اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ ضابطہ کار پیش کر کے وزیراعظم کے خاندان کے خلاف منصفانہ اور شفاف تحقیقات کی گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ ٹی او آرز میں ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر ناپختگی‘ نامعقولیت اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی پھبتی کسی جا سکے۔ موجودہ بحران پاناما پیپرز میں وزیراعظم کے خاندان کا نام آنے پر پیدا ہوا‘ اپوزیشن نے تحقیقات کا دائرہ بھی پاناما لیکس تک محدود رکھا اورٹارگٹ بھی یقینا وزیراعظم کا خاندان ہو گا۔
حکمران خاندان اگر ٹھوس شواہد اور مضبوط دلائل سے لیس ہوتا تو اُسے احتساب کا دائرہ 1947ء تک پھیلانے اور قرض خوروں کو شامل کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ ان کا محاسبہ حکومت کے روزمرہ فرائض میں شامل ہے اور سٹیٹ بینک‘ ایف آئی اے‘ نیب‘ ایف بی آر اور دیگر ریاستی اداروں کو ازخود یہ کارروائی کرنی چاہیے، اس کی زد میں خواہ ترین زادہ آتا ہے یا کوئی شریف زادہ‘ جہانگیر ترین کی طرح جس جس نے قرضہ معاف کرایا اُسے بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور جن حکمرانوں نے سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کئے ان کا سخت ترین احتساب ہونا چاہیے کہ ظالموں نے غریب کھاتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی بچتوں سے بڑے مگرمچھوں کی بھوک مٹائی۔ مگر طوالت کی آڑ میں حکمران خاندان مواخذہ سے بچنا چاہتا ہے جس کا اہتمام حکومتی ٹی او آرز میں کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے عجیب منطق پیش کی کہ ٹی او آرز ہمیشہ حکومت بناتی ہے۔ بجا، مگر اسی بنا پر حمود الرحمن سے نجفی کمشن تک سب سردخانے کی نذر ہوئے کسی کو سزا نہیں ملی۔ اپوزیشن استعفیٰ کا مطالبہ اتفاق رائے سے نہیں کر سکی مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت عمران خان کے ساتھ کون کون کھڑا ہے اور وزیراعظم کو خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن اور بلوچستان میں محمود خان اچکزئی‘ حاصل بزنجو کے علاوہ کس کی حمایت حاصل ہے؟ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور جماعت اسلامی کا وزن کس پلڑے میں ہے اور اگر حکومت کی ضد‘ ہٹ دھرمی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے احتجاجی تحریک کی نوبت آئی تو سٹریٹ پاور کو موبلائز کرنے کی اہلیت کس کے پاس ہے ؟اپوزیشن یا حکومت کے پاس؟
پاکستانی عوام سادہ لوح ہیں‘ کسی نہ کسی حد تک حکمرانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے اور یکطرفہ پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والے بھی مگر اتنے نہیں جتنا میاں نوازشریف اور ان کے ساتھی سمجھ کر دُھول اُڑانے اور اصل معاملے سے توجہ ہٹانے میں مصروف ہیں۔ ایشو اس وقت حکمران خاندان کی بیرون ملک کمپنیوں اور کاروبار کا ہے جسے افشا عمران خان نے کیا ہے نہ بلاول بھٹو زرداری نے اور نہ اعتزاز احسن نے۔ اگر شریف خاندان کا دامن صاف ہے تو ڈیوڈ کیمرون کی طرح وزیراعظم ایوان میں آ کر دستاویزی ثبوت پیش کریں اور مخالفین کو جھٹلا کر پوری قوم سے داد پائیں۔ مولانا اور اچکزئی جب وزیراعظم کا دفاع کرتے ہیں تو لوگوں کے شکوک و شبہات میں خواہ مخواہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ ضرور دال میں کُچھ کالا ہے ورنہ وزیراعظم کی وکالت ''وصولی گروپ‘‘ کے بجائے کوئی اور کرتا۔ فی الحال وزیراعظم کے مداحوں اور پیروکاروں میں سے کوئی یہ بات مانے گا تو نہیں مگر جُوں جُوں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف تحقیقات میں تاخیر ہو رہی ہے اور وزیراعظم اِدھر اُدھر کی ہانک کر اپوزیشن کے علاوہ بلاتفریق احتساب کی خواہش مند قوم کو اشتعال دلا رہے ہیں معاملہ بگڑتا جا رہا ہے اور چند روز پہلے تک جو لوگ گومگو کا شکار تھے انہیں بھی اب یقین ہونے لگا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈے اور خاندان کی قربانیوں کے تذکرے سے حکمران اپنے کرتوتوں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کا انحصار اب اپنی دیانت و امانت اور خوبیوں پر نہیں‘ دوسروں کی خیانت و خامیوں پر ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا!
پروپیگنڈہ جتنا بھی جاندار اور موثر کیوں نہ ہوبالآخر جھوٹ کا غبارہ پھٹ کر رہتا ہے۔ تیس سال تک تسلسل سے یہ جھوٹ بولا گیا کہ 1977ء میں فوج نے سیاستدانوں کے مابین سمجھوتے کو سبوتاژ کیا اور جنرل ضیاء الحق کی ہوس اقتدار نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی مگر آج ہر معقول اور انصاف پسند شخص لکھ اور بول رہا ہے کہ یہ کسی فوجی کی ہوس اقتدار نہیں‘ منتخب حکمرانوں کی ہوس زر‘ جنون اختیار‘ ضد‘ ہٹ دھرمی ‘ سیاسی معاملے کو سیاسی انداز میں حل نہ کرنے اور محاذ آرائی کو پروان چڑھانے کی
عادت ہے جو سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے عزم پر کاربند فوجی سربراہ کو ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق چھڑی لہراتے ہوئے مداخلت پر مجبور کرتی ہے، ورنہ فوج کے پاس کرنے کو اور بہت کچھ ہے۔ ان دنوں برسراقتدار گروہ اپنے چمچوں‘ کڑچھوں کے ذریعے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے افواہیں پھیلا رہا ہے۔ موجودہ بحران کو پاناما لیکس کے بجائے درپردہ قوتوں کی کارستانی قرار دے کر مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اور ایک سیاسی و اخلاقی معاملے کو قانونی موشگافیوں کے ذریعے طوالت و تاخیر کی نذر کیا جا رہا ہے، جس کا منطقی نتیجہ بالآخر یہی نکل سکتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں سر دھڑ کی بازی لگانے والی فوج کے رینکس اینڈ فائلز میں اضطراب بڑھے۔ 1977ء کی طرح آرمی چیف پر دبائو آئے اور وہ بحران ختم کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے پر مجبور ہو‘ جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں‘ بلاتفریق و بلاامتیاز احتساب کی قومی ضرورت سے روگردانی کرنے والا گروہ ہو گا، وہی گروہ جسے اپنے مخالف قرض خوروں کو قانون کے شکنجے میں جکڑنے کی جلدی ہے۔ اقتدار و اختیار کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ اور بیرون ملک سرمائے کی منتقلی کے شواہد کی جانچ پڑتال اور منصفانہ تفتیش میں دلچسپی نہیں‘ حیلوں بہانوں اور ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن نے اتفاق رائے سے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا۔ بظاہر حکومت کو ریلیف ملا‘ ممکن ہے حکومت کی بیک چینل ڈپلومیسی کام آئی ہو‘ مگر یہ عمران خان یا تحریک انصاف کی پسپائی نہیں حکومت کے مقابلے میں سٹریٹیجک کامیابی ہے۔ جو ٹی او آرز اپوزیشن نے پیش کئے انہیں قبول اور رد کرنا آسان نہیں‘ یہ وہ چھچھوندر ہے جسے حکومت نگل سکتی ہے نہ اُگل سکتی ہے۔ اب حکومت 1956ء کے ایکٹ کے تحت مرضی کا لولا لنگڑا کمشن تشکیل نہیں دے سکتی جبکہ چیف جسٹس کو اختیارات اپوزیشن کے ٹی او آرز کے ذریعے مل سکتے ہیں تو وہ کسی بے اختیار اور متنازعہ جوڈیشل کمشن کی تشکیل پر راضی کیوں ہوںگے۔
1977ء میں پی این اے کو مذاکرات میں اُلجھا کر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری تھی۔ تصفیہ کے لیے میسر وقت ضائع کیا۔ اب میاں صاحب عرصہ محشر میں ہیں۔ گیڈر بھبکیوں سے وہ عمران خان اور اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں کو ڈرا سکتے ہیں نہ اپنے ''اصل ٹارگٹ‘‘ کو مرعوب کرنے کی پوزیشن میں۔ گورنر ہائوس میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے سوال کا جواب نہ دے کر انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ وہ مرزا اسلم بیگ‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ‘ جنرل وحید کاکڑ‘ جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف کی طرح جنرل راحیل شریف سے بھی بگاڑ بیٹھے ہیں۔ نظامی صاحب مرحوم نے اسی بنا پر ایک بار میاں صاحب سے پوچھا تھا کہ ''آخر آپ کی کسی آرمی چیف سے بنتی کیوں نہیں؟‘‘ میاں صاحب اگر واقعی احتساب سے نہیں ڈرتے، ان کا دامن صاف ہے اور حکومت و اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کوئی فرق نہیں تو اپوزیشن کے ٹی او آرز پر صاد کریں اور احتساب کو خوش آمدید کہیں۔ جلسے‘ جلوسوں اور یکطرفہ پروپیگنڈے سے وہ اپنا مقدمہ مزید کمزور کر رہے ہیں۔ جب ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاملے پر امریکی سینیٹ میں بحث کے دوران ایک سینیٹریہ کہتا ہے کہ ''میں اس بنا پر پاکستان کو امداد کی مخالفت کرتا ہوں کہ امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی کرپٹ حکمرانوں کے حوالے نہیں کی جا سکتی‘‘ تو کسی اور کو آئے نہ آئے‘ عام پاکستانی کے طور پر مجھے شرم آتی ہے ۔ کاش جن کے بارے میں کہا گیا انہیں بھی آجاتی۔ کیا یہ پاناما لیکس پر ہمارے کمزور اجتماعی ردعمل اور قومی عزت و وقار پر طمانچہ نہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حکمران‘ عوام یا کوئی اور ہے؟
میرے خیال میں اپوزیشن نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ عدلیہ‘ فوج‘ وکلا برادری‘ اہل دانش اور غیر جانبدار حلقوں کو باور کرایا کہ وہ پاناما لیکس پر سیاست نہیں کر رہی‘ شفاف تفتیش چاہتی ہے۔ حکومت پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ اب ظلم کی داستان سنانے سے بات بن سکتی ہے نہ قرض خوروں کی آڑ میں بچائو کی کوئی تدبیر کارگر ہو گی۔ منصفانہ تحقیقات یا پھر 5 جولائی یا 12 اکتوبر کا انتظار۔ فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟