تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     02-05-2016

لیبر پارٹی کو اندرونی مسائل کا سامنا

برطانیہ میں میڈیا کا فوکس تیئس جون کو ہونے والے ریفرنڈم سے تبدیل ہو کر اچانک لیبرپارٹی پر لگائے جانے والے یہود مخالف الزامات پر ہو گیا ہے ۔ اس الزام کا جواز لیبر پارٹی کی رکن ِ پارلیمنٹ ناز شاہ، جس نے بریڈ فورڈ ویسٹ میں جارج گیلوے کو شکست دی تھی، نے مہیا کیا۔ اُسے کہا گیا کہ یاتو اپنے رویے پر معذرت کرے یا مستعفی ہوجائے(اس کی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی) ۔ اس سے پہلے وہ شیڈو چانسلر کی اسسٹنٹ تھیں۔ دبائو کا شکار یہ رکن ِ پارلیمنٹ ایک حیرت انگیز کہانی رکھتی ہیں۔ 
پاکستانی نژاد ناز شاہ جب ایک نوجوان لڑکی تھی تو اس کی والدہ کے پارٹنر نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی اور واپس لاہور بھیج دیا۔ یہاں اس کی شادی ایک ظالم شخص سے ہوئی جو بدزبانی اور گھریلو تشدد کرتا۔ یہاں سے فرار ہوکر وہ دوبارہ برطانیہ آگئی ۔ ناز شاہ نے بریڈ فورڈ کی سیاست میں فعال کردار ادا کیا۔ ان کا توہین آمیز زوال اُس وقت شروع ہوا جب ایک فیس بک پر ایک پرانی پوسٹ سے ناقدین کو علم ہوا کہ وہ یہود مخالف ہیں۔ اس پوسٹ میں مس شاہ نے اسرائیل کے ایک فرضی نقشے کو امریکہ کے نقشے کے اوپر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل خود کو تحفظ فراہم کرنے والے ملک کے ساحلوں تک پہنچ جائے تو فلسطین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ 
اس پوسٹ کے منظر ِعام پر آنے سے اتنا ہنگامہ مچا کہ مس شاہ کو ہائوس آف کامنز میں کھڑے ہوکر معافی مانگنی پڑی ۔ چند گھنٹوں 
کے بعد لیبر پارٹی لیڈر، جرمی کوربائن نے اُن کی پارٹی رکنیت معطل کردی ۔ لیبر پارٹی کے مسائل میں مزید اضافہ اُس وقت ہوگیا جب اگلی صبح کن لیونگ سٹون نے میڈیا پر مس ناز کا دفاع کیا اور ایک نہایت عجیب دلیل دی کہ ''پاگل ہونے سے پہلے ‘‘ ہٹلر یہودیوں کا حامی تھا۔ اگر یہ بات تاریخی طور پر درست ہو تو بھی ہٹلر ہولو کاسٹ کا ذمہ دار تھا اور اُس کے دامن پر لاکھوں یہودیوں کا خون تھا، چنانچہ اسے یہودیت کا حامی قرار دینا سیاسی خود کشی کے مترادف تھا۔ اس بیان کا نقصان لندن کی میئرشپ کے لیے ہونے والی دوڑ میں شامل ایک پاکستانی نژاد مسلمان کو ہوا جس کی پوزیشن اچھی جارہی تھی لیکن کن لیونگ سٹون کے بیان کے بعد نہیں۔ 
اگرچہ لیونگ سٹون لیبر پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہونے کے علاوہ جرمی کوربین کے قریبی دوست ہیںلیکن اپنے ناپسندیدہ بیان کے بعد اُن کا بچائو مشکل تھا۔ چنانچہ اُن کی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی، جبکہ اُنہیں کسی انکوائری کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس طرح لیبرپارٹی کے دورہنمائوں نے یہود مخالف بیان دیتے ہوئے اس الزام کو جواز بخشا کہ لیبر پارٹی میں یہود مخالف سوچ پائی جاتی ہے ، اور یہ بھی کہ اس کے کچھ ارکان فلسطین کے حامی ہونے کی وجہ سے اسرائیل کی پالیسیوں اور ا س کے مغربی کنارے پر قبضہ کے سخت ناقدہیں۔ 
اب یہودیوں کے لیے لفظ ''صہیونی‘‘ کے استعمال پر بھی بحث کا آغاز ہوچکا ہے ۔بہت سے اسرائیلی شکایت کررہے ہیں کہ اُن کے ملک پر تنقید درحقیقت یہودیوں پر تنقید ہے جبکہ لیبر رہنمائوں کا موقف ہے کہ اسرائیلی پر تنقید اس کی سیاسی پالیسیوں، فلسطینی علاقوں پر قبضے اور جبر کی وجہ سے ہے ، اس کا ہدف یہودی مذہب نہیں ہے ۔چنانچہ لیبر رہنما اپنا دفا ع کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس طرح ناز شاہ کی فیس بک پوسٹ، جویقینا اُس نے منتخب ہونے سے پہلے کبھی کی تھی، کی وجہ سے اسرائیل کے حامیوں کو فلسطین کے حامیوں کو پچھلے قدموں پر دھکیلنے کا موقع مل گیا۔ 
یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا ہے جب فرانس میں بھی یہود مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ اس وقت ہزاروں فرانسیسی یہودی امریکہ ،برطانیہ اور اسرائیل کی طرف ہجرت کرچکے ہیں۔ ان کی ہجرت کی وجہ یہودیوں پر حملوں کی وجہ سے بڑھتا ہوا عدم تحفظ ہے۔ بعض مقامات پر یہودیوں کی خانقاہوں اور قبروں کی بے حرمتی کی گئی ہے جبکہ انفرادی طور پر کچھ یہودی افراد کو نامعلوم افراد نے تشدد کا بھی نشانہ بنایا ہے ۔ اگرچہ زیادہ ترحملہ آوروں کا تعلق فرانس کی مسلمان آبادی سے بتایا جاتا ہے لیکن فرانس دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت، نیشنل فرنٹ ، میں بھی یہود مخالف سوچ رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ فرانس ابھی تک اس تاریخی داغ کو مکمل طور پر دھونے میں کامیاب نہیں ہوا کہ اس نے ہزاروں یہودیوں کو نازی جرمنی کے حوالے کیا ، جہاں اُنہیں گیس چیمبروں میں ہلاک کردیا گیا۔ زیادہ تر شکار ہونے والے یہودیوں کو انہی کے فرانسیسی ہمسایوں اور دوستوں نے گسٹاپو کے حوالے کیا تھا۔ 
یہود مخالف بیانات پر اس قدر شدید رد ِعمل کی ایک وجہ یہ ہے کہ گزرتے ہوئے برسوں میں یہودی مغربی معاشرے میں مکمل طور پر کھپ چکے ہیں۔ وہ کامرس، ادب اور فنون کی دنیامیں نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہودی کمیونٹی نے کئی عشروںسے لیبرپارٹی کی حمایت کی ہے ۔ چنانچہ جرمی کوبائین کے اس بیان پر حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔''لیبر نسل پرستی سے پاک پارٹی ہے ،اور اسے نسل پرستی اور یہود مخالف نظریات کے خلاف سٹینڈ لینے کی روایت پر فخر ہے ۔میں نے عمر بھر نسل پرستی کی مخالفت کی ہے،اور یہودی آبادی تو برطانیہ کی صدیوں پر محیط ترقی پسندانہ روایت کی روح ہے ۔ ‘‘چنانچہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کہ اب اُن کی جماعت یہود مخالف نظریات کو برداشت کرنا شروع ہوگئی ہے ، جرمی کوربائین نے شامی چکرابارتی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے ۔ اگرچہ لیبر پارٹی پر تمام توجہ مرکوز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام برطانوی معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر یہود مخالف جذبات موجود ہیں۔ چاہے ان کی وجہ سیاسی ہو یا سماجی، یہ وقتاً فوقتاً ابھرتے رہتے ہیں۔ 
اس کے علاوہ یہودیت اور صہیونیت کے حوالے سے ہونے والی بحث بھی بہت الجھی ہوئی ہے ۔ آج کے ماحول میں فلسطین کے حامی اور اسرئیل کے ناقد ان دونوں لفظوں کو ایک ہی پیرائے میں استعمال کرتے ہیں لیکن وہ دل سے جانتے ہیں کہ ان میں فرق ہے ۔ تاہم پاکستان میں ہم یہودیت اور صہیونیت میں کوئی فرق نہیں دیکھتے۔ ہمارے لیے ہر یہودی اسرائیل کا حامی اور فلسطین کا دشمن ہے ۔یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی ہر مصیبت یہودیوں کی سازش کی وجہ سے ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved