تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-05-2016

جمہوریت اور انقلاب

ایک جمہوری نظام کے سائے میں ،کیا انقلابی جد وجہد ممکن ہے؟
میرا جواب ہے: نہیں۔جو لوگ ایک جمہوری نظام میں رہتے ہوئے انقلابی تبدیلی کی بات کرتے ہیں، وہ غلط بیانی کرتے ہیں یا پھر وہ جمہوریت سے واقف ہیں نہ انقلاب سے۔جمہوریت خود ایک انقلاب ہے۔اس نے انقلابی جد وجہد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔اب اگر کوئی اصلاح کا علم بردار ہے تو اس کے لیے صرف تدریج کا طریقہ باقی ہے۔اس کے سوا صرف ہیجان ہے اور رومان۔
جدید تاریخ میں انقلاب کا تصور اشتراکیت سے آیا ہے۔اشتراکیت نے تبدیلی کا جو منہج دیا،اس میںایک جماعت انقلاب کے لیے جدو جہد کرتی ہے۔اس کے لائحہ عمل میںدونکات بنیادی ہیں۔احتجاج اور پروپیگنڈا۔مو جود نظام کے خلاف پروپیگنڈا اوراس کا عملی انکار۔سول نافرمانی، ٹیکس نہ دینا،نظام کے ہر مظہر کو بر باد کرنا اور اس میں شریک افراد کا قتلِ عام۔اس جدو جہد کو ایک جماعت منظم کر تی ہے۔اس جماعت کا ایک مرکزی حصہ ہے جو خفیہ طریقے سے حکمتِ عملی بناتا ہے جس سے پارٹی کے دوسرے لوگ آگاہ نہیں ہوتے۔دوسرے صرف حکم مانتے اور وہ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ رہتے ہیں جس کا حکم پارٹی کا مرکزی شعبہ دیتا ہے۔یہ سب ایک نظریے کے ساتھ رومانوی تعلق رکھتے ہیں۔ رومان ایک ایسا معاشرہ کا جس میں صرف ایک طبقہ ہے۔کوئی حاکم ہے نہ محکوم۔وہ خواب دیکھتے ہیں کہ :''اب راج کرے گی خلقِ خدا ، جو میں بھی ہوں، جوتم بھی ہو‘‘۔
جو لوگ اس رومان سے وابستہ ہوجاتے ہیں وہ اس انقلاب کے لیے سب کچھ کرگزرنے پر تیار رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ خون بہانے پر بھی۔ماؤ اور لینن جیسے اس انقلاب کے بانیوں کا کہنا تھا کہ انقلاب کے لیے خوب بہانا ناگزیر ہے۔اس کے بغیر انقلاب ممکن نہیں ہو تا۔یہ انقلابی جد وجہد ایک نظم کی پابند تو ہوتی ہے ،کسی اخلاقیات کی نہیں۔اس کا جواز ،اس دور میں یہ تھا کہ جاگیر دار یا سرمایہ دارنے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔وہ کسان اور مزدور کی محنت سے سرمایے میں مسلسل اضافہ کر تا چلا جا تا ہے مگر وسائل میں انہیں شریک نہیں کرتا۔ اس کسان اور مزدور کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ اسے حق نہیں ملتا۔اس کے لیے سب دروازے بند ہیں۔اس کے بعد کسان حق رکھتے ہیں کہ وہ جاگیر دار کو قتل کر کے زمینوں پرقبضہ کر لیں۔مزدورحق رکھتے ہیں کہ کارخانہ مالک کو مار کر اس کے کارخانے پر قابض ہو جائیں۔ 
سرمایہ دارانہ نظام نے اس کا توڑ نکالا۔اس نے جمہوریت کا تصور دیا اور فلاحی ریاست کا بھی۔جمہوریت سے مزدور اور کسان سیاسی نظام میں شریک ہو گئے۔فلاحی ریاست نے اس کے حقوق طے کر دیے۔ جیسے کم از کم اجرت اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی۔اسی طرح اس نے عام افراد کو جلسے جلوس اور اپنی بات کہنے کا حق بھی دے دیا۔اس کے ساتھ آئین اور عمرانی معاہدے کا تصور بھی آگیا۔گویا ان اصلاحات نے وہ جواز ختم کر دیا جو کسی انقلاب کے حق میں پیش کیا جا سکتا تھا۔یہ اصلاحات خود ایک انقلاب تھا جسے ہم جمہوری انقلاب کہتے ہیں۔اس کے بعد کسی انقلاب فلسفے کے پنپنے کا امکان ختم ہوگیا۔اشتراکیت قصہ پارینہ بن گئی۔آج دنیا میں کہیں انقلاب کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔سوائے،ان ملکوں کے جہاں بادشاہتیں ہیں یا آ مریت۔
بیسویں صدی کے اوائل میں، جب اشتراکیت اورانقلاب کا فلسفہ نو جوانوں میں مقبول ہو رہا تھا توبعض مسلمان مفکرین نے اس کا اسلامی ایڈیشن پیش کیا۔انہوں نے کمیونزم کے مقابلے میں اسلام ازم کا تصور دیا۔اسلام کو بھی ایک متبادل نظام کے طورپر پیش کیاگیا اور اس کو قائم کرنے کے لیے انقلابی جد وجہد کا تصور سامنے آیا۔اس مقصد کے لیے کیمونسٹ پارٹی کی طرز پر جماعت سازی ہوئی۔جماعت کے وابستگان کو گروہوں میں تقسیم کیاگیا۔ایک مجلس عاملہ اور شوریٰ کا تصور دیاگیا جو بنیادی فیصلے کے فورمز ہیں۔اس میں بھی اسلامی انقلاب کا رومان نو جوانوں کے لیے کشش کا سبب بنا۔پاکستان میں جماعت اسلامی اسی کی علم بردار تھی۔
جماعت اسلامی کی بنیاد چو نکہ ایک جید عالمِ دین مو لانا سید ابو اعلیٰ مودودی نے رکھی۔اس لیے وہ اس کا شعور رکھتے تھے کہ دین مسلمانوں کے نظم ِ اجتماعی کے خلاف کسی انقلابی جد وجہد کی اجازت نہیں دیتا۔اس لیے انہوں نے جماعت اسلامی پاکستان کا جو دستور بنایا ،اس میں یہ طے کر دیا کہ وہ خفیہ حکمت عملی اپنائیں گے اور نہ آئین کے خلاف کوئی اقدام کریں گے۔وہ رائے عامہ کی تبدیلی کے ساتھ انقلاب لائیں گے۔اس لیے جماعت اسلامی نے ہمیشہ جمہوری جدو جہد کی۔ 
یہ ایک تضاد تھا جسے نبھانا جماعت کے لیے مشکل ہوگیا۔اگر اسلام ایک انقلاب ہے اور اسے برپا ہونا ہے تو انقلاب کی جد وجہد کسی جمہوری نظام کے تابع رہ کرنہیں ہو سکتی۔جب فکری سطح پرحکمرانوں کو طاغوت قراردے دیا گیا تو پھر ان کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔اس لیے کہ طاغوت کی اطاعت کفر ہے۔مصر میں بھی یہی تضاد ابھر کر سامنے آیا۔وہاں ایک گروہ نے اس تضادکو دور کر دیا۔انہوں نے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کی اور اس کے بعد شریعت کی قید ختم ہوگئی۔القاعدہ اسی فکر کی ترقی یافتہ اور ناگزیر شکل تھی۔پاکستان میں بھی، ابتدا میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اس تضاد کو دور کیا۔ وہ مو لانا مودودی سے ایک قدم آگے گئے اور انہوں نے رائے عامہ کو ہم نوا بنانے تک، خود کو محدود نہیں کیا۔انہوں نے اس کے بعد انقلاب کا ایک اور مرحلہ بیان کیا اور وہ تھاحکمران طبقے کے ساتھ مسلح تصادم۔
میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ اجتہاد اس فلسفے کا ناگزیر نتیجہ تھا جو اسلام کو ایک ازم اور انقلاب سمجھنے کے بعد برآمدہو نا چاہیے۔اسی وجہ سے جماعت اسلامی سے نکل کرکئی نوجوانوں نے القاعدہ کا انتخاب کیا ۔ اب جماعت اسلامی ایک بار اس راستے پر چلتی دکھائی دیتی ہے کہ جمہوری جد وجہد سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ووٹ سے تبدیلی نہیں آئے گی،اس کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
عمران خان بھی اسی تجربے کو دہرا رہے ہیں۔وہ ایک جمہوری نظام میں رہتے ہوئے، انقلابی جد وجہد کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایک تضاد ہے۔تضاد آ دمی کو بر باد کر تا ہے۔وہ اِدھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔وہ جمہوری نظام میں رہنا چاہتے ہیں لیکن اس کی کسی قدر کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں۔عدلیہ کو وہ نہیں مانتے۔ پارلیمنٹ پر انہیں یقین نہیں۔انتخابی نظام ان کے نزدیک ناقابل بھروسہ ہے۔یہ نظام ان کے خیال میں اتنا ناقابلِ اعتبار ہے کہ وہ اسے پارٹی کے اندر بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔تبدیلی وہ یہ چاہتے ہیں کہ نظام راتوں رات کرپشن سے پاک ہو جائے۔یا ان کے خیال میں اگر نواز شریف صاحب کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے تو نظام کرپشن سے پاک ہو جائے گا۔مجھے حیرت ہے کہ وہ اتنے سارے تضادات کے ساتھ کیسے سیاست کر تے ہیں اور حیرت در حیرت اُن پر ہے جو بقائمی ہوش و حواس یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح تبدیلی آجائے گی۔رومان اور ہیجان کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ آدمی سوچنے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتاہے۔
اگر عمران خان انقلاب لاناچاہتے ہیں تو یہ کسی جمہوری نظام میں ممکن نہیں۔اس کے لیے انہیں اب کھل کر بات کر نا ہوگی۔اگر وہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ اس نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کا لائحہ عمل طے کریں۔مجھے خدشہ ہے کہ ان کی مو جودہ حکمت ِ عملی ان کے لیے تو خسارے کا باعث بنے گی، یہ جمہوریت اور ملک کے ،لیے بھی اچھا شگون نہیں ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved