مقامی اور تازہ خبر یہ ہے کہ ہمارے کُت خانے میں ایک مہ لقا کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ بھی لیبرے ڈور ہے اور کیوٹ اتنی کہ کوئی کتیا کی بچیہ اس سے زیادہ حسین‘ جمیل ہو ہی نہیں سکتی۔ جب آئی تھی تو فقط ایک ماہ کی تھی‘ اس میں پندرہ دن مزید ڈال لیں۔ واک اور ایکسرسائز کے بعد آفتاب اگر دستیاب ہو تو میرا اور اس کا سیشن ہوتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ اس کا سیشن میرے اور کتوں کے ساتھ مشترکہ ہوتا ہے۔ بڑا کتا اس کے پائوں میں‘ چھوٹا اس کی گود میں اور سب سے چھوٹی اس کے کندھوں پر‘ اور خرمستیاں بلکہ سگ مستیاں جاری۔
پھولوں کی صورتحال یہ ہے کہ گلاب ان دنوں باقاعدہ خزاں سے دوچار ہے‘ کوئی پھول آپ کو خال خال ہی نظر آئے گا۔ البتہ موتیے پر بہار آئی ہوئی ہے اور رہی سہی کسر بوگنی ویلیا نے نکال رکھی ہے کہ ایک طوفان رنگ ہے جس میں سبز پتا بس کہیں کہیں ہی نظر آتا ہے اور کرم بالائے کرم پیلے پھولوں والا پودا جو بھر کے پھولا ہوا ہے‘ اس کا نام نہیں معلوم‘مالی سے پوچھ کر بتائوں گا‘ یوں سمجھیے کہ اس کے پھولوں کی شکل بھونپو جیسی ہے۔
پرندوں کے حوالے سے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بُری۔ اچھی تو یہ کہ اگلے روز کوئل کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ رنگ تو اس کا کوے کی طرح کالا ہے ہی‘ لیکن کوے کے رنگ کو میلا سیاہ کہا جا سکتا ہے ‘ اس کی گردن اور سینہ ہلکے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ کوئل مکمل سیاہ بلکہ چمکدار سیاہ۔ پتلی چونچ اور لمبی دُم اور دُم بھی ایسی کہ جیسے نیچے سے دو تکونیں بناتی ہوئی۔ شاید ہی کوئی ایسی دم والا پرندہ پہلے کہیں دیکھا ہو۔
بُری خبر یہ کہ ایکسرسائز کے دوران ہی دیکھا کہ سُرخاب نے میرے قریب ہی آ کر لینڈ کیا۔ اگرچہ تھوڑی دیر کے بعد اُڑ گیا لیکن آنکھیں ٹھنڈی کر گیا۔ آفتاب کو بتایا کہ ہمارے بانسوں کی باڑ میں ایک جوڑا سُرخابوں کا رہتا ہے۔ کہنے لگا مجھے معلوم ہے لیکن یہ سرخاب نہیں بلکہ اسے کمادی ککڑ کہتے ہیں جو کماد یعنی گنے کے کھیت میں رہتا ہے یا بانسوں میں۔ میں نے کہا‘ تم جنگل جنگل پھرنے والے ہو اس لیے طائر شناسی میں تمہاری اتھارٹی تسلیم اور اگر تم کہہ دو کہ یہ اُود بلائو ہے تو میں پھر بھی مان جائوں گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تم نے میرا رومانس ختم کر دیا۔ اب اس کمادی کُکڑ میں میری کیا دلچسپی باقی رہ گئی ہے۔
صبح احتیاطاً سویٹر پہن کر نکلتا ہوں کیونکہ ٹھنڈ ہوتی ہے اور ہوا۔ انتظار حسین بھی نمونیے کا شکار ہوئے تھے اور دلیپ کمار بھی نمونیے کے زیرعتاب آتے رہتے ہیں کہ بوڑھوں پر یہ زیادہ حملہ آور ہوتا ہے۔ اگرچہ میں بوڑھا ہرگز نہیں ہوں کیونکہ اکثر دوست فون پر بتاتے ہیں کہ آواز سے تو آپ بالکل بوڑھے نہیں لگتے‘ یعنی آپ کا اگر کچھ حصہ ہی بوڑھا ہونے سے بچ جائے تو بسا غنیمت ہے۔
ایکسرسائز تو میں ہلکی پھلکی اور عام سی ہی کرتا ہوں لیکن سانس کی ایکسرسائز کے کچھ ٹپس بتانا ضروری سمجھتا ہوں جو زیادہ تر قارئین کو معلوم نہیں ہوں گے اور یہ بھی مجھے شاعر افضال نوید نے بتائے تھے جو چند سال پہلے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ پہلا تو یہ ہے کہ لمبی سانس کھینچیں اور ناک سے داخل کی ہوئی ہوا کو پانچ گننے تک روکے رکھیں اور پھر منہ سے باہر نکال دیں۔ یہ عمل پچاس بار دہرانا ہو گا۔ اس کے بعد دایاں نتھنا انگوٹھے سے بند کر کے بائیں نتھنے سے زیادہ سے زیادہ ہوا اندر کھینچیں اور دائیں سے باہر نکال دیں‘ یہ عمل بھی پچاس بار کرنا ہے۔ آفتاب نے اس میں ایک اور کا اضافہ کیا تھا کہ تیز تیز سانس اندر کھینچ اور باہر نکالیں یعنی ایک سیکنڈ میں کم از کم دو بار سانس اندر کھنیچ کر باہر نکالیں۔ یہ بھی پچاس مرتبہ صبح پونے پانچ بجے کمرے سے نکلتا ہوں‘ بیس منٹ کی واک اور دس منٹ کی ایکسرسائز‘ اس دوران دن نکل آتا ہے۔ چڑھتے سورج کے نظارے میں ایک اپنی ہی سرشاری ہے۔ اس کے بعد کوئی دو گھنٹے کی ہوا خوری‘ پھر اندر جا کر ناشتہ اور دیگر معمولات۔ جنید بہت زور لگاتا ہے کہ ہمارے پاس بھی آ کر رہیں اور میرا بھی جی بہت چاہتا ہے لیکن یوں سمجھیے کہ ان کھلی فضائوں کا اسیر ہو کر ہی رہ گیا ہوں‘ پھر یہ ہے کہ اسی واک کی وجہ سے تھوڑا بہت چل پھر لیتا ہوں‘ ڈرتا ہوں کہ یہ چُھٹ گئی تو کہیں گُل محمد ہو کر ہی نہ رہ جائوں۔ تقاریب میں جانا شروع کر دیا ہے کہ میرے ڈاکٹر کے بقول چلنا پھرنا بھی میرے علاج کا حصہ ہے۔ اسی بہانے کچھ دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔
دو باتوں کا ذکر تو کہیں بیچ میں ہی رہ گیا۔ ایک تو یہ کہ آفتاب نے بتایا کہ یہ کمادی ککڑ اسے بہت بُرا لگتا ہے۔ وجہ یہ بتائی کہ یہ تیتر کے انڈے پی جاتا ہے۔ اس پر بھی زیادہ اعتراض تو تیتر کو ہونا چاہیے۔ غالباً کوے کے بارے میں مشہور ہے کہ کوئل کے انڈے پی جاتا ہے۔ اس لعنتی سے تو ہر کُتے کام کی اُمید کی جا سکتی ہے اور دوسری یہ کہ آج پہلی بار ایک ٹٹیری کے بھی نیاز حاصل ہوئے جبکہ وہ لان میں آ کر اِدھر اُدھر ٹھونگے مارنے لگی‘ اُڑتی اور شور مچاتی تو پہلے کئی بار دیکھی تھی لیکن اس کا سراپا پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ خوبصورت پرندہ ہے بشرطیکہ شور زیادہ نہ مچایا کرے۔ کم خوبصورت پرندے‘ یا جنہیں ہرگز خوبصورت نہیں کہا جا سکتا‘ اُن میںلالی یعنی شارق سرفہرست ہے۔ اس کے بعد سیہڑ کا نمبر آتا ہے۔ اللہ میاں کی مخلوق ہے‘ اس کے بارے میں ایسا کہنا تو نہیں چاہیے لیکن اگر اس نے یہ امتیاز انسانوں میں بھی رکھ دیا ہے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔
کچھ حضرات کا کالم میں ایک دو بار ذکر آ جائے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ایس ایم ایس کے ذریعے باقاعدہ بحث بلکہ کج بحثی شروع کر دیتے ہیں جس کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہوتا‘ اس لیے ان کے ساتھ پورا نہیں اتر سکتا۔ لہٰذا چپ سادھنا پڑتی ہے۔ میں چھیڑ چھاڑ سے نہیں گھبراتا بلکہ یہ کام تو میں خود بھی کرتا ہوں لیکن بات طول پکڑنے لگے اور باقاعدہ مناظرے یا مجادلے کی صورت اختیار کرنے لگے تو دُور سے سلام کرنے ہی میں عافیت سمجھتا ہوں۔ تاہم جہاں تک شرافت کا تقاضا ہے ‘ میں فون سنتا اور میسج پڑھتا اور حتیٰ الامکان جواب بھی دیتا ہوں لیکن میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا کہ اسی کام میں لگا رہوں کیونکہ میں اتنا فارغ نہیں ہوتا جتنا بعض حضرات مجھے سمجھتے ہیں۔ کچھ حضرات مجھے اپنی شاعری سنا کر اس پر اصلاح کے بھی طلبگار ہوتے ہیں۔ لگتا ہے اس کام کے لیے مجھے باقاعدہ ایک سکول کھولنا پڑے گا۔ بندہ پوچھے‘ میں تو خود اصلاح کا محتاج ہوتا ہوں‘ میں بھی یہ کام شروع کر دوں اور باقاعدہ استاد مشہور ہو جائوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ آدمی کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیاں بھی اپنی ہونی چاہئیں‘ میں نے اسی لیے کبھی استاد نہیں پکڑا‘ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے‘ اور اب آخر میں ارشد نسیم کا یہ شعر ؎
کوئی نہیں ہے ان آنکھوں سے متصل بستی
کوئی نہیں ہے جسے میرا خواب دیکھنا ہے
آج کا مقطع
خالی فریب ہی دئیے رکھا ہمیں‘ ظفر
اندر بلا لیا کبھی باہر بٹھا دیا