بھارت کی شہرہ آفاق فلم ''شعلے‘‘ کا وہ منظر آپ کو ضرور یاد ہوگا جس میں سُورما بھوپالی (جگدیپ) اپنی لکڑی کی ٹال میں بیٹھے لمبی لمبی ہانکتے ہیں۔ سامنے تین چار بھولے بادشاہ بیٹھے ہیں اور سُورما بھوپالی بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے کس طور دو بدنامِ زمانہ غنڈوں جے دیو (امیتابھ بچن) اور ویرو (دھرمیندر) کو ''پکڑ‘‘ کر پولیس کے حوالے کیا! جب سُورما بھوپالی بتاتے ہیں کہ جے اور ویرو اُن کے پیروں پر گرگئے اور معافی مانگنے لگے تو وہاں بیٹھے ہوئے اُن کے سادہ لوح ملازمین حیرت میں ڈوب جاتے ہں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں کہ جے اور ویرو آکر سُورما بھوپالی کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سُورما بھوپالی مغلوب الجذبات ہوکر کہتے ہیں کہ اب جو میں نے دونوں کے گریبان پکڑ کر کہا ... اور یہ کہتے ہوئے سُورما بھوپالی جے اور ویرو کے گریبان پکڑ لیتے ہیں! اور اِس کے بعد ظاہر ہے کہ ''چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ والی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے! بڑھک مارنے کے عمل کے دوران رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر سُورما بھوپالی کی وہی کیفیت نظر آتی ہے جو بھیگی بلی کی ہوا کرتی ہے۔ اور پھر غصہ اترتا ہے اُن لوگوں پر جن کے آگے بڑھک ماری جارہی ہوتی ہے۔ سُورما بھوپالی اپنے جُھوٹ کے لیے اُنہیں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ خود تو دن بھر بیٹھے رہتے ہو اور پچیس جُھوٹ ہم سے بُلواتے ہو!
ایک ''شعلے‘‘ کے سُورما بھوپالی پر کیا موقوف ہے، ہر شادی شدہ سُورما بھوپالی کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پہلے جی بھر کے بڑھکیں ماری جاتی ہیں اور پھر جب غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے تب اُنہیں لتاڑا جاتا ہے جو بڑھک سننے کے لیے جمع ہوئے ہوتے ہیں!
بچے کو نیند نہیں آرہی تھی۔ اس نے ماں سے کہا : ''ممی، نیند نہیں آرہی۔ کوئی کہانی سنائیے۔‘‘ ماں نے بچے کو تھپکی دیتے ہوئے جواب دیا : ''بیٹا، نیند تو مجھے بھی نہیں آرہی۔ تمہارے ابو آجائیں تو ہم مل کر کوئی نئی اور دلچسپ 'کہانی‘ سنیں گے!‘‘
''جھوٹ پٹاری‘‘ گھر گھر پائی جاتی ہے جس میں طرح طرح کے بہانے ناگ کی صورت پھن پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں! تقریباً ہر شادی شدہ مرد ''وربل فکشن‘‘ کا ماسٹر ہوتا ہے! اور یہ کمال اُسے حالات عطا کرتے ہیں۔ آپ نے یہ کہاوت ضرور سُنی ہوگی کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ شادی شدہ مردوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ ہر طرح کی صورت حال کے مطابق کہانی گھڑنے اور خود کو مجبور و مظلوم ثابت کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں! آپ اِسے مَکّاری پر محمول نہ کریں۔ حق یہ ہے کہ بے چارے شوہر اِس معاملے میں صرف اور صرف مجبور ہیں۔ اگر وہ یومیہ بنیاد پر کہانیاں گھڑتے ہیں تو معاملہ یہ ہے کہ بیویوں کو بھی یومیہ بنیاد ہی پر کہانیاں درکار ہوا کرتی ہیں! کہتے ہیں شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ اس کہاوت کی روشنی میں دیکھیے تو میاں اور بیوی دونوں ہی کو شکر خوروں میں شمار کیا جانا چاہیے!
میاں کو نئے آئیڈیاز سُوجھتے ہیں اور وہ کہانیاں گھڑتے ہیں۔ بیویوں کو کہانیاں سُننے کا شوق ہے تو اُنہیں بھی قدرت کہانیاں سُنوا ہی دیتی ہے! الفاظ بدل دیجیے تو یوں کہا جائے گا کہ مایا کو ملے مایا، کرکے لمبے ہاتھ!
جُھوٹ بولنا عادت ہی نہیں فن ہے۔ بہت سے لوگ کام پر دیر سے پہنچنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ عادت اُنہیں دروغ گوئی کے فن میں طاق کرتی جاتی ہے۔ جو کام روز کرنا ہے (یعنی کام پر دیر سے پہنچنا ہے) اُس کے لیے جواز بھی یومیہ بنیاد پر گھڑنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ ہماری اپنی گھڑی ہوئی اصطلاح میں ''بھابی‘‘ کہلاتے ہیں۔ بہت سی عورتیں صرف اِتنا سُننے کی منتظر ہوتی ہیں کہ ''کیا بات ہے بھابی؟ کچھ پریشان لگ رہی ہو۔‘‘ اِس کے بعد وہ اپنی داستان کا پوٹلا کھولتی جاتی ہیں اور دنیا بھر کی رام کہانیاں اپنے سانچے میں ڈھال کر سُناتی جاتی ہیں! اِسی طور کچھ مرد بھی مزاجاً ''بھابی‘‘ ہی ہوتے ہیں یعنی اشارے کی دیر ہوتی ہے، پھر اُنہیں کنٹرول کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ؎
پُر ہوں میں درد سے یُوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے!
کام پر دیر سے پہنچنے والے جو کہانیاں یومیہ بنیاد پر گھڑتے ہیں اُنہیں اگر باضابطہ شکل دی جائے یعنی کہانی کے سانچے میں ڈھال کر لکھا جائے تو ایسی بُھول بُھلیّاں معرض وجود میں آئے کہ دُنیا پڑھے تو بیک وقت حیرانی و پریشانی سے دوچار ہو!
فیکٹر، دکان یا دفتر دیر سے پہنچنے پر جو کہانیاں سُننے کو ملتی ہیں وہ اگرچہ بہت حد تک دلچسپ ہوتی ہیں مگر اُن میں وہ نزاکتِ خیال کہاں جو گھر دیر سے پہنچنے پر شوہر سناتے ہیں! بڑے بڑے فکشن رائٹرز وہ کچھ نہیں سوچ پاتے جو گھر دیر سے پہنچنے کے عادی شوہر سوچتے ہیں اور بیان کرنے کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔ ہم نے جہان بھر کے ڈائجسٹ پڑھ رکھے ہیں۔ ڈائجسٹوں کی کہانیوں میں سپنس، تھرل، ایکشن، ڈراما، ایموشن ... سبھی کچھ ہوتا ہے۔ ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!
جس شخص کو رات آٹھ بجے گھر میں داخل ہونا ہو وہ آدھی کو گھر پہنچنے پر ''جہاں ہے، جیسا ہے‘‘ کی بنیاد پر جو کہانی تیار کرکے بیوی کے گوش گزار کرتا ہے اُسے ''فن کاری‘‘ کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ اپنے فن سے وہ بیوی کی ''پُھن کاری‘‘ کو آن کی آن میں بھسم کر ڈالتا ہے!
ہر معاملے کی طرح اِس معاملے میں بھی مرزا تنقید بیگ کچھ اور ہی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے جب شوہروں کی ''فکشن گیری‘‘ کا ذکر چھیڑا تو مرزا نے (بہت حد تک اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں) بتایا کہ جو کچھ شادی شدہ مردوں کو سوچنا اور کہنا پڑتا ہے وہ دراصل بڑی حد تک بیویوں ہی کا مرہون منت ہوتا ہے! ہم نے وضاحت چاہی تو بولے : ''بیویاں اُتنی بُودی نہیں ہوتیں جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ وہ بھولپن کا ناٹک رچاکر مزے لُوٹتی رہتی ہیں۔ اگر کوئی شادی شدہ عورت بات بات پر بے وقوف بنتی دکھائی دے رہی ہو تو سمجھ لو کہ وہ شوہر کو بے وقوف بنا رہی ہے! بیویاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ جو کہانیاں اُن کے شوہر سُناتے ہیں اُن میں حقیقت برائے نام ہی ہوتی ہے مگر پھر بھی وہ اُن کہانیوں پر یقین کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں کیونکہ اِسی صورت یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اُنہیں شوہروں کی زبانی نئی نئی، دلچسپ و چٹ پٹی کہانیاں سُننے کو ملتی رہتی ہیں! یقین کرنے کا ڈھنگ رچاکر ہی وہ شوہروں کو مزید 'فکشن گیری‘ کا حوصلہ عطا کرتی ہیں اور یُوں اُنہیں بخوبی اندازہ ہو پاتا ہے کہ شوہروں کے ذہن کتنے 'توانا‘ اور 'زرخیز‘ ہیں یعنی کائناتِ ذہن کی وسعتوں میں کہاں تک جاسکتے ہیں، کتنی دُور کی کوڑی لاسکتے ہیں!‘‘
مرزا کی بات سُن کر ہمارا ذہن تشویش ناک حد تک وسوسوں اور خدشوں کی دلدل میں دھنس گیا۔ شادی شدہ تو ہم بھی ہیں اور ہمیں بھی بہت حد تک ''فکشن مائنڈیڈ‘‘ ہوکر (گھریلو) زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے! کالم نگاری سے ہمیں اِتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بیگم کے گوش گزار کرنے کے لیے کہانیاں گھڑنے پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ مگر ہم آپ پر واضح کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ہمارے ذہن کی جیسی جَولانی آپ کو ہمارے کالموں میں پڑھنے کو ملتی ہے وہ اُس جَولانی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ہمیں گھر کی دہلیز (اندر کی طرف) پار کرتے ہی دکھانی پڑتی ہے! کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ گھر واپسی پر جو کہانیاں سُنانی پڑتی ہیں اُنہیں ذرا سی محنت سے باضابطہ شکل دے کر ضبطِ تحریر میں لے آئیں تاکہ دُنیا والوں کو کچھ تو معلوم ہو کہ فکشن دراصل ہوتا کیا ہے! مگر پھر خیال آتا ہے کہ کچھ تو ہو جس کی پردہ داری ہو! اور ویسے بھی ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ باقاعدگی سے، پیشہ ورانہ سطح پر فکشن لکھنے والوں کے پیٹ پر لات پڑے۔ ہمارے گھر کی کہانیاں عام ہو جائیں تو ہمیں شاید کچھ خاص نہیں پڑے گا مگر اُن کا تو دھندا ہی چوپٹ ہوجائے گا جو ٹوٹی پُھوٹی کہانیاں لکھ کر اہلِ خانہ کا پیٹ پالتے ہیں!
آپ بھی اپنے گھر کی کہانیوں کو کبھی ضبطِ تحریر میں لانے کا مت سوچیے گا۔ اوّل تو یہ کہ ایسا کرنے سے آپ خود بعد میں سوچیں گے کہ چند معاملات پر اگر پردہ پڑا ہی رہتا تو اچھا تھا۔ اور دوم یہ کہ گھریلو کہانیان بیان کرنے سے ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی
والی کیفیت بھی پیدا ہوجایا کرتی ہے! اچھا ہے کہ گھر کی چار دیواری میں پنپنے والا فکشن آئندہ نسلوں تک ''سینہ گزٹ‘‘ کی صورت پہنچے!