تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-05-2016

ایک کم‘ چار شیروں کی کہانی

سوچا یہ ہے کہ لاہور میں گزشتہ روز کے جلسہ عام پر خود کوئی رائے زنی نہ کروں۔ میاں صاحب کے متوالے اور جیالے عاشق زعیم قادری کے بقول ''رائیونڈ کی طرف بڑھنے والے تحریک انصاف کے لوگوں کا بندوبست مسلم لیگ (ن) کے متوالے خود کریں گے۔‘‘ انہوںنے اپنی بات میں لچک پیدا کرتے ہوئے کہاکہ ''رائیونڈ کی طرف رخ کرنے والوں کو میں انتباہ کرتا ہوں اور میری یہ باتیں نوٹ کر لی جائیں کہ میاں صاحب کے متوالے اور پرستار‘ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ‘‘
وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ ''جلسے میں حاضرین کی تعداد 5ہزار سے بھی کم تھی۔‘‘مجھے اندازہ نہیں کہ 5ہزار سے کم تعداد کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ میرا خیال ہے یہ حد سوڈیڑھ سو سے شروع ہوتی ہو گی۔ اس حساب سے دیکھا جائے‘ تو رائیونڈ جانے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ایک سو ہو سکتی ہے۔ جن میں سے ٹانگیں تڑوانے والے پندرہ بیس احمق ہو سکتے ہیں۔ میاں صاحب کے پرستار جتنی ٹانگیں توڑ کرگرائیں گے‘ اگر وہ سب لکڑی کی ہوئیں‘ تو پرستاروں کے ہاتھ کیا لگے گا؟ عمران کے جیالے‘ جو اپنی ٹانگوں پر چل کر آئے ہوں گے‘ وہ میاں صاحب کے پرستاروں کی طاقت کا اندازہ کر کے ‘جان بچانے بھاگیں گے اور جو جان بچا کر بھاگتا ہے‘ اس کی دوڑ زیادہ تیز ہوتی ہے۔ جبکہ پرستاروں کے پیٹ خوب بھر دیئے جاتے ہیں۔ ان کے دوڑنے کی رفتار‘ جان بچانے والوں جتنی تیز نہیں ہو سکتی۔ 
وزیروں کے حوالے سے عمران خان کے بارے میں کہا گیا کہ ''وہ چوہے نہیں مار سکتے‘ شیروں سے کیا مقابلہ کریں گے؟‘‘ اگر عمران خان کو مارنے کے لئے چوہوں سے ہی واسطہ پڑے‘ تو وہ کیا کریں؟ شیر شہروں میں کم ہی ہوتے ہیں۔جو ہوتے ہیں‘ وہ مسلم لیگ(ن) میں چلے جاتے ہیں۔ باقی سب کچھ آپ جانتے ہیں۔ شیر کوصرف کھانے سے غرض ہوتی ہے۔ راجن پور کا چھوٹو اب محفوظ جگہ پہنچ چکا ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد وہ پلے ہوئے شیروں کو کھانا شروع کرنے والا ہے۔ ایک شیر کو ہاتھ ڈالاگیا ‘تو اس کے بچے کو غیبی امداد مل گئی۔ اسے جو آزادی میسر نہیں تھی‘ حاصل ہو گئی۔ اب وہ لمبی لمبی چھلانگیں لگانی شروع کر چکا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے پہلی چھلانگ لگا کر سب کو حیران کر دیا۔ اس نے میدان میں قدم رکھتے ہی‘ جمانے شروع کر دیئے۔ اس کے مضبوط قدموں کا پہلا اشارہ یہ ہے کہ نوجوان شیر نے‘ اپنی بھٹکی ہوئی پارٹی کو منظم کر کے‘ ایک سمت میں چلنے کی راہ دکھا دی۔ کل بوڑھے شیروں کی جوڑی میں سے‘ چھوٹے شیر نے جواں سال شیر کی کہانی ایک جلسے میں یوں بیان کی''ایک بچہ ‘ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہا ہے۔ اس کے باپ کی کرپشن بتائی گئی‘ تو دم سادھ کر لاڑکانہ جا بیٹھے گا۔‘‘ شہبازشریف کی سنائی گئی کہانی میں اس سیاسی حقیقت کا انکشاف ہے‘ جس کا پہلا ثبوت تو جواں سال شیر کی چھینی گئی آزادی کا ‘اسے واپس مل جانا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آج شام کو دوسرے شیروں کے اجتماع میں جا کر‘ وہ ایک مشترکہ پالیسی پر اتفاق کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی قومی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ چھوٹے شیر کو پنجرے میں بند کرنے کی جو کہانی‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کھولی ہے‘ وہ یہیں پر ختم نہیں ہو گی۔ آگے بھی اس کے تین حصے باقی ہیں۔ کہانی شروع کرنے والے شیر کا اپنا بڑا بھائی بھی میدان سے باہر ہونے والا ہے۔ اسے آزادی ملتی ہے یا عمران خان کا بتایا ہوا انجام؟ یہ فیصلہ ان دنوں زیرعمل ہے۔ وہ کن مرحلوں سے گزرے گا اور کب اور کہاں تک جائے گا؟ یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ہو گا اور یہ وقت زیادہ طویل نہیں۔ 
اس کہانی میں تیسرا کردار یا تیسرا شیر ‘جان بچانے کے لئے طویل مدت سے کچھار میں بیٹھا گھاتیں لگا رہا ہے۔ اس کے چیلے چانٹے بہت تیز طرار ہیں‘ جو ذرا ذرا سی بات پر دھاڑنے لگتے ہیں۔ لیکن اس شیر کو بھی جھٹکا لگا کر آخر کار قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہو گی کہ وہ سرکس کے شیر کی طرح اشاروں پر کرتب دکھانا شروع کر دے۔ وہ شیر کچھار میں بیٹھ کر بھی محفوظ نہیں۔ اس کی دھاڑ کی گونج‘ اس کی پناہ گاہ تک محدود کر دی گئی ہے‘ جو پاکستان سے بہرحال دور ہے۔ لیکن اس کا دائرہ کار سمٹ چکا ہے۔ باقی وہ ساری دنیا کے لئے دھاڑ سکتا ہے۔ مگر اس کی دھاڑ سے متاثر ہونے والے محفوظ رہتے ہیں۔ چوتھا شیر میرے کاغذوں میں کہیں روپوش ہے۔ کل تلاش کر کے دیکھوں گا۔ ہو سکتا ہے یہ کاغذی شیر ہی نکلے۔
کل جو بائونسرز عمران کے جلسے میں‘ شرپسندوں کی سرکوبی کرنے کے لئے ڈیوٹی پر لگائے گئے تھے‘ یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ میاں نوازشریف صاحب نے بھی بڑے بڑے کہنہ مشق بائونسرز پال رکھے ہیں۔ جب عمران خان سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں اترتے ہیں تو یہ بائونسرز بھی کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ ان کی گنتی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جس میدان میں ان کی گنتی بڑھ رہی ہے‘ اس میں انہیں پالنے والوں کے دن گھٹتے جا رہے ہیں۔ ایک بائونسر نے ٹسوئے بہاتے ہوئے‘ اپنے سرپرست کی دردناک کہانی بیان کی ہے۔ جس میںان کے دو بچوں کی تکالیف اور اذیتوں کے اشک آور قصے کہانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن سب افسانہ طرازی ہے۔ یہ دو بچے تو شاہی جلاوطنی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اسی لطف اندوزی کے دوران انہوں نے حیرت انگیز دولت کمائی۔ یہ کمائی اتنی زیادہ تھی کہ آف شور کمپنیاں بھی کھولنا پڑیں اور ان میں ہذامن فضل ربی کی بوچھاڑیں ہوتی رہیں۔ یہ بائونسر دردناک کہانی بیان کرتے ہوئے‘ اتنا جذباتی ہو رہا تھا کہ اسے کئی مرتبہ اپنے آنسو پونچھنے کے لئے پس پردہ جانا پڑا۔ اس کے پس پردہ آنسو ‘ اس کے الفاظ سے بھی ٹپکتے رہے۔ لیکن لفظوں سے ٹپکنے والے آنسو نہ دکھائی دیتے ہیں اور نہ دامن کو تر کرتے ہیں۔ یہ کرائے کے آنسو ہوتے ہیں‘ جن کے بہنے کا بھاری معاوضہ وصول کیا جاتا ہے۔ انہیں بااختیار پوزیشنوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ ان پوزیشنوں کے اختیار سے ‘یہ اپنی قوت میں اضافہ کر کے‘ خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ ان میں سب سے دردناک کہانیاں بیان کرنے والا بائونسر‘ ظلم کے زمانوں میں شدید تکالیف سے گزرا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تکالیف ہی اس کی علت بن گئی ہیں۔ آسودگی میں بھی وہ آنے والی تکلیفوں کے لئے تیار رہتا ہے اور جب بھی آسودہ زندگی سے نکل کر سامنے تکالیف کے مرجھائے ہوئے گلشن کو دیکھتا ہے‘ تو لڈی ڈالتے ہوئے اس کے اندر پہنچ جاتا ہے۔ اب اسے زندگی کی آسودگی سے بیزاری ہونے لگی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ اس مرتبہ آزار سے بچ رہے گا اور شاید اس نے کسی خواب میں آسودگی کے ثمرات جمع کر کے‘ محفوظ کئے ہوں۔ اس قماش کی زندگی گزارنے والے ‘عموماًامکانی دنوں کے لئے کچھ نہ کچھ زاد راہ جمع کر لیتے ہیں۔ مگر اس کی ماضی کی زندگی میں خوشیاں بہت کم رہیں۔ انتقام کے آخری لمحات میں‘ اسے پناہ کی جو جگہ عطا ہوئی‘ وہ بڑی تکلیف دہ تھی۔ میںنے اس تکلیف دہ زندگی کی ایک جھلک دیکھی ہے اور دعا گو ہوں کہ وہ اپنی نئی مصروفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ آسودگی کے چار ''ٹوٹے‘‘ جمع کر لے۔ اگر وہ ایسا کر رہا ہے‘ تو مجھے خوشی ہو گی۔ لیکن اس نے اپنی عادت کے مطابق پھر چھلانگ لگا کر‘ تکلیف دہ زندگی کامیدان چن لیا‘ تو مجھے حیرت نہیں ہو گی۔ ایسے لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ جو کام اپنے لئے نہیںچنتے‘ دوسروں کے لئے کر گزرتے ہیں اور جو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ وہ اس کا صلہ کبھی نہیں دیتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved