تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-05-2016

نئی صف بندی

نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ہم قدم ہیں اور دوسری طرف مسلم لیگ اور جمعیت علمائے اسلام۔
اس میں تو اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ کرپشن نہیں، نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ مطلوب ہے۔ حکومت سے کسی مطالبے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ ہر مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔ کمیشن کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے۔ چیف جسٹس چاہیںتو آغاز نواز شریف خاندان سے کر سکتے ہیں۔ محض الزام کی بنیاد پر استعفے کا مطالبہ اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس ملک میں کوئی نظام باقی نہیں رہ سکتا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر ان کا اپنا وزیر کرپشن کا الزام لگا چکا جو اس کی پاداش میں پابند سلاسل ہے۔ جماعت اسلامی کے وزیر پر صوبائی بینک کا ذمہ دار اعلانیہ الزام لگا چکا۔ سندھ میںپیپلز پارٹی کی حکومت مسلسل الزامات کی زد میں ہے۔ یہ الزام اس پر کسی سیاسی جماعت نے نہیں، رینجرز جیسے ریاستی ادارے نے لگائے ہیں۔ اگر الزام استعفے کا جواز ہے تو اس وقت کوئی فرد اپنے منصب پر قائم نہیں رہ سکتا۔
میں حالات کے معروضی تجزیے کا قائل ہوں، اس لیے کسی سازشی تھیوری کو بالعموم اہمیت نہیں دیتا۔ میرے نزدیک اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی واقعے کی عقلی توجیہ ممکن نہ رہے۔ میں پورے غور و فکر کے باوجود اپوزیشن کے مطالبات کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کر سکا، اس لیے جب واقعات کے تسلسل پر غور کرتا ہوں تو دھیان کسی اورطرف چلا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایم کیو ایم کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی۔ عمران خان نے اعلان کیا 
کہ وہ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ کی عدالت میں جائیں گے۔ معاملہ آگے بڑھا اور کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا تو بتایا گیا کہ ایم کیو ایم کی صفیں را کے ایجنٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ مقدمہ ریاست نے قائم کیا۔ بات مزید آگے بڑھی تو ڈاکٹر عاصم تک جا پہنچی۔ پھر اندازہ ہوا کہ نہیں، ہدف تو پیپلز پارٹی ہے۔ میڈیا نے بتایا کہ ان پہ 400 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ عوام انگشت بدنداں تھے کہ اکیلا آدمی اتنی بڑی کرپشن کیسے کر سکتا ہے؟ یہ مقدمہ بھی ریاست کے اداروں نے قائم کیا۔ بات کچھ اور آگے بڑھی تو معلوم ہوا کہ پاناما لیکس کرپشن کی سب سے بڑی خبر ہے۔ وہی عمران خان جو الطاف حسین اور زرداری کے خلاف نکلے تھے، اب پاناما کے نام پر متحرک ہو گئے۔ آج تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی یک زبان ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دیں۔ کرپشن کے سب واقعات پاناما لیکس کے سامنے ماند پڑ گئے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ اس ملک میں صرف ایک کرپٹ آدمی ہے جس کا نام نواز شریف ہے۔ تو کیا اس ساری مہم کو یہیں پہنچانا مطلوب تھا؟
میں نے واقعات کے بین السطور پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سطور میں جو لکھا ہے اس کی کوئی عقلی اور منطقی توجیہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے لوگ جب حکومت سے یہ کہتے ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لے تو میں نہیں جان سکتا کہ وہ حکومت سے اب کیا چاہتے ہیں؟ کیا وزیر اعظم استعفیٰ دیں؟ محض الزام کی بنیاد پر؟ میں عرض چکا کہ اس مطالبے کو مان لیا جائے تو کسی نظام کا باقی رہنا محال ہے۔ کیا ہم ملک کولاقانونیت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں؟ 
پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ اگلے انتخابات میں اُس کے لیے کچھ نہیں۔ اس کے لیے یہ کامیابی بہت ہے کہ کرپشن کے الزام کا رخ کسی دوسری طرف ہوجائے۔ عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر آنے والا دن انہیں اقتدار سے دور کر رہا ہے۔ انتظار کا مطلب نوازشریف کو مستحکم کرنا ہے۔ میٹرو اور موٹر ویز کو اپوزیشن جو چاہے گالیاں دے لے لیکن وہ جانتی ہے کہ یہ نوازشریف کی کارکر دگی کے وہ نشانات ہیں جن سے آنکھیں نہیں چرائی جا 
سکتیں۔ موٹر وے اب لاہور سے ملتان تک بن رہی ہے۔ چند سال میں یہ کراچی سے جڑ جائے گی۔ اس کے تجارتی فوائد ایک طرف،کراچی میں بیٹھے خیبر پختونخوا کے لاکھوںلوگ اپنے گھر اور عزیزوں کو قریب ہو جائیں گے۔ میں اس امکان کو دیکھ رہا ہوں کہ 2018ء میں بجلی کو لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ اگرنوازشریف کو دوسال سکون کے مل گئے تو مخالفین کے لیے اقتدار کی منزل اور دور ہو جائے گی۔ 
ایک کالم نگار کے لیے آسان نہیں کہ وہ حکومت کے حق میں کلمہ خیر کہے۔ ہیجان اور رومان کی فضا میں تو یہ خود کو گالیوں کے لیے پیش کرنا ہے۔ میں لیکن بطلِ حریت بننے کے شوق میں، وہ کچھ نہیں لکھ سکتا جس پر میرا دل اور دماغ مطمئن نہ ہوں۔ میرے نزدیک اس وقت ملک میں ترقی کا کوئی وژن اگر کسی کے پاس ہے تو وہ صرف نوازشریف ہیں۔ اس وژن میںکمزوریاں ہو سکتی ہیں، اس پر تنقید ہو سکتی ہے، لیکن اس وژن کے کچھ نتائج نکل رہے ہیں جنہیں دو اور دو چار کی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برخلاف کسی دوسری جماعت کے پاس بہتری کا کوئی ماڈل یا وژن موجود نہیں۔ اگرتحریکِ انصاف کے پاس ہوتا تو ہم اسے خیبر پختونخوا میں متشکل ہوتا دیکھتے۔ اگر پیپلزپارٹی کے پاس ہوتا تو سندھ میں اس کا ظہور ہوتا۔ ن لیگ کے ماڈل کو ہم پنجاب اورمرکز میں متشکل ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔
اگر کسی کے خیال میں یہ مقدمہ درست نہیں تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ اس کے دلائل بیان کرے۔ عوام کو بتائے کہ فلاں کے پاس یہ وژن ہے اور یہ ہیں اس کے شواہد۔ لوگ خیبر پختونخوا میں بہتری کی جو بات کرتے ہیں، وہاں کے لوگ اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہر سال ترقیاتی کاموں کا بجٹ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کی قیمت صوبے کے عوام کو چکانا پڑ رہی ہے جہاں کوئی انفرا سٹرکچر تعمیر نہیں ہو رہا۔ ہسپتالوں کی حالتِ زار خود پی ٹی آئی کا حامی میڈیا دکھا اور بتا چکا۔ تعلیمی نظام میں کہتے ہیںکہ بہتری آئی ہے، میں عدم معلومات کی بنیاد پر اس کی تصدیق کر سکتا ہوں نہ تردید؛ تاہم پنجاب میں، میں جانتا ہوں کہ تعلیم کے نظام میں کیا بہتری آئی ہے۔ پنجاب پاکستان کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا بارہ فیصد ہے۔ تحریکِ انصاف کے پاس ایک چھوٹا سا علاقہ تھا جسے مثالی بنانا، پنجاب کو مثالی بنانے سے کہیں آسان تھا۔ یہ ملک کا واحد صوبہ ہے جسے کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ نہ جلسہ نہ جلوس۔ حکومت یکسو ہوکر عام کی خدمت کر سکتی تھی۔ ایسا اگر نہیں ہوا تو اس لیے کہ برسرِ اقتدار گروہ کے پاس کو ئی کوئی ماڈل،کوئی وژن مو جود نہیں تھا۔
اس مقدمے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس کا لیکن ایک طریقہ ہے، وہ ہے رائے سازی۔ یہ کام، نظام کو کسی اضطراب میں مبتلا کیے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا ایک ادارے کے سوا، سارے کا سارا اپوزیشن کا ہم نوا ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے۔ عوامی زندگی کو متاثر کیے بغیر، جلسے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی لیکن اس کے لیے تیار نہیں۔اس کی وجہ واضح ہے۔ یہ سیاست دلیل اور سنجیدگی کی متقاضی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی سیاسی قوت کی اساس ہیجان اور رومان ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں کی کمزوریاں ۔ اس کے لیے احتجاج کی سیاست ہی سازگار ہے۔
نئی صف بندی حتمی صورت اختیار کر رہی ہے۔ اپوزیشن کامقدمہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہو چکا۔کرپشن کا نہیں، نوازشریف کے اقتدار کا خاتمہ مطلوب ہے۔ نوازشریف نے بھی اپنا مقدمہ سیاسی بنیادوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مو لانا فضل الرحمٰن ان کے حلیف ہیں۔ میر ا احساس ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو کچھ نہیں ملنے والا۔ صرف دو نتائج متوقع ہیں۔ ایک بار پھر نوازشریف یا پھر کوئی اور!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved