تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     02-05-2016

سوال پانامہ،جواب جلسہ

آموں کے موسم کی آمد آمد ہے۔ساتھ ماموں بنانے کا موسم پھر سے چمک اٹھا۔جمہوریت عوام کو ماموں بنانے کے لیے میگا ٹھیکے اور میگا کمیشن کی دوڑ میں شریک ہے۔جبکہ اپوزیشن 3سال بعد حکومت کے ہاتھوں ماموں بننے سے انکاری ۔
ہزارہ وال فراخ دل لوگ ہیں۔اس کے جنگل اور کَٹھے(تازہ پانی کی قدرتی نہریں)سرُیلے ماہیے اور میٹھے پھل سب مل جل کر مجھے بھی ہزارہ وال بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ہزارے والوں کی سادہ دلی کے کئی ثبوت ہیں ۔سب سے بڑا ثبوت وہ حکمران جو ہزارہ صوبہ تحریک کے دوران وِلن تھے لیکن آج پھر چرخ ِاقتدار کے دربان۔ہزارے کے سرکاری لیڈر اور سرکاری ملازم کتنے بڑے کاریگر ہیں۔اس کا تازہ ثبوت اسی ہفتے پھر سامنے آیا۔یادش بخیر اپنی1992ء والی حکومت کے دوران موجودہ وزیراعظم نے ہزارے کے علاقے تناول میں گیس پراجیکٹ کاا فتتاح کیا۔فوجداری مقدموں میں نکاح پر نکاح کی طرح اسی پراجیکٹ کا 2 دیگر وزیراعظم صاحبان نے افتتاح پر افتتاح کر دیا۔اگلے روز وزیراعظم کے رشتہ دار، بیوروکریٹس اور مقامی وزیر ،تناول گیس پراجیکٹ کا چوتھا افتتاح لے کر سٹیج پر چڑھ گئے۔گیس پراجیکٹ پتا نہیں کہاں بنے گا یا نہیں بنے گا۔ لیکن نواز شریف صاحب بڑی فراخ دلی سے ماموں بن گئے۔سلنڈر گیس کے کنکشن سے حویلیاں جلسہ میں ایل این جی گیس کا شعلہ بھڑکایا گیا۔اس طرح جمہوریت نے ایک نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔24سال میں اسی پراجیکٹ کا چوتھی مرتبہ افتتاح اور ساتھ یہ نعرہ بھی میں قربان لالے دی جان۔صرف 4,2حکومتوں کا مزید سوال ہے بابا۔ ہزارے میں گیس ہی گیس ہو جائے گی۔
یہ افتتاح ،یہ جلسے اور وزیراعظم کا غریبوں سے تازہ رومانس دراصل ہے کیا؟آج کل وزیراعظم اور ان کے اہل ِخانہ سیاسی پریشر ککر کی رینج میں ہیں۔اس پریشر کو ریلیز کرنے کے لیئے ایک بابے نے وزیراعظم کو جلسوں کا مشورہ دیا۔بابا جی آج کل اسلام آباد کے تخت پر براجمان میرا سلطان کے ''مشیرِ با تدبیر‘‘ہیں۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ملک کا وزیراعظم خدمت کرتا ہے جلسے نہیں۔ریلیف دیتا ہے،مطالبے نہیں کر سکتا۔ وہ جہاں جہاں جاتا ہے لوگوں کی اس سے امیدیں آسمان تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح مشیر باتدبیرنے وزیراعظم کو سیاسی کے بعد عوامی پر یشر ککرمیں بھی ڈال دیا۔میڈیا ،سوشل میڈیا ،اپوزیشن اور قوم کا سوال ہے پانامہ ؟جمہوریت کا جواب ہے جلسہ۔
سوال پانامہ ،جواب جلسہ کی اس مہم کے دوران نواز شریف میرے آبائی گاؤںکے کوہستانی علاقے کوٹلی ستیاں بھی گئے۔پٹواریوں،ٹیچروں،درباریوں،صوبائی، وفاقی محکموں کے ذمہ داروں نے عظیم الشان ''حاضری‘‘ لگوائی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقے میں تعینات اکثر اہلکار کوٹلی ستیاں کے نہیں ہیں۔بلکہ باہر کے سفارشی لوگ ۔مری سے زیادہ خوبصورت ہِل سٹیشن پر فرمائشی پوسٹنگ کرواتے ہیں۔جہاں غریب لوگوں کے بجائے سستے پلاٹ ہمیشہ سے ان کا ٹارگٹ رہے۔اس جلسے میں وزیراعظم نے غریبوں کو ماموں بنانے کے لیے کہا مجھے کوٹلی ستیاں سے عشق ہے۔میں آ پ کے بغیر جی نہیں سکتا۔پھر جوشِ خطابت میں خودہی اعتراف کر لیا، دیکھ لو کوٹلی ستیاں والو آج 26سال بعد نواز شریف پھر تمہارے درمیان کھڑا ہے۔یہ سن کر کوٹلی ستیاں والے ہکے بکے رہ گئے۔بیچاروں نے سوچا ، اب انہیں بھی لمبی عمر پانے کے لیے کسی بابے سے پہاڑی جڑی بوٹی کا نسخہ لینا پڑے گا۔کیونکہ اگلے 4دورے مکمل کرنے کے لیے کوٹلی ستیاں سے عشق کرنے والے نواز شریف کو صرف104سال کا مزید عرصہ لگے گا۔میری ہمدردیاں کوٹلی ستیاں والوں کے ساتھ ہیں،اور جینا مرنا بھی۔جب میں وفاقی وزیر بنا تو کوٹلی ستیاں والوں سے عشق کا اظہار نہیں کر سکا۔لیکن کوٹلی ستیاں بار ایسوسی ایشن کے لیے سب سے اونچے پہاڑ پر خودچڑھا جہاں پر وکلاء کو لائرز کمپلیکس باعزت چیمبر گفٹ کیے۔
اگلے26سال بعد وزیراعظم پھرکوٹلی ستیاں جائیں گے۔ جو بزرگ آج 66سال کا ہے تب وہ 92سال کا ہو جائے گا۔وہ اپنے درمیان اپنے عاشق وزیراعظم کودیکھ کر کتنا خوش ہو گا۔ وزیراعظم جب کوٹلی ستیاں کا تیسرا دورہ کریں گے تب ان بابوں کی عمر 108سال ہو گی۔جب وزیراعظم کا چوتھا دورہ ہو گا تب بابے عمر کی سینچری بنا کر اپنا نام دنیا کے طویل العمر بابے کی حیثیت سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھوانے کے لیے بیتاب ہو ں گے۔اگر جمہوریت اسی تیز رفتاری سے چلتی رہی تو بر سرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کے مالکان انشاء اللہ کوٹلی ستیاں کے اگلے8,7دورے کر کے نہ صرف لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔بلکہ کوٹلی ستیاں میں خود کفیل پرائمری سکول بنانے میں خود بھی حصہ داربنیں گے۔وہی خود کفیل پرائمری سکول جس کی بنیاد دانش پر رکھی گئی۔ہماری مراد اُسی دانش سے ہے جس کے سوتے آف شور کمپنیوں کے بھاری بھرکم اکاؤنٹس میں جمع کی گئی اصلی تے وڈی دانش سے پھوٹتے ہیں۔
سوال پانامہ ...جواب جلسہ والی مہم سے نواز شریف کے ممنون و مشکور صدر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔صدر ممنون نے ہمارے دوست سدا بہار وزیر ِ سپورٹس کے تیار کردہ سپورٹس فیسٹول والے ہومیو پیتھک جلسے میں شرکت کا فیصلہ کیا۔جس میں زیادہ تر سرکاری محکموں اور سرکاری سکولوں کو مدعو کیا گیا۔متعلقہ وزیر ریاض پیرزادہ صاحب نے مجھے بھی تقریب میں شرکت کی پارلیمنٹ میںپہلے زبانی دعوت دی پھر تحریری کارڈ آیا۔سٹیج سیکرٹری یا اناؤسر نے جونہی سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد میں مدعو ہزاروں شرکاء سے کہا اب آپ بھرپور طریقے سے صدرِ مملکت کا استقبال کریں تو لوگ فوراََ مان گئے۔انہوں نے استقبال کا موقع غنیمت سمجھا ۔چنانچہ شرکاء نے گو نواز گو کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کر دئیے۔اس تاریخی استقبال کی ویڈیو کئی ٹی وی پروگراموں میں دکھائی جا چکی ہے۔یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد مجھے خیال آیا اچھا ہی ہوا میں ریاض پیرزادہ صاحب کی دعوت بھول گیا۔ورنہ اسلام آباد میں صدر ممنون کے اس تاریخی استقبال کا سارا کریڈٹ حکومت میرے کھاتے میں ڈال دیتی۔حالانکہ سٹیڈیم میں جلسے کے شرکاء خالص ''عوام‘‘ تھے۔ان میں نہ کوئی سیاسی کارکن شامل تھا نہ ہی کوئی معروف سیا سی شخصیت ۔اس تقریبِ پذیرائی کے بعد صدر کی تقریر وہی تھی جس پر حبیب جالب کا شعر تھوڑ ے سے تصرف کے ساتھ فٹ بیٹھتاہے۔
جو بات تھی دل میں وہی،'' نعروں‘‘ سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ''تقریر ‘‘کہاں تھی؟
دنیا بھر کے فوجداری قوانین میںپاگل پن کو باقاعدہ دفاع مانا جاتا ہے۔جن ملکوں میں قتل کی سزا موت ہے وہاں بھی پاگل کو سزائے موت نہیں دی جاتی۔ایک چالاک ملزم نے اپنے وکیل سے پوچھا سزائے موت سے صاف بچ جانے کا قانون کیا ہے؟ وکیل نے کہا پاگل پن۔ملزم نے جوتا کاٹ کر ٹوپی بنائی،اسے سر پر رکھا۔قمیض پھاڑ کر لنگوٹا بنایا ۔باقی کپڑے اتارے اور پاگل پن کی ایکٹنگ کرتا ہوا عدالت پہنچا۔مقدمہ قتل کے ٹرائل کے دوران چالاک ملزم پاگل پن کے سارے گن آزماتا رہا۔آخر کار جج نے اسے پاگل قرار دے کر بری کر دیا۔ہتھکڑی کھلی اورملزم عدالت سے باہر نکلا۔آگے وکیل صاحب فیس کے انتظار میں کھڑے تھے۔کہنے لگے تم بری ہو گئے وعدے کے مطابق فیس دے دو۔پاگل نے پاگل پن کی ایکٹنگ کی کچہری سے دوڑ لگائی اور باہر نکل گیا۔
جن لوگوں نے دوڑ لگا کر آف شور کمپنیاں ملک سے باہر جا کر بنائیں۔وہ کچھ بھی کر لیں قانون انہیں سزا کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔اس قانون کو قدرت کا انصاف(Divine Justice) کہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved