بھارتی ججوں کے فیصلے
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایک سرکاری افسر کی برطرفی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے گئے ہیں کہ وکلاء ہر معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی مثال نہ دیا کریں کیونکہ ضروری نہیں کہ بھارتی عدالت کے فیصلے کا پاکستانی حالات سے تعلق ہو۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ ہماری بلکہ دنیا بھر کی عدالتوں میں دنیا بھر کی عدالتوں کے فیصلوں کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور انہیں درخوراعتناء بھی قرار دیا جاتا ہے‘ بیشک انہیں قبول نہ بھی کیا جاتا ہو۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی مثال پیش کرنا اس لیے بھی نامناسب نہیں کہ دونوں ملکوں کے حالات میں انتہا درجے کی مماثلث ہے جبکہ ایک مستحکم جمہوریہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال بھی ہم سے بہتر ہے جس کے مقابلے میں ہمارے ہاں نظریہ ضرورت کے تحت بھی فیصلے ہوتے رہے ہیں حتیٰ کہ ایک سابق چیف جسٹس کا ایک سیاسی پارٹی کے حق میں اور دوسری کے خلاف عمومی رویہ بھی سامنے کی بات ہے۔
ایکراس دی بورڈ...؟
کرپشن کے خلاف ایکراس دی بورڈ ایکشن کی اصطلاح ہمارے ہاں بہت عام ہو چکی ہے جو انہی دنوں میں آرمی چیف جنرل راحیل
شریف کے حوالے سے دہرائی جا رہی ہے اور جسے ملکی عوام کی طرف سے پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے اور جس کی مثال اور دلیل کے طور پر انہوں نے پچھلے دنوں متعدد سینئر فوجی افسروں کو کرپشن کے الزام میں سزا دیتے ہوئے گھر بھی بھیج دیا اور جس کی وجہ سے پنجاب میں کرپشن کے خلاف کارروائی میں مزید آسانی پیدا ہوئی ہے اور اسے ہر سطح پر سراہا بھی گیا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ اچھی سزا ہے کہ آپ انہیں صرف نوکری سے محروم کرتے اور ان کی پنشن اور دیگر مراعات بھی بحال رکھتے ہیں جبکہ قانون میں کرپشن پر جیل کی سزا بھی ہے۔ اس کے علاوہ سابق فوجی افسران کی ملکیت جو طویل و عریض پلازے اور دیگر اثاثے اور بیرون ملک اور ملک کے اندر جو بینک اکائونٹس موجود ہیں اور جو ان کے ذرائع آمدنی سے کہیں بڑھ کر ہیں‘ ان کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ایکراس دی بورڈ کا تقاضا پورا ہو سکے اور صاحب موصوف کی بات میں زیادہ وزن پیدا ہو سکے۔
قبل از وقت الیکشن؟
ایک قیاس یہ بھی ہے کہ اگر وزیراعظم پر دبائو بڑھا تو وہ قبل از وقت الیکشن کروا سکتے ہیں‘ یہ بات اس لیے بھی درست لگتی ہے کہ آں حضرت پر دبائو بھی روز بروز بڑھ رہا ہے اور انہوں نے پبلک جلسوں سے بھی خطاب کرنا شروع کر دیا ہے جس کا مطلب بھی یہی ہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے ان کے پاس یہی آپشن باقی رہ جائے گا‘ تاہم سوال صرف یہ ہے کہ الزامات کا اتنا انبار سر پر اٹھائے ہوئے وہ کس منہ سے ایک بار پھر منتخب ہونے کے لیے عوام کے پاس جائیں گے جبکہ خدشہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں مزید ایسے واقعات بھی رونما ہو سکتے ہیں کہ ان کا یہ آپشن بھی کارگر ثابت نہ ہو۔ جس جمہوریت کا رونا بار بار رویا جاتا ہے اس کی واحد جلوہ گاہ پارلیمنٹ ہے جس کا سامنا کرنے سے آپ روز اوّل ہی سے کترا رہے ہیں کہ وہاں تندوتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا جواب ان کے پاس ہے ہی نہیں ورنہ وہ کب کے وہاں جا چکے ہوتے۔
کون سے جوڈیشل کمشن؟
لُطف یہ ہے کہ ایک دو روز میں اس خط کی حقیقت بھی کھلنے والی ہے جو ایک جوڈیشل کمشن کے قیام کے لیے چیف جسٹس کو لکھا گیا تھا۔ علاوہ اس کے اس کی ٹرمز آف ریفرنس ہی اس قدر مضحکہ خیز اور ناقابل العمل ہیں کہ چیف جسٹس کو کسی صورت منظور نہیں ہوں گی جبکہ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ آئین میں ایسے جوڈیشل کمشن کے قیام کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ آئین پاکستان کے مطابق وزیراعظم صرف انکوائری کمشن قائم کر سکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں کئی بار ہوا ہے اور جن کے نتائج بھی عوام کے سامنے ہیں‘ اس لیے وزیراعظم کو اس صدمے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو چیف جسٹس کے ردعمل یا جواب کی صورت میں ہو گا کیونکہ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ چیف جسٹس سے ایک ایسے کمشن کی سربراہی کی اُمید رکھی جائے جس کی آئین میں سراسر
گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے وزیراعظم کو کسی نئے پینترے کے بارے میں سوچ رکھنا چاہیے کہ یہ تو مِس فائر ثابت ہو گا اور وزیراعظم کو اس کا علم بھی تھا لیکن محض اپنی طبع رسا کے پیش نظر بلکہ مجبوری کے عالم میں انہیں مذکورہ خط بھی لکھنا پڑا تھا‘ چنانچہ ایک بار تو وہ کہہ سکیں گے کہ میں نے تو اپوزیشن کے مطالبے پر خط لکھ دیا تھا‘ اب چیف جسٹس ہی نہیں مانتے تو میں کیا کر سکتا ہوں‘ ہیں جی؟
ڈبّے اور بوریاں؟
ہمارے دوست بیرسٹر اعتزاز احسن کا یہ دلچسپ بیان اپنی جگہ کہ سرمایہ ملک سے باہر ڈبوں اور بوریوں میں بند ہو کر نہیں گیا لیکن یہ بات اپنی جگہ بعدازقیاس ہے کہ پاناما لیکس کے موضوع پر پیپلز پارٹی اپوزیشن کے ساتھ ایک پیج پر آ جائے گی یا آ سکتی ہے‘ اس لیے کہ اندر سے دونوں کے حالات اور مجبوریاں ہی ایسی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ایک دوسری کے خلاف کھڑی ہو ہی نہیں سکتیں۔ اگرچہ اب پی پی والوں نے استعفے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے لیکن یہ بھی اصل نہیں لگتا۔
آج کا مطلع
بات کرنے کی اجازت بھی نہیں چاہتے ہم
تھی جو حاصل وہ سہولت بھی نہیں چاہتے ہم