رضیہ کی عمر یہی کوئی پچپن‘ ساٹھ کے پھیر میں ہو گی۔ گہری سانولی رنگت ‘مٹی میں اٹے خد وخال‘ لباس بھی خاک زدہ مگر چہرے پر ایک معصوم سی مسکراہٹ سدا کھیلتی رہتی ہے۔ وہ لاہور کے ان بیس ہزار خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے جو کوڑا کرکٹ سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں وہ گزشتہ بیس پچیس سال سے روزانہ آتی ہے۔ ویسے اس دشت کی سیاحی میں اس کو چالیس سال بیت چکے ہیں۔ پہلے وہ اپنی اماں کے ساتھ کوڑا اکٹھا کرنے کا کام کرتی تھی، اب اُس کے ہر عمر کے بچے اور پوتے پوتیاں کوڑا اٹھانے کے کاروبار میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ یہ سب پورا دن وہ بدبودار اور سڑاند بھرے ماحول میں گزارتے ہیں ۔ رضیہ کے خاندان کا ایک اور اہم کردار اس کا مریل سا گدھا ہے جسے ریڑھی میں جوت کر وہ شہر والوں کے عالیشان گھروں سے گند اور کوڑا اٹھاتا ہے۔ یہ گدھا بھی اپنی مالکان کی طرح ہر قسم کے ماحول میں سمجھوتہ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج کالم میں رضیہ کا ذکر کیوں آیا۔ ایک کوڑا اٹھانے والی کا کالم میں تذکرہ کیوں؟ جہاں قومی اور بین الاقوامی معاملات پر بات ہوتی ہو‘ اربوں کھربوں کے سکینڈل کے تذکرے ہوتے ہوں‘ وہاں غریبوں اور وہ بھی انتہائی نچلے درجے کے غریبوں کا کیا کام! آج یکم مئی ہے اور دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔آج پاکستان میں بھی مزدوروں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے۔ لیبر لاز موجود ہیں جن کا
اطلاق کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر کسی حد تک ہوتا ہے جو خوش آئند امر ہے۔ مگر کارخانوں کی چاردیواری سے باہر ہزاروں دیہاڑی دار ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت کے اعلانات سے کچھ نہیں ملتا۔ رضیہ کا تعلق معاشرے کے اسی سب سے نچلے غریب دیہاڑی دار طبقے سے ہے۔ اس طبقے کی حالت زار کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم جیسے لوگ جہاں ایک لمحہ کھڑے ہونا گوارا نہیں کرتے یہ لوگ اپنا زیادہ وقت اسی ماحول میں گزارتے ہیں۔ کوڑا اکٹھا کرنا ہی ان کی زندگی ہے۔ پورے دن کی تکلیف دہ محنت اور مشقت کے بعد بھی وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکیں۔ بہت بڑا المیہ ہے کہ اس طبقے کے لیے معاشرے میں انتہائی درجے کی بے حسی پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ اپنے خرچ پر مختلف آبادیوں میں جاتے ہیں‘ دروازے کی گھنٹی بجا کر ان کے گھروں کا کوڑا اٹھاتے ہیں اور پورے مہینے کی اس مشقت کے بعد وہ فی گھر سو روپے وصول کرتے ہیں۔ لوگ وہ بھی خوش ہو کر نہیں دیتے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ یہ خوشحال گھرانے جو گھر کے بجٹ پر لاکھوں صرف کر دیتے ہیں، کوڑا اٹھانے والوں کو پورے مہینے کے بعد سو روپے دینے میں بھی تامل سے کام لیتے ہیں۔ ان کے شب و روز
کی اس تلخ تصویر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زندگی ان کے لیے جبر مسلسل سے کسی طور کم نہیں۔
پورے مہینے کے بعد صرف سو روپے فی گھر وصول کرنے والے معاشرے کے یہ کارآمد لوگ آخر انسان ہیں اور انسان ہونے کے بنیادی تقاضے تو انہیں بھی پورا کرنا ہوتے ہیں، جیسے کھانا اور بیماری میں دوا دارو۔ مگر میرا مشاہدہ ہے کہ یہ بیچارے بھوک میں بغیر کھائے اور بیماری میں بغیر دوا کے بھی اپنا کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ ہمارے گھروں‘ گلی محلوں کو صاف رکھنے میں ان لوگوں کا کردار کس قدر بنیادی اور اہم ہے۔ فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ ان لوگوں کو کوڑے والے نہ کہیں کیونکہ کوڑے والے تو ہم ہیں، یہ تو
صفائی والے ہیں اور ہمارا کوڑا لے کر جاتے ہیں۔ اب دنیا بھر میں ویسٹ پکرز (Waste Pickers) کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ حیرت ہے، ہمارے ہاں انسانی حقوق اور لیبر لاز کے لیے کام کرنے والوں نے اس طبقے کے لیے آواز نہیں اٹھائی؛ حالانکہ دنیا میں اب ان کے حقوق کی بات ہونے لگی ہے۔ 2008ء میں پہلی ورلڈ انٹرنیشنل ویسٹ پکرز کانفرنس کولمبیا میں ہوئی جس میں پہلی بار تسلیم کیا گیا کہ غربت کے سب سے نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے ان دیہاڑی داروں کو بھی باقاعدہ مزدور تسلیم کیا جائے اور لیبر لاز کے حوالے سے ان کو زندگی کی بنیادی مراعات کا حقدار سمجھا جائے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے 34 ملک شامل تھے۔ برازیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ویسٹ پکرز یعنی کوڑا اٹھا کر زندگی گزارنے والے طبقے کے حقوق کو تسلیم کیا اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے ان کے لیے بھی ایک پیکج کا اعلان کیا۔ اب دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ کوڑا اٹھانے والے لوگ صحت کے حوالے سے انتہائی خطرناک ماحول میں رہتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں‘ ان سے بچائو کے لیے انہیں حفاظتی ماسک ضرور پہننے چاہئیں۔ اب ویسٹ پکرز کے لیے ایسے ٹولز بھی متعارف ہو رہے ہیں جن کے ذریعے وہ ہاتھ لگائے بغیر کوڑے کی سارٹنگ کرسکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ان لوگوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ صرف لاہور میں بیس ہزار خاندانوں کا رزق کوڑا اکٹھا کرنے سے وابستہ ہے۔ یہ لوگ نسل در نسل کوڑا ہی اکٹھا کرتے ہیں اور اسی میں خوش رہتے ہیں ‘معاشرے میں مگر ان کے لیے انتہائی درجے کی بے حسی پائی جاتی ہے۔ ہم لکھاری لفظوں کے سوداگر ہوتے ہیں مگر آج اس موضوع پر لکھتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ عملی طور پر بھی کچھ حصہ ڈالا جائے۔ ان کے نصیب میں تو حکمرانوں کے جھوٹے وعدے بھی نہیں ہوتے ۔ یہ لوگ کسی پالیسی ‘کسی پروگرام ‘کسی پیکج کا حصہ نہیں ہوتے۔ اگر ہم میں سے وہ لوگ جن کے گھروں پر یہ دستک دے کر کوڑا اٹھاتے ہیں‘ وہی ان کے لیے دل میں ہمدردی پیدا کریں‘ ان کا معاوضہ بڑھا دیں‘ بچا ہوا کھانا ان کو پلیٹ میں رکھ کر دیں‘ بیماری میں دوا لے کر دیں تو بہت حد تک فرق پڑ سکتا ہے۔
اسد احمد‘ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ آفیسر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایل ڈبلیو ایم سی نے اس ایشو کے حوالے سے ایک فزیبلٹی رپورٹ بنائی تھی، چونکہ کوڑا اٹھانے والا طبقہ شہر کی صفائی میں مددگار کی حیثیت رکھتا ہے توکیوں نہ ان کو باقاعدہ طور پر ایل ڈبلیو ایم سی کا حصہ بنایا جائے ‘ انہیں یونیفارم دیئے جائیں اور ماہانہ تنخواہ دی جائے۔ مگر یہ اچھوتا اور انسان دوست آئیڈیا ابھی تک عملی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت ضرور کچھ قدم اٹھائے۔ آج یکم مئی مزدوروں کا دن ہے‘ تقریریں بھی ہوں گی اور سیمینار بھی‘ کیا ہی اچھا ہو کہ آج کے دن ان ویسٹ پکرز کو باقاعدہ دیہاڑی دار مزدور تسلیم کر لیا جائے۔ حقوق کی بات تو پھر ہو گی ابھی تو یہ خاک بسر کسی شمار و قطار میں نہیں!