تحفظات کو حکام بالا تک پہنچانے کی کوشش کریں گے اور ان شاء اللہ ملک ہر اعتبار سے مثالی اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔