تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-05-2016

آنے والا کل

یہ جھونکے جھونکے میں کھلتے گھونگٹ نئی رتوں کے
نہ ان کا مقصد نہ ان کا حاصل
اگرانہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے 
ہوائی اـڈے کی انتظار گاہ میں نگاہ اس بچّی پر پڑی تو یکایک وہ خیال ابھرا۔سوچا : سامنے کی بات تھی ۔ پہلے کبھی اس طرف توجہ کیوں نہ گئی ؟ وہ بھولی بھالی سی لڑکی تھی۔
وہ ، جن کے چہروں پہ حیرت اور تجسس گھل مل سے جاتے ہیں۔ کوئی چونکا دینے والی بات اس میں نہیں تھی ۔ مگریہ کہ لباس، کھانے پینے کے انداز ، حتیٰ کہ حرکات و سکنات میں اس کے انداز مغربی ہیں ۔ ''اس کی روح تو مشرقی ہے ‘‘ میں نے سوچا اور معصومیت اس کی گواہ ہے ۔مغربی لباس سے چڑنے کا کیا جواز۔مرد بھی تو پہنتے ہیں۔کرتا شلوار، خواتین کا پاکستانی لباس دنیا بھر میں بہترین تسلیم کیاجاتاہے ۔باوقار بہت ،ڈیزائن اوررنگوں کا تنوع بہت دلکش۔بھارتی تو دنگ رہ جاتے ہیں ۔
خاتون کے نشست اور آلو کے قتلے پھانکنے کا اندازبچگانہ تھا، مغربی۔ کیا انہیں یہ سکھایا جاتاہے کہ کسی طرح انہیں مقامی نظر نہ آنا چاہئیے ۔ بول چال میں ، نشست و برخاست میں ، خورونوش میں ،کیا یہ ہولناک ذہنی مرعوبیت نہیں ؟مرعوبیت دولے شاہ کے چوہے بناتی ہے ، آدمی نہیں ۔ ایک مقلد دماغ غور و فکر کااہل کیونکر ہو سکتاہے ،نقل اس کا شعار ۔ حبّ ِ وطن کا تعلق قدیم اورجدید تعلیم سے ہوتاہے اور نہ مکتبِ فکر سے ، نسل ، علاقے اور نہ عقائد سے ۔ استثنیٰ کے سوا تمام لوگ محب وطن ہواکرتے ہیں ۔ یہ ایک فطری اور جبلّی جذبہ ہے ۔ 
اس جواں سال محترم خاتون کے بارے میں سوچتے ہوئے، وہ دو لڑکیاں یاد آئیں ، جو 2005ء میں زلزلے کے ہنگام امریکہ سے پاکستان پہنچی تھیں ۔ ان میں سے ایک میری سگی بھتیجی تھی اور دوسری اس کی دوست۔ زلزلے کے اثرات پر انہیں تحقیق کرنا تھی۔ آزاد کشمیر کے اجڑے ہوئے دارالحکومت کا عالم کیا تھا؟ سردار سکندر حیات نے اخبار نویس مشتاق منہاس سے کہاتھا: میں ایک قبرستان کا وزیرِ اعظم ہوں ۔ گردشِ لیل ونہار کا اعجاز دیکھیے کہ مشتاق منہاس اب خود نون لیگ کے لیڈر ہیں اور ریاست کی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ۔ امکان تو ہے کہ کہنہ قیادت کی مخالفت کے باوجود وہ منتخب ہوجائیں ۔ وہ لا ابالی فاروق حیدر سے کہیں زیادہ متحرک اور ذمہ دار ہیں ۔ خیر یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ 
دریائے جہلم اور دریائے نیلم کے کناروں پر سارے ہوٹل ملبے کا ڈھیر تھے۔ مظفر آباد ایک عجیب شہر ہے ۔ دو دریا یہاں گلے ملتے ہیں ۔ سری نگر سے ہجرت کرنے والوں سمیت کشمیریوں کی متنوع برادریاں بھی: 
مل جل کے برنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر 
دریائوں کے سنگھم سے بڑھ کر تہذیبوں کا سنگھم ہوتاہے
قائدِ اعظم کے ہمراہ سری نگر جاتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے پہلی بار اس دیار کو دیکھا تو کہا : کس قدر خوبصورت ہے ۔ اسے تو دارالحکومت ہونا چاہئیے ۔ ان کا یہ جملہ الہامی ثابت ہوا۔ دریائے جہلم جو قدیم زمانے میں دریائے بٹ کہلا تا تھا، مظفر آباد میں ایک چکر سا کاٹتا ہے ۔ شمال مشرق کی رفعت سے دیکھیں تو ہسپانیہ کے قدیم شاعر کا مصرع یاد آتاہے، '' کنگن کی طرح بل کھایا ہوا پانی‘‘ خیرہ کن جمال ، اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔
ملبے کے ڈھیروں میں رہائش ایک مسئلہ تھا۔ امریکی سہولتوں کی عادی طالبات کو پہلی شب ایک تپتے ہوئے کمرے میں گزارنا پڑی لیکن پھر موزوں جگہ مل گئی ۔ پھر ایک اور مسئلہ پیدا ہوا۔طول طویل سفر کے دوران ،دوپہر یا رات، میں حیران رہ جاتا، وہ ایک ذرا سا کھانا چکھتیں ۔ دو چار نوالوں سے زیادہ نہیں ۔ تیسری شب دریا کنارے دور تک پھیلے سبزہ زار میں میز بچھوائی۔ منیجر سے درخواست کی کہ ذاتی توجہ سے وہ اعلیٰ ترین کشمیری اور پاکستانی طعام کابندوبست کرے ۔ تب بھی ان کی اشتہا نہ جاگی ۔ اب پریشانی ہوئی ۔معلوم ہوا، سارا دن آلو کے تلے ہوئے قتلے ، چاکلیٹ ، بسکٹ اور اس طرح کی الّم غلّم اشیا کھایا کرتیں ۔ باقاعدہ کھانے سے انہیں گریز تھا۔ امریکیوں کی طرح ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ چاکلیٹ اور بسکٹ کا زیادہ استعمال معدے کو برباد کرتاہے ۔ باریک قتلوں میں آلو کی خوشبو بڑھانے کے لیے ایک کیمیکل ڈالا جاتاہے ، جسے Enhancerکہتے ہیں ۔ اس کی زیادہ مقدار خطرناک ہوتی ہے ۔ ترس تو بہت آیا مگر میں چپکا ہو رہا۔ مہمانوں سے بحث نہ کرنی چاہئیے ۔ انہیں بدمزہ کرنا ایک طرح کا گناہ ہے ۔ 
ہوائی اڈے والی معصوم بچی کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں چپکا رہا کہ اپنے مہنگے تعلیمی اداروں میں کس طرح کی مخلوق ہم پیدا کر رہے ہیں ۔ مجھے اپنی پوتیاں یاد آئیں، صاحبزادے نے بضد ہو کر جنہیں ایک مشہور انگریزی سکول میں داخل کرادیا ۔ وہ گائے کو ''کائو‘‘ اور گدھے کو ''ڈنکی ‘‘ کہا کرتیں لیکن پھر میں نے ان سے بات شروع کی۔ خیر یہ تو گھر کا مسئلہ ہے، سلجھ رہا ہے مگر ایک پوری نسل؟
ذہن اب مدارس کی طرف پلٹا ۔ کیسے نادر لوگ ان میں پروان چڑھتے ہیں ۔ بیس سے تیس ہزار مدارس ہیں اور زیادہ تر ایک خاص مکتبِ فکر کے ، ایک خاص ایجنڈے کے ساتھ۔ ایک زمانے میں بعض سے میرا رابطہ رہا۔ خاندان کا کچھ روپیہ میرے پاس ہوتا تھا،کچھ ان کی نذر کیا جاتا۔ اپنا ہمدر د پا کر وہ مجھے ہم خیال سمجھے ۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اب کراہت ہوتی ہے ۔ سرمہ لگائے ایک مولوی صاحب تشریف لائے ۔ مجھے سمجھایا کہ قائدِ اعظم انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ نیم خواندہ سا آدمی ۔ حوالہ اس نے مولانا شبیر احمد عثمانی کا دیا اور سفید جھوٹ کہا۔ کہا :تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے پر وہ متاسف تھے ۔ مولانا حسین احمد مدنی کے مزار پر گئے اور گریہ کرتے رہے ۔ مولانا عثمانی نے کہا تھا : قائدِ اعظم بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔ بھارت وہ کبھی نہ گئے ۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے مزارتک پہنچنے کا کیا سوال ؟ مولانا عثمانی غالباً 1952ء میںفوت ہوئے ۔ 
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں ریکارڈ پر ہیں کہ 90 فیصد مدارس کا دہشت گردی سے تعلق نہیں ۔ باقی دس فیصد ؟ سپاہِ صحابہ انہی میں پھلی پھولی اور فسادِ عام کر دیا۔ فرقہ پرستی تقریبا سبھی میں ہے ۔توجہ، غفور الرحیم پروردگار سے تعلق اور رحمۃ للعالمینؐ کے اخلاق اور علم کی پیروی نہیں، اپنی فقہ کی سربلندی پہ رہتی ہے۔ استثنیٰ بھی ہیں۔ اکثر میں مگر کج بحثی سکھائی جاتی ہے، فرقہ پرستی ۔ قدیم قبائلی زمانے میں وہ زندہ ہیں ۔ عصرِ حاضر کے حقائق سے ناآشنا ۔ معاشرے میں وہ گھل مل نہیں سکتے بلکہ اس سے متصادم اور گریزاں۔ آکسفرڈ اور کیمبرج کا نصاب پڑھنے والوں کا یہ ہے کہ اکثر کا پاکستان میں جی نہیں لگتا ۔ وہ مغرب میں جا بسنے کے آرزومند رہتے ہیں ۔ 
سرکاری سکولوں کا حال پتلا ہے، بہت ہی پتلا۔ دوسری سہولیات کا کیا ذکر، اساتذہ کی تربیت ہی نہیں ؛ حالانکہ بتدریج ممکن ہے ۔ ریڈ فائونڈیشن، غزالی فائونڈیشن اور تعمیرِ ملت فائونڈیشن ایسے ادارے اگر اپنے اساتذہ کو آمادۂ عمل اور آمادۂ ایثار کر سکتے ہیں تو سرکاری ادارے کیوں نہیں ۔ شہبا زشریف ڈاکٹر امجد سے مشورہ کیوں نہیں کرتے؟
ابھی کچھ دیر پہلے ہوائی جہاز میں گورنر رفیق رجوانہ سے ملاقات ہوئی ۔تعلیم پر ان سے بات کی ۔ عرض کیا کہ ہرگز یہ ایک دشوار کام نہیں ، بس یہ کہ ترجیح نہیں ہے۔ کسی کی توجہ ہی نہیں۔ اپناجہاز چھوڑ کر عام پرواز سے سفر کرنے والے آدمی نے اتفاق کیا۔ کاش فیصلے صادر کرنے والے بھی غور فرما سکیں ۔ 
اگر آئند ہ نسلوں کی تعلیم اور تربیت ہماری ترجیح نہیں تو کیا ہم ایک بیمار معاشرہ نہیں ؟ علیل صحت یاب ہوجایا کرتے ہیں مگر خودبخود تونہیں ۔ فرمایا: انسان کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی وہ جدوجہد کرے ۔افسوس ہے ان پر ، جن کی ذمہ داری ہے مگر آنے والے کل پہ وہ غور نہیں کرتے: 
یہ جھونکے جھونکے میں کھلتے گھونگٹ نئی رتوں کے
نہ ان کا مقصد نہ ان کا حاصل
اگرانہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved