تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     03-05-2016

سیاست میں اخلاقیات کا مسئلہ ؟

یکم مئی کو لاہور کے چیئرنگ کراس پر عمران خان کی تقریر میں نئی بات کیا تھی ؟آئندہ اتوار کو فیصل آباد میں جلسہ !۔۔۔ اس کے ساتھ انہی الزامات کا اعادہ جو لوگوں کو زبانی یاد ہو چکے اورپھر پانامہ لیکس کے حوالے سے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ لیکن اس کا اعلان تو وزیراعظم قوم کے نام بائیس اپریل کے خطاب میں کر چکے ۔اس کے لئے جناب ِ چیف جسٹس کو باقاعدہ خط کے علاوہ ٹرمز آف ریفرنس بھی بھجوائے دیئے گئے ۔عالی مرتبت چیف جسٹس تُرکی کے دورے سے واپس آ چکے ہیں اب انہیں اپنے رفقاء سے صلاح مشورے کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہے ۔سندھ میں شو آف ہینڈز کے ذریعے بلدیاتی سربراہوں کے الیکشن کیخلاف پٹیشن کی سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا ، ہم سے ہر معاملے میں سوئوموٹوکا تقاضا کیا جاتاہے کیاہر معاملے میں ایکشن لینا ہمارا کام ہے؟ تحقیقاتی کمیشن بنانا ، تفتیش کرنا ہمارا کام ہے یا انتظامیہ کا ؟ ؟ ظاہر ہے یہ جنابِ چیف جسٹس کے "ریمارکس"تھے ، فیصلہ نہیں تھا ۔ تاہم ہمارے بعض دوستوں کے ذہنوں میں اب بھی یہ سوال موجودہے کہ کیا چیف صاحب جوڈیشل کمیشن کے قیام پر رضامند ہو جائیں گے ؟ اورکیا اس صورت میں اس کی سربراہی بھی خود کریں گے یا یہ بھاری پتھر کسی اور سینئر رفیق کے سپرد کر دیں گے؟ مثلاََ جنابِ جسٹس ثاقب نثار جو سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں اور چیف صاحب کی عدم موجودگی میں ان کے جانشین ہوتے ہیں ۔ اور کیااس صورت میں عمران خان خود چیف صاحب کی سربراہی پر اصرار نہیں کریں گے ؟ وہی بات جو ہمارا ایک ستم ظریف دوست کہتا رہتا ہے، خان کا کیا ہے؟وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے ، کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ لیکن ایک دوسری رائے بھی ہے ، یہ کہ اپوزیشن جماعتوں کا اصرار رہا تو چیف جسٹس اپنی سربراہی میں کمیشن کے قیام پر رضا مند ہو جائیں گے اس کے لئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مثال موجود ہے جنہوں نے اپنی جوڈیشل پالیسی میں عدلیہ کو انتظامیہ سے مکمل طورپر علیحدہ کر دیا تھا کہ ہم صرف اپنے عدالتی فرائض انجام دیں گے ۔ چنانچہ 2013ء کے عام انتخابات کے لئے عدلیہ کی خدمات مہیا کرنے سے وہ انکاری تھے۔ یہ خود عمران خان اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم جن کے اصرارپر وہ عدلیہ کی خدمات مہیا کرنے پر آمادہ ہو گئے(اور الیکشن کے بعد خان صاحب سے مسلسل گالیاں کھاتے رہے ۔ )پھر چیف جسٹس ناصرالملک نے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے اپنی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا بھاری پتھر اٹھالیا ۔TORsمیںیہ بات شامل تھی کہ کمیشن نے انتخابی نتائج کو عوام کے حقیقی مینڈیٹ کا عکاس قرار دیتے ہوئے ، منظم دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے تو عمران خان یہ الزامات واپس لے لیں گے لیکن اس حوالے سے خان کا رویہ کیا ہے ؟ وہ اب بھی وقتاََ فوقتاََ، موقع بہ موقع موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کودھاندلی کی پیداوار قرار دیتے رہتے ہیں ۔ 
حکومت نے پانامہ تحقیقات کے TORsمیں قرضوں کی معافی کا معاملہ بھی شامل کر دیا ہے ، خان جسے اصل معاملے کو لمباکھینچنے کی حکمت عملی قرار دیتا ہے ۔ بقول اس کے ،اس میں تو برسوں لگ جائیں گے ۔ حالانکہ یہ سود خور بنئیوں کے برسہا برس پرانے بہی کھاتوں کو ڈھونڈ نکالنے اور انہیں کھنگالنے کا معاملہ نہیں ۔سب حساب کتاب کمپیوٹرز میں موجود ہے اور خود سٹیٹ بینک کہہ چکا کہ وہ یہ سارا ریکارڈ کسی بھی وقت پیش کرنے کوتیار ہے ۔ تو کیا خان کو اپنے سیاسی دستِ راست (اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ میں دوسری پوزیشن کے حامل ) جناب ِجہانگیر ترین کے حوالے سے خوف درپیش ہے جن کے قرضوں کی معافی کے دستاویزی ثبوت سامنے آچکے ۔ اور گجرات کے چودھریوں کا معاملہ بھی ، جو 2014ء کے دھرنوں میں بھی معاون تھے اور اب کرپشن کے خلاف مہم میں بھی خان ان کے تعاون کا خواہش مند ہے(شاہ محمود قریشی اس سلسلے میں خان کے پیغام کے ساتھ چودھریوں کے ہاں حاضری بھی دے چکے ) خان 2002ء کی اسمبلی کے رکن تھے تو چودھریوں کے قرضوں کی معافی کی فائلیں پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں اخبار نویسوں کو دکھایا کرتے ۔ ترین اور چودھریوں کے علاوہ بھی قرضے معاف کرانے والوں کی لمبی فہرست ہے جنہیں ساتھ ملا کر خان" کرپشن کے خلاف مہم" چلانا چاہتے ہیں(اصل میں نواز شریف کے خلاف مہم ) ۔
خان ابتداء میں صرف شریف فیملی کے خلاف انصاف کی بات کرتا ہے ۔ لیکن ہفتے کی سہ پہر لاہور میں اخبار نویسوں سے ملاقات میں وزیراعظم اس خواہش کا اظہار کر چکے کہ جوڈیشل کمیشن تحقیقات کا آغاز ان کے خاندان سے کر لیں ۔ 
پانامہ پیپرز کی دوسری قسط 9مئی کو آنے والی ہے لیکن اس سے پہلے ہی آف شور کمپنی کے حوالے سے جناب ِ جہانگیرترین کا نام بھی آ چکا ۔ جنابِ ترین لندن میں اس آف شور کمپنی کا اعتراف کرتے ہیں ، اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ کمپنی ان کے چار بچوں ، علی خان ، مہر خان ، سحر خان اور مریم خان ، کی ہے جو بالغ اور خود مختار ہیں چنانچہ اس کمپنی کو ترین صاحب کی کمپنی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ جہانگیر ترین ان کمپنیو ں کا جواز بھی پیش کرتے ہیں ، برطانیہ میں اپنے اثاثوں کی مینجمینٹ کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ کسی نا پسندیدہ صورت حال میں املاک کی وراثت کے حوالے سے وہاں سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ آف شور کمپنیاں ٹرسٹ کے ذریعے نہ چلائی جائیں تو ٹیکسوں کی مد میں برطانوی حکومت کونہ صرف بھاری رقم دینا پڑتی ہے بلکہ وراثتی قوانین کے مطابق یہ املاک حکومت کے حوالے کرنا پڑتے ہیں ۔
خان کے یکم مئی کے خطاب کا بڑا حصہ سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے بیان پر مشتمل تھا جس کے لئے وہ خلافتِ راشدہ کے علاوہ یورپ اورامریکہ کے جمہوری نظام سے بھی مثالیں لائے ۔ امریکہ میں رچرڈ نکسن جیسا مدبّرصدر اس لئے استعفے پر مجبور ہو گیا کہ واٹر گیٹ سکینڈل میں اس کا جھوٹ پکڑا گیا تھا ۔ صدر کلنٹن، لیونسکی کیس میں اگر چہ بچ نکلے لیکن کانگریس کے روبرو انہیں جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اس کی مثال امریکی تاریخ میں شاید ہی موجود ہو ۔ انگلینڈ سے انہوں نے ڈیوڈ آرچر کی مثال پیش کی ، مارگریٹ تھیچر جیسی طاقتور وزیراعظم کا طاقتور وزیر جسے عدالت میں جھوٹ بولنے پر تین سال قید بھگتناپڑی ۔ سیاست میں صداقت کی اہمیت کا احساس ہی تھا کہ خود خان نے انتخابی مہم کے دوران مینار پاکستان پر اپنے جلسے میں جو چار وعدے کیے ان میں پہلا وعدہ یہ تھا کہ وہ قوم سے سچ بولیں گے (ہمارے ایک دوست نے اس میں ـ"آئندہ "کا اضافہ کر دیا )لیکن بدقسمتی سے وہ خود اس کی کوئی قابل ِ رشک مثال پیش نہ کر سکے ۔ نجم سیٹھی کے 35پنکچرز، 13مئی کی شب آر اوز کی دھاندلی ، چیف جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس رمدے کا سازشی کردار ، لاہور میں ایک حساس
ادارے کے اعلیٰ افسر کا رول اور اُردو بازار میں چھپنے والے جعلی بیلٹ پیپرز ۔۔۔لیکن جوڈیشل کمیشن کے سامنے خان کے پاس ان الزامات کا کوئی ثبوت نہیں تھا ۔ بعض الزامات تو پیش ہی نہ کئے گئے ، ٹی وی ٹاک شوز میں خان انہیں سنی سنائی باتیں قرار دے رہا تھا ۔
استعفے کا مطالبہ ۔۔۔جی ہاں !مغرب میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ الزام عائد ہو جائے تو حکمران استعفیٰ دے دیتے ہیں (تحقیقات بعد کی بات ہے ) لیکن اپنے ہاں تو اس صورت میں کوئی بھی حکومت مہینہ بھر بھی نہ چل سکے جہاں جھوٹے الزامات پر کوئی سزاتو درکنار ، الزام لگانے والا کسی معذرت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا ۔نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے جنابِ خان خود اپنے ہاں سے مثال پیش کرتے تو ان کی بات میں بے پناہ اخلاقی وزن ہوتا ۔ خیبر پختونخواکے وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر خود ان کے وزیرمعدنیات ضیاء اللہ آفریدی نے کرپشن کے سنگین الزامات لگائے ، اس "جرم "میں وہ جیل میں ہیں لیکن جناب ِ خان نے اپنے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ دلا کر تحقیقات کرانے کی اعلیٰ اخلاقی مثال قائم نہیں کی ۔ پھر کے پی کے احتساب کمیشن کے سربراہ جنرل (ر)حامد خان یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے کہ تحقیقات کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں کیوں کہ کرپشن کا "کھُرا"سی ایم ہائوس تک جاتا ہے ۔ جناب ِ سراج الحق بھی اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے نام پر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کے پی کے کابینہ میں خود جماعت اسلامی کے وزیرخزانہ پر خیبر بینک کے ایم ڈی نے سنگین الزامات لگائے ۔ جواب میں وزیر موصوف کی طرف سے ایم ڈی پرجوابی الزامات لگائے گئے اور کیا دلچسپ منظر ہے کہ یہ دونوں حضرات اپنے اپنے مناصب پر موجود ہیں ۔ اوراسی کابینہ میں جنابِ شیر پائو کی پارٹی کے وزیر بھی موجود ہیں جنہیں2014ء میں کرپشن کے الزامات میں فارغ کر دیا گیا تھا اور کسی تحقیقات کے بغیر پھر واپس لے لیا گیا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved