؎ یہی تو دکھ ہے زمیں آسماں بنا کر بھی
میں دربدر ہوں خود اپنا جہاں بنا کر بھی
کتاب ''تابانی‘‘ اور شاعر ہیں ہمارے دوست مبین مرزا‘ یہ شعر آپ کو پہلے بھی سُنا چکا ہوں‘ لیکن ایسا شعر تو بار بار سُننا اور سنانا چاہیے۔ اس مجموعے کی تحسین کرنے والوں میں احمد ندیم قاسمی اور سحر انصاری شامل ہیں۔ ''وقت کے چاک پر‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر نے خود لکھا ہے اور انتساب اہلیہ عظمیٰ مرزا کے نام ہے۔ اسے اکادمی بازیافت نے شائع کیا ہے اور قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔ صفحات اڑھائی سو‘ گیٹ اپ عمدہ‘ غزلیں ہیں اور نظمیں‘ لیکن الگ الگ‘ یعنی پانچ سات غزلوں کے بعد کچھ نظمیں اور پھر غزلیں‘ پہلی ہی غزل کے دو شعر دیکھیے:
میں اک ذرہ ناچیز کائنات میں تھا
یہ کائنات سا کس نے بنا دیا ہے مجھے
میں ایک دشت تھا خود اپنے ہی سراب میں گم
بس ایک موج نے دریا بنا دیا ہے مجھے
اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اس شاعری سے بے تعلق نہیں رہا جا سکتا‘ ہم گاہے گاہے اس شاعر سے آپ کی ملاقات کرواتے رہیں گے!
اُردو سپیکنگ‘ نان اُردو سپیکنگ
یہ خبر آپ سب کے لیے ہے کہ ہم یہاں پنجاب میں سبھی اُردو سپیکنگ بھی ہیں اور پنجابی بھی‘ اُردو سپیکنگ اس طرح سے کہ ٹھیٹھ پنجابی ہونے کے باوجود اُردو یہاں کثرت سے بولی جاتی ہے‘ فون پر اردو میں بات کریں گے چاہے دوسرا بھی پنجابی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے بچے بالعموم پنجابی جانتے ہی نہیں‘ حتیٰ کہ نوکر چاکر‘ ڈرائیور‘ باورچی اور گارڈز وغیرہ بھی‘ سب اسی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں اور حسرت ہی رہتی ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ پنجابی میں بھی بات کرے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پنجابی میں شعر کہنے والے بھی اُردو ہی میں بات کرتے ہیں‘ بس ہمارا مزاج ہی پنجابی رہ گیا ہے جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں‘ اور سب کے سب پنجابی اس لیے بھی ہیں کہ آخر ہم انتظار حسین‘ ناصر کاظمی‘ محمد سلیم الرحمن‘ کشور ناہید اور مسعود اشعر کو کیسے غیر پنجابی مان لیں جو بچپن اور لڑکپن ہی سے پنجاب کا پانی پیتے آئے ہیں۔ ان میں سے اکثر تو پنجابی میں بات بھی کر لیتے ہیں‘ مثلاً کشور ناہید جس خوبصورتی اور روانی سے پنجابی بول لیتی ہیں کم از کم میں تو نہیں بول سکتا۔
کالم ''تابانی‘‘ اُردو سپیکنگ‘ نان اردو سپیکنگ اور حماد غزنوی کا آخری حصہ...
اور اب آخر میں جناب حماد غزنوی کے لیے محبت کے ساتھ یہ تازہ غزل جنہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ احمد فراز کی غزل 20 سے 25 سال‘ ظفر اقبال کی 25 سے 50 اور شہزاد احمد کی غزل 300 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے ہوتی ہے!
آثار کوئی چاند چمکنے کے بہت ہیں
اسباب ابھی دل کے دھڑکنے کے بہت ہیں
یہ رنگ دمکنے کو بہت ہیں ابھی کچھ اور
یہ پھول کوئی دیر مہکنے کے بہت ہیں
بس دیکھ ہی لینا انہیں کافی ہے کہ یہ پھل
پکنے کے بہت ہیں نہ ٹپکنے کے بہت ہیں
آنکھیں کہیں رکھ آئیں کہ ایسے میں سردست
حالات اُسے دیکھ نہ سکنے کے بہت ہیں
اس عمر میں ہوتے ہیں محبت کے یہی طور
سکے تو یہ کھوٹے ہیں‘ کھنکنے کے بہت ہیں
اس شہر کے رستوں سے میں واقف تو ہوں لیکن
پھر بھی یہاں خدشات بھٹکنے کے بہت ہیں
باہر کے نظاروں پہ نہیں اتنا بھروسا
اندر کے تماشے ہی جھلکنے کے بہت ہیں
اُس نے بھی‘ ظفر روک رکھی ہے یہ روانی
ہم خود بھی کناروں سے چھلکنے کے بہت ہیں
افسوسناک : اوکاڑہ میں ہمارے ایک جیالے دوست ملک ظفر مسعود ہوا کرتے تھے‘ سُرخ و سفید‘ ان کے چھوٹے بھائی مظہر مسعود نے فون پر بتایا کہ پچھلے دنوں دل کا دورہ پڑنے سے اُن کا انتقال ہو گیا۔ اُن کے والد صاحب سے میرے تایا جان کے بہت قریبی تعلقات رہے جبکہ اُن کا بیٹا سلمان میرے بیٹوں کا دوست‘ اور یہ تین نسلوں کا تعلق تھا ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
آج کا مقطع
زباں کو سر پہ بٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفر
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہو کر بھی