انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبد اﷲ عبد اﷲ کے مشیر اعلیٰ اور قریبی ساتھی انجینئر خان محمد کو داعش سے قریبی تعلق کے ناقابل تردید ثبوت ملنے پرگرفتار کر لیا ہے۔ ڈاکٹر عبد اﷲ کی جانب سے اس معاملے کو دبانے اور اس کے خلاف کارروائی رکوانے کی بھر پورکوشش کی گئی لیکن افغان چیف ایگزیکٹوکے ساتھ اس بار بد قسمتی یہ ہوئی کہ افغان فورسزکے جن افسروں کے ہاتھ میں یہ معاملہ تھا وہ انتہائی وطن پرست تھے۔ خان محمد کے بارے میں اس قسم کی اطلاعات پہلے بھی سکیورٹی اداروں کو مل چکی تھیں لیکن سابق صدر حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبد اﷲ کے دبائوکی وجہ سے اس پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ ہو سکا۔ لیکن اس دفعہ قومی مفاد کو اوّلین ترجیح دینے والے افسروں کی وجہ سے انجینئر خان محمد فرسٹ ایڈوائزر ٹو چیف ایگزیکٹوکو قانون کے آہنی شکنجے میں جکڑلیا گیا۔ الزام کی نوعیت معمولی نہیں بلکہ وہ افغانستان میں داعش کی داغ بیل ڈال رہے تھے، ان لوگوں کو بورڈنگ لاجنگ کی سہولتیں فراہم کر رہے تھے۔ اس کے ناقابل تردید ثبوت افغان فورسزکے ہاتھوں میں آ چکے ہیں اور اب اس بات کی تردید نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان مخالف وہ قوتیں جن کے بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں سے قریبی تعلقات ہیں اور جو تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوںکے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروا رہے ہیں ان میں داعش کے ان لوگوںکا مکمل ہاتھ ہے۔
ہو سکتا ہے افغان حکومت اس خبر کو چھپانے یا اسے کوئی دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرے،کوئی نئی کہانی گڑھ لے لیکن یہ حقیقت کیسے چھپائی جائے گی کہ اسے افغان ایجنسیوں اورافغان سکیورٹی فورسز نے مکمل ثبوت ملنے پر ہی گرفتار کیا ہے۔ یہ ایجنسیاں اور ادارے اچھی طرح جانتے تھے کہ انجینئر خان محمد کے حامد کرزئی سے قریبی تعلقات ہیں اور اس کی کارروائیوں کا سلسلہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ سے جاری ہے، پاکستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو خان محمدکا گروپ ہی کنٹرول کرتا ہے۔
افغانستان کے تفتیشی اداروں کو دیکھنا ہوگا کہ انجینئر خان محمدکی ملا فضل اﷲ، خالد خراسانی اور سجنا گروپ سے اب تک کتنی ملاقاتیں ہو چکی ہیں؟ افغانستان میں داعش کا نام سب سے پہلے میڈیا پرکب اورکس نے استعمال کیا اوراس میں کون کون سے گروپ شامل ہوئے؟ داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں جب انجینئر خان محمد کو افغان فورسز نے گرفتار کیا تو ان کی رہائش گاہ اور دفتر سے ایسی دستاویزات برآمد ہوئیں جن میں داعش کو دی جانے والی مالی سہولتوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ تفتیشی اداروںکو دیکھنا ہوگا کہ ان دستاویزات میں سے کتنی ایسی ہیں جو چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ کے نوٹس میں آ چکی تھیں اور ان میں سے وہ کونسی ہیں جن پر ان کی باقاعدہ منظوری لی گئی؟ افغان صدر اشرف غنی پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خان محمد کی دہشت گردانہ
سرگرمیوںکا خود جائزہ لیں اور یہ کام ڈاکٹر عبد اﷲ تک محدود کرنے کی بجائے افغانستان کے آرمی چیف کی مشاورت اور نگرانی میں تفتیشی ٹیم بنا کر اس کی تحقیقات کرائیں۔ یہ معاملہ اب صرف افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ داعش کی وجہ سے یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کے بارے میں امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے پالیسی بیان میں واشگاف الفاظ میںکہا ہے کہ امریکہ داعش کوکچلنے کے لئے اسے ہر جگہ نشانہ بنائے گا۔ اگر خان محمدکی تفتیش کو افغانستان نے ملکی سلامتی کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھایا تو ممکن ہے کہ اس کے بعد افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بہت حد تک قابو پا لیا جائے، لیکن اگر اس معاملے کو گول کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر دنیا کے کسی ملک اورعالمی ادارے کے پاس یہ واویلا کرنے کا جواز باقی نہیں رہے گا کہ ان کے ملک میں غیر ملکی مداخلت ہو رہی ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے حساس ترین علا قوں میں آئے روز ہونے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات پر دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیاں سوال اٹھا رہی ہیںکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اندر کی معاونت کے بغیر دہشت گرد کارروائیاں کر سکیں۔ ان علاقوں میں نیٹو افواج کی مدد سے ایک ایک گھر اور عمارت کے رہائشیوں کی مکمل چھان بین کی جا چکی ہے، اس کے باوجود دہشت گرد اور ان کے سہولت کارکہاں سے داخل ہو نے میں کامیاب ہو جا تے ہیں؟ یہ سوال افغانستان کے سکیورٹی اداروں اور خاص طور پر افغان فوج کے سربراہ کے سامنے بار بار سر اٹھاتا ہے۔امریکہ اور نیٹو سمیت تمام ممالک کو انجینئر خان محمد کے تفتیشی مراحل پر گہری نظر رکھنا ہوگی کیونکہ خطے کی سکیورٹی اور امن کا اس کی رپورٹ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کابل کے سفارتی حلقوں کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اب تک کابل اور جلال آباد کی سفارتی عمارتوں اور دوسرے حساس مقامات پر اب تک جو بم دھماکے کئے جا چکے ہیں ان میں سے کتنے خان محمد جیسے افغان حکومت کے مشیروں کی مدد سے کئے گئے۔ انجینئر خاں محمد کی گرفتاری سے اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اقوام عالم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ داعش کو پروان چڑھانے والے لوگ تو ان کی اپنی آستینوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اگر انجینئر خان محمد جیسے بااثر مشیر کی غیر جانبدار طریقے سے تفتیش کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ کئی رازوں سے پردہ اٹھ جائے اور وہ حقیقت سامنے آ جائے جس نے خطے کے امن کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کی خفیہ ایجنسیوں کی وہ رپورٹیں کسی شک و شبہ کے بغیر تسلیم کرنا پڑیں گی کہ 'را‘ بھارت میں مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والوںکو داعش میں بھرتی کے لئے ترغیب دے رہی ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو سخت تربیت دینے کے بعد چین کے صوبہ سنکیانگ میں بے چینی پھیلانے کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ اس وقت عراق، ترکی اور شام سمیت مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں داعش کے لشکر میں بھارت اور بنگلہ دیش کے انہی لوگوں کی موجو دگی کی ناقابل تردید شہا دتیں مل چکی ہیں، بلکہ داعش کی مختلف کارروائیوں کے بعد جاری کی جانے والی تصاویر میں بھی ایسے لوگ صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
داعش میں بھارتی مسلمانوں کے اس مخصوص فرقے کے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد میں موجو دگی ثابت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ مودی سرکار کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا اور اس بات کو اس لئے بھی تقویت مل رہی ہے کہ بھارت کے آرمی چیف اب چین کو سبق سکھانے کے نعرے لگانے شروع ہو گئے ہیں۔ ان کے اس پالیسی بیان کے ساتھ ہی سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارت انہی لوگوں کو افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کر رہا ہوکیونکہ پاک چین راہداری منصوبے کو سبو تاژ کرنا ہی اس وقت مودی سرکار کی اوّلین ترجیح بن چکی ہے!