تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     05-05-2016

اور اب سونیا گاندھی

بوفورس نے راجیو گاندھی کو ایسا ڈبویا کہ وہ جیتے جی اس سے باہر نہیں آ پائے ۔اب اگسٹا ویسٹ لینڈکے ہیلی کاپٹروں نے سونیا گاندھی کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ہے ۔کیسا عجیب اتفاق ہے کہ دونوں معاملے اٹلی سے جڑے ہیں ۔کوتروچی بھی اٹلی کا تھا اور اب 3600 کروڑ کے اس سودے پر جو جان لیوا فیصلہ آیا ہے ‘وہ بھی اٹلی کی عدالت کا ہے ۔اٹلی سے اٹھنے والے الزام راجیو ‘سونیا فیملی پر ذرا زور سے چپکتے ہیں ۔ان پر لوگ آسانی سے اعتماد کرنے لگتے ہیں ۔آج تک یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ بوفورس توپوں کے سودوں میں راجیو گاندھی نے 62 کروڑ کی رشوت کھائی تھی لیکن عوام نے انہیں الٹا لٹکا دیا ۔اسی طرح میلان کی اونچی عدالت نے یہ تو کہا ہے کہ ایئر مارشل ایس پی تیاگی اور اس کے خاندان والوں نے رشوت کھائی ہے‘لیکن سونیا گاندھی نے رشوت کھائی ہے یہ کہیںنہیں کہا ۔لیکن سارے سودے کے پیچھے سونیا ہی اصلی طاقت ہے اور اس دستاویز میں پرنب مکھرجی اور احمد پٹیل کے نام بھی آئے ہیں ۔ان کانگریسی لیڈروں کے نام اطالوی عدالت میں اچھلے ہیں تو یہ معاملہ اب طول پکڑے بنا نہیں رہے گا ۔جب یہ معاملہ پہلی بار اچھلا تھا تو من موہن سرکار نے ڈر کے مارے اس سودے کو رد کر دیا تھا لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔اگر یہ نہیں اچھلتا تو بوفورس کی طرح یہ بھی آیا گیا ہو جاتا ۔یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انطونی کے حوالے سے رشوت کی بات قبول کرنے کے باوجود ہماری جانچ ایجنسیاں اور عدالتیں ابھی تک سوئی پڑی ہیں ۔رشوت دینے والوں کو اٹلی سرکار نے سزادے دی ہے مگر رشوت کھانے والے بھارت میں سرعام گھوم رہے ہیں ‘ بدعنوانی کی حد ہے ۔مودی سرکار اس وعدے پر بنی تھی کہ 'نہ رشوت کھائوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ لیکن وہ کر کیا رہی ہے پارلیمنٹ میں صرف ہنگامہ کرنے اور نوٹنکی کرنے سے کام نہیں چلے گا ۔سونیا کو بدنام کرکے بھی آپ کیا حاصل کر لیں گے ؟کانگریس تو پہلے ہی ادھ مری ہوچکی ہے ۔آپ اگر بھارت ماتا کی پشت میں 250 کروڑ کی رشوت کا چھرا مارنے والے مجرموں کو پکڑ سکیں ‘ان سے سارے پیسے اگلوا سکیں اور انہیں سخت سزا دلوا سکیں تو آپ اپنی عزت بچا اور شاید بڑھا بھی سکیں گے ۔
ٹرمپ امریکہ کا راہول گاندھی 
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدورا ڈونلڈ ٹرمپ ہیں ۔ ٹرمپ اپنے دوٹوک اور واضح بیانات کے لیے مشہور ہو چکے ہیں ۔اپنی تازہ تقریر میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر گہرے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نصف لاقانونیت والا ملک ہے ‘بد انتظامی ہے۔ وہاں سرکار کا مکمل ضابطہ نہیں ہے ‘اسکے پاس جو جوہری بم ہیں وہ اصلی مسئلہ ہیں۔اس مسئلے کو حل کرنے میں بھارت کی مدد ضروری ہو سکتی ہے ۔جب ٹرمپ سے پوچھا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں مکمل لاقانونیت ہو گئی تو کیا وہ وہاں امریکی افواج بھیجیں گے ؟انہوں نے جواب دیا میں ابھی سے اپنی پالیسی سب کو کیوں بتائوں ۔دشمن کو اندازہ لگانے دوں گا ۔ ٹرمپ نے کہا ‘کہ میں پاکستان کے بارے میں انجان ہوں ‘مجھے اس کے بارے میں اتنا ہی پتا ہے ‘جتنا دوسروں کو ہے ۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کافی اچھے ہیں ۔امریکہ اس کی مالی امداد کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا ؛حالانکہ امریکہ کو پاکستان ٹھگتا رہا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ ٹرمپ نے جس ایٹمی خطرے کی طرف اشارہ کیا ہے ‘وہ ہے ضرور لیکن ٹرمپ نے جن الفاظ میں اسے بیان کیا ہے اور اس کا حل بتایا ہے ‘اسے دیکھ کر آپ بہت آسانی سے ٹرمپ کو امریکہ کا راہول گاندھی کہہ سکتے ہیں ۔ہمارے راہول گاندھی کو بھارتی خارجہ پالیسی کی باریکیوں کی جتنی سمجھ ہے ‘اس سے بھی کم سمجھ ٹرمپ کوامریکہ خارجہ پالیسی کی ہے ۔پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں ہی نہیں ‘مغربی ایشیا‘ داعش ‘غیر ملکی ملازم ‘امریکہ کی بیرونی تجارت ‘بیرونی ممالک میں امریکی افواج کی موجودگی‘ بیرونی امداد ‘اقوام متحدہ ‘شمالی کوریا ‘چین ‘روس ‘یورپ وغیرہ کے بارے میں بھی ٹرمپ متضاد باتیں بول کر اپنا اناڑی پن ظاہر کرتے رہتے ہیں ۔ایٹمی خطرے کے باوجود آ ج پاکستان کو امداد دینے کی بات کہی ہے لیکن کچھ دن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان شمالی کوریا کی طرح ہے ۔جب تک وہ اپنے ایٹمی ہتھیا ر ختم نہ کرے‘ اس کی مدد بند کرنی چاہیے ۔ ٹرمپ کوان کے زرخرید صلاح کار جو بھی تقریر لکھ کر دیتے ہیں ‘اسے وہ ٹیلی پرامپٹر پرپڑھ کر سنا دیتے ہیں ۔جب وہ خود بولتے ہیں تو ان کی انگریزی ماشااللہ ہوتی ہے‘ جس کا سر پیر جوڑنا ہی مشکل ہوجاتا ہے ‘اسی لیے ٹرمپ کی کسی بات سے زیادہ خوش ہو جانا ٹھیک نہیں ہے ۔
کیا کمال کا فیصلہ ہے 
ممبئی ہائی کورٹ نے کمال کر دیا ہے ۔ ایسا فیصلہ اب تک شاید کسی بھارتی عدالت نے نہیں دیا ہے ‘جس میں لیڈروں کے ساتھ ساتھ نوکر شاہ اور فوجی افسر بھی پھنس گئے ہوں ۔ ممبئی کے کولابا میں بنی آدرش سوسائٹی کی 31منزلہ عمارت کو ‘فوراًگرانے کا حکم جاری کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ‘ خاص کر تب جبکہ اس قیمتی عمارت میں ایسے لوگوں کے فلیٹ ہیں ‘ جو وزیراعلیٰ ‘وزراء اور ایم ایل ایز اور اراکین پارلیمنٹ رہے ہیں اورموجودہ مودی سرکار میں وزرا ء ہیں۔ ان لیڈروں نے اپنے رشتے داروں کے نام پر بے نامی فلیٹ بھی خرید رکھے ہیں لیڈروں کو بدعنوانی کے گر سکھانے والے ان کے گرو حضرات نوکرشاہوں نے بھی کروڑوں روپیہ کے لگ بھگ دو درجن فلیٹ دبوچ رکھے ہیں۔اس لوٹ کھسوٹ میں کئی فوجی افسر اور سیاستدان بھی شامل ہیں ۔فلیٹوں کی اس لوٹ کھسوٹ کے الزام میں13 لوگوں پر مقدمے چلے ہیں ۔ان میں سے کچھ گرفتار بھی کیے گئے ۔فلیٹ خالی پڑے ہیں ‘ان کی بجلی پانی بند ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے کہ کہیں فلیٹ خریدنے میں کسی کا کیا گناہ ہو سکتا ہے ؟باقاعدہ پیسہ بھرے اور فلیٹ خریدے ۔نہیں ‘نہیں‘ایسا نہیں ہوا۔ان لوگوں نے جرم نہیں ‘سنگین گناہ کیا ہے ۔ہمارے شہداء کی بے عزتی کی ہے ۔امانت میں خیانت کی ہے ۔یہ فلیٹ بنائے گئے تھے کارگل جنگ کے شہیدوں کی یاد میں ۔ان کے خاندان والوں کے لیے ۔اسی لیے کولابا جیسی جگہ پر یہ قیمتی زمین سرکار نے دے دی تھی لیکن آدرش سوسائٹی کے افسروں نے لیڈروں‘ نوکر شاہوں اور تجارت باز پراپرٹی ڈیلروں کے ساتھ ایسی سانٹھ گانٹھ کی کہ زیادہ تر فلیٹوں پر غلط لوگوں کا قبضہ ہو گیا ۔اس غیر قانونی عمل کے خلاف سم پریت سنگھ نام کے ایک سجن نے مقدمہ ٹھوکا ‘جس کے سبب یہ فیصلہ آیا ہے ۔اس معاملے نے پانچ چھ سال پہلے جب طول پکڑا تو مہاراشٹر کے وزیر اعلی اشوک چوہان کو مستعفی ہونا پڑا اور وزیر ماحولیات جے رام رمیش نے اس عمارت کو پوری طرح سے گرا دینے کا حکم جاری کیا۔ رمیش کا یہ فیصلہ اتنا تو بہادرانہ تھا کہ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔کانگریسی سرکار کے وزیرہونے کے باوجود انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے بدعنوانوں کو دنگ کر دیا ۔
اب سارے بد عنوان سپریم کورٹ میں اپنی قسمت آزمائیں گے۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ اگر اس عمارت کو بنائے رکھنے کا فیصلہ کرے تو وہ یہ کر سکتی ہے کہ جو ناجائز قبضے والے لوگ ہیں‘ ان کے ملکیت رد کر دے ۔انہیں کوئی معاوضہ نہ دیا جائے ۔انہیں پانچ پانچ برس کی سزا بھی دی جائے اور کارگل کے شہیدوں کے گھر والوں کو بہت ہی کم قیمت پر وہ فلیٹ دیے جائیں ۔لیکن جیسی کہ جے رام رمیش کی رائے تھی کہ یہ عمارت انوائر منٹ اور تحفظ ‘دونوں نظریوں سے پر اعتراض ہے تو اسے گرانا ہی ٹھیک ہوگا ۔ایسے میں شہیدوں کے لیے معاوضے کا پورا انتظام ہونا چاہیے ۔اگر یہ عمارت گرادی گئی اور مہاراشٹر کے بڑے بڑے لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو نئے بننے والے بدعنوانوں کی ہڈیوں میں کپکپی دوڑ جائے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved