تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-05-2016

طوفان کے آثار ہیں

شریف خاندان بچ نہیں سکتا۔ ریاست اب ان کی متحمل نہیں۔ ان کی تاریخ کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ فرمایا: لکّلِ اُمّتٍ اجل۔ ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھی ہے۔ مزارعین کو نئے آقا تلاش کرلینے چاہئیں کہ طوفان کے آثار ہیں۔
گرمی شدید ہو جائے تو گھر میں گاہے بنیان پر اکتفا کرتا ہوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے خواب گاہ سے نکلا تو میری دو سالہ پوتی نے کہا: شیم شیم، اپنے کمرے میں جائو۔ فوراً ہی میں نے کرتا پہنا اور واپس جا کر پوچھا ''ٹھیک ہے؟‘‘ کچھ دیر معصوم فرشتہ سوچتا رہا، پھر کہا ''تھیک ہے‘‘۔ اس نے شکایت کی کہ کل چچا بھی ''شیم شیم‘‘ تھے، یعنی بنیان پہن رکھی تھی۔
خاندان یا معاشرہ ، اندازِ فکر ہوتا ہے، جس سے عوامل جنم لیتے ہیں۔ کوئی بھی ملک کرپشن پسند نہ کرے گا۔ پر جوش نعروں کے باوجود جس میں نون لیگ کسی سے پیچھے نہ تھی، پاکستانی قوم اب تک بدعنوانی کے خلاف طوفان بن کر نہیں اٹھی۔ مگر تابہ کے؟ کب تک گوارا کرے گی۔ کب تک یہ تماشا برپا رہے گا۔پانی سر سے گزر گیا۔ حکومت جو کچھ کہہ رہی ہے ، اس کاخلاصہ یہ ہے : ہمی سے پوچھ گچھ کیوں ؟ دوسرے بھی تو چور ہیں ۔
سرکاری اخبار نویس بھی اب دکھی ہیں۔ دلائل کے انبار لگا رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے حضور کہ لوگ آپ کی کیوں سنیں۔ جو لوگ مفادات کی بنیاد پر رشتے بناتے اور آرا استوار کرتے ہیں، وہ نظر انداز کر دیئے جاتے اور ٹھکرادئیے جاتے ہیں ۔ ثانیاً یہ کہ اپوزیشن لیڈر اگر بدعنوانی کے مرتکب ہوئے تو ان کا احتساب کس کی ذمہ داری ہے؟میاں محمد نواز شریف کو اقتدار کیا اس لیے سونپا تھا کہ زرداری عہد کے کارنامے جار ی رہیں ۔ابھی تو صرف پانامہ لیکس ہیں ۔ کوئی دن جاتاہے کہ ترک اور چینی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات سامنے آئیں گی۔ حکومت ان سمجھوتوں کو چھپا کیوں رہی ہے ؟بعض چینی کمپنیوں کی شہرت خاص طور رپہ خراب ہے ۔ نندی پور میں ہم انہیں بھگت چکے ۔ ایک نہایت ہی معزز شخصیت نے اس ناچیز کو بتایا کہ شاہراہِ ریشم کی مرمت پر اٹھنے والے اخراجات ہوشربا ہیں ۔مارکیٹ سے کئی گنا زیادہ۔
علیم خان اور جہانگیر ترین پہ اعتراض ہے تو انتظار کیوں ہے؟ فوراً ہی اقدام کیوں نہیں ؟ علیم خان کا کہنا یہ ہے کہ پورا ٹیکس انہوں نے ادا کیا اور ایک ایک چیز ریکارڈ پر ہے۔ اگر نہیں تو ایف بی آر انہیں نوٹس جاری کرے اور الیکشن کمیشن انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دے۔ سرکار یہ نہیں کرے گی۔ کاسہ لیس گرد اڑاتے اور الزامات کی یلغار کرتے رہیں گے۔ عوام یہ سمجھیں کہ وہی نہیں ، باقیوں کے دامن بھی آلودہ ہیں۔ مایوس ہو کر قوم خاموش ہو رہے ۔ حزب اختلاف کا لیڈر ہو یا حزب اقتدار کا۔ قوم کیوں خاموش رہے؟ نا امیدی کی دلدل میں وہ کیوں جیے؟ ''مایوسی کفر ہے‘‘۔ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے۔ ملک کی حالتِ زار پر غور کیجیے تو فرمان الٰہی کی ایک نئی جہت چمکتی ہے۔ جو معاشرہ خود کو حالات کے حوالے کر دے، کھلی چھٹی بدعنوان حکمران طبقات کو دے دے، وہ کیونکر زندہ رہے گا؟ اس کی قوت عمل سوکھ جائے گی۔ یہی اطوار غلامی تک لے جاتے ہیں۔
قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو!
کہ ہم تو پابہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے
اور اس منفرد شاعر احمد مشتاق نے یہ کہا تھا:
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
الیکشن سے قبل میاں محمد شہباز شریف دھاڑا کرتے: زرداری بابا اور اس کے چالیس چوروں کو میں کھمبے پر لٹکا دوں گا، لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹوں تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ الیکشن 2013ء کے کچھ عرصہ بعد کراچی تشریف لے گئے، اخبار نویسوں نے یاد دلایا تو ارشاد کیا۔ اعلانیہ میں ان سے معافی مانگ چکا ہوں۔ اگر کافی نہیں تو ایک بار پھر مانگتا ہوں۔ کس چیز کی معافی؟ کرپشن سے اظہار نفرت کی؟ اور یہ بھی فرمائیے میاں صاحب کہ اب آپ کا نام کیا رکھّا جائے؟دل گداز خان؟
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرئہ خوں نہ نکلا
اللہ اکبر! میاں صاحب کو اب مولانا فضل الرحمن کی ضرورت آن پڑی ہے۔ 2004ء کے جدہ میں میاں نواز شریف سے ایک ملاقات یاد آتی ہے۔ فرمایا تھا: کسی سے بھی اتحاد کر لوں گا، (سکیورٹی رسک کہنے والے) قاضی حسین احمد سے بھی۔ اس آدمی سے کبھی ہاتھ نہ ملائوں گا۔ انحصار اگر اس پر ہے، عرف عام میں جسے مولانا ڈیزل کہا جاتا ہے، جس کے اقتدار میں پختون خوا، دہشت گردوں کی جنت بنا، جس نے شہیدوں کے لیے مختص زمین ڈکار لی، جس کے ذرائع آمدن ہمیشہ مشکوک رہے۔ وکی لیکس کے مطابق جو امریکی سفیر کی خدمت میں حاضر ہوا تھا کہ اسے وزیر اعظم بنا دیا جائے، تو اس پر کیا عرض کیا جائے؟...ہومولوی پہ منحصر جس کی امید؟ اقبالؔ کا فرمان یہ ہے:
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملّا ہوں غازی
اور یہ کہ ''دین ملّا، فی سبیل اللہ فساد‘‘ اقبال ؔکی فریاد حضرت مولانا فضل الرحمن کے فکری اجداد سے تھی، جن میں سے ایک نے قائد اعظم کو کافر ِاعظم کہا تھا۔ شورش کاشمیری مرحوم کی تحریری شہادت کے مطابق ،کانگریس سے روپیہ لے کر۔ شورش کاشمیری نے لکھا ہے: احرار کے دفتر سے متصل نیلا گنبد میں جلسۂ عام کیا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری گریہ کرتے اوریہ کہتے رہے: مولوی اظہر علی مظہرتم نے میری ساری کمائی برباد کر دی۔
دیہات، قصبات میں دیکھا ہے کہ اگر کسی مسکین پر کوئی تگڑا آدمی چڑھ دوڑے تو پردے کے پیچھے سے خواتین صلواتیں سنایا کرتی ہیں۔ اکرم درانی کا خطاب ایسا ہی تھا'' وزیر اعظم حکم دیں تو ہم بنی گالہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔‘‘ لوگ باگ آپ کو حلیف سمجھے تھے...آپ تو منکوحہ نکلے۔
شنید یہ ہے: بابِ پاکستان کو ڈھا کر از سرِ نو تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔ مشرف دور میں اس پر چالیس کروڑ خرچ ہو چکے۔ کہا جاتا ہے خادم پنجاب اسے اڑھائی ارب تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ایک حصہ کمرشل کر دیا جائے گا، پلازے اور دکانیں۔ ناقد کہتے ہیں، روپیہ بنانے کے لیے۔ پاکستان میں وہ مہاجروں کا اوّلین پڑائو تھا، جہاں قائد اعظم کی آنکھ سے آنسو ٹپکا تھا۔ بتایا جاتا ہے: قائد اعظم اس اندیشے کے ساتھ وہاں گئے تھے کہ مہاجر ان سے ناراض ہوں گے۔ شاید ایک آدھ نعرہ بھی گونج اٹھے مگر پروانوں کی طرح خلق ان پہ ٹوٹی۔ ایسی تاریخی یادگاروں کے ساتھ کیا یہ سلوک کیا جاتا ہے؟ کسی دن وہ ایوانِ اقبال، مینارِ پاکستان اور عالمگیری مسجد بیچنے پر نہ اتر آئیں۔
سرکاری لیڈروں اور اخبار نویسوں نے جہانگیر ترین کے خلاف ایک ہنگامہ اٹھا رکھا ہے۔ ترین کا مؤقف یہ ہے کہ انہوں نے جو کمپنی خریدی،بینک کا قرض اس نے پہلے سے معاف کرا رکھا تھا۔ ان کا اس معاملے سے کیا تعلق ۔سمندر پار کمپنی انہوں نے بینک کے ذریعے روپیہ بھیج کر بنائی ۔ ہر چیز ان کے گوشواروں میں درج ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے آئندہ جلاس میں وہ ریکارڈ لے کر جائیں گے۔ بتائیں گے کہ شریف خاندان اور اسحق ڈار سمیت ان کے تمام اقارب مل کر ایک کروڑ سالانہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور وہ تنہا بیس کروڑ سے زیادہ۔ جہانگیر ترین اگر جھوٹے اور جعل ساز ہیں تو حکومت انہیں پکڑ کیوں نہیں لیتی؟ سات برس میں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ چودھری نثار علی خان کے پاس خورشید شاہ کے ''جرائم ‘‘کا ریکارڈ پڑا ہے اور اسحق ڈار کے پاس رحمن ملک کا۔ کس لیے؟
اپوزیشن میں بھی چور بہت ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ بھی قابل فہم نہیں کہ پاناما لیکس میں پہلے تین ماہ میں وزیر اعظم کے خلاف کارروائی ہو۔ سوال یہ ہے کہ تین ماہ کے اندرتمام لیڈروں کے خلاف تحقیقات کیوں نہ ہو؟ دوسری طرف اپوزیشن کو اعلان کرنا چاہئیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ دل و جان سے وہ قبول کرے گی ۔ وگرنہ اندیشہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اس کوڑے کرکٹ کو چھونے سے انکار کر دے گی۔ با ایں ہمہ ''شرفا‘‘اب گرفت میں ہیں۔ کوئی دن کی مہلت اسے مل سکتی ہے۔ فرض کیجئے تین چار برس کی بھی کہ اپوزیشن کی کوئی پارٹی فی الحال اقتدار سنبھالنے کے قابل نہیں ۔ 
شریف خاندان بچ نہیں سکتا۔ ریاست اب ان کی متحمل نہیں۔ ان کی تاریخ کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ فرمایا: لکّلِ اُمّتٍ اجل۔ ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھی ہے۔ مزارعین کو نئے آقا تلاش کرلینے چاہئیں کہ طوفان کے آثار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved