تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-05-2016

پاکستانی اپوزیشن اور دبئی میں گرتے بھائو

پاکستانی حزب اختلاف کی سیاسی کساد بازاری کا یہ حال نہ ہوتا ‘تو میاں نوازشریف ملک میں مرکزی اور صوبائی سطح پر اتنا طویل عرصہ حکومت نہ کر سکتے۔میں نے تو اس سکینڈل کے شروع میں ہی لکھ دیا تھا کہ میاں صاحب کو اقتدار سے نکالنا انتہائی مشکل ہے۔ اسی موضوع پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میں نے وجہ بیان کی کہ میاں صاحب عالمی دولت مندوں کی صف اول میں پہنچ چکے ہیں اور دولت مندوں کے اس کلب میں جانے والے عالمی مالیاتی مارکیٹ کے بھی ساجھے دار ہو جاتے ہیں۔ ساری دنیا کی معیشتیں اسی کلب کے کنٹرول میں ہوتی ہیں‘ جو اس میں اونچ نیچ کا پورا خیال رکھتا ہے۔ میاں صاحب آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ یہ بات وہ اسی لئے کہتے ہیں اور ٹھیک بھی کہتے ہیں کہ ''یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ اتنی نااہل اور تیسرے درجے کی ردی حزب اختلاف اس سے بہتر پرفارمنس نہیں دے سکتی‘ جیسی کہ وہ دے رہی ہے۔پاکستانی حزب اختلاف کے انتشار پر بی بی سی کی رائے ملاحظہ کیجئے۔
''انگریزی زبان کی ایک اصطلاح ہے ''فلتھی رچ‘‘۔ یہ اصطلاح اْن امیروں یا سرمایہ داروں کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کی دولت اور سرمائے کی حد نہ ہو۔ اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایسی دولت جس کی بہتات سے بدبو آنے لگے۔پاکستان میں پاناما پیپرز کے حقائق نے دولت کے جن انباروں سے پردہ اْٹھایا ہے اْن سے اْٹھنے والے تعفن میں سانس لینا بھی محال ہے۔غریب ملک میں غریبوں کے''فلتھی رچ‘‘ نمائندے ایک دوسرے پر جو کیچڑ اچھال رہے ہیں اس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تلخی اور زہر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔حزب اختلاف اور حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات اور جوابی الزامات سے لگتا ہے کہ ملک میں ہر دوسرا عوامی نمائندہ ''فلتھی رچ‘ ‘ہے۔ہزاروں کروڑوں اور سینکڑوں ارب کی باتیں ہو رہی ہیں اور عام آدمی کا ذہن ان ہندسوں کا احاطہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک غریب ملک جس میں بے روز گاری ، غربت ، افلاس، ناخواندگی ، بھوک اور دیگر مسائل کے بوجھ تلے عوام پستے چلے جا رہے ہیں وہاں حکمران طبقے کے لوگ کسی طرح امیر سے امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں۔بیرون ملک اثاثے بنانے والے رہنماؤں میں پیپلز پارٹی کی قائد کا نام بھی شامل ہے لیکن تمام تر توجہ نواز شریف پر مرکوز ہو جانا حکومتی جماعت کے لیے حیران کن ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے وزیر اعظم کے لیے اپنے خلاف الزامات کا جواب دینا اپنے عہدے کی وجہ سے بہت ضروری ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے ہیں، ان میں واضح تضادات کا جواب دینے کے بجائے پوری حکومتی مشینری یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ آف شور کمپنیوں میں دو سو سے زیادہ اور لوگوں کے نام بھی شامل ہیں۔ حکومت‘ بینکوں سے قرضے معاف کرنے کی بات بھی کر رہی ہے۔لیکن یہ جواب دینے کے لیے تیار نہیں کہ نواز شریف نے اپنے اقتدار کے تیسرے دور میںاور اس سے قبل ماضی میں دو مرتبہ جب وہ اقتدار میں رہے تو انھوں نے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ پاناما پیپرز کے سامنے آنے کے بعد ہی انھیں قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف کارروائی کا خیال کیوں آیا۔
پاناما پیپرز میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کی ایک آف شور کمپنی کا نام بھی آیا۔ ڈیوڈ کیمرون نے ابتدا میں چند دن کے لیت و لعل کے بعد پارلیمان میں آ کر اپنے تمام اثاثوں اور گزشتہ چھ برس میں ادا کیے گئے ٹیکسوں کی تفصیل بیان کر دی۔ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے اپنے اثاثوں کی تفصیل سامنے آنے کے بعد یہ ساری بحث دم توڑ گئی۔ ڈیوڈ کیمرون کے والد نے آف شور کمپنی بنائی تھی اور اس فہرست میں ڈیوڈ کیمرون کا نام نہیں تھا۔دو آف شور کمپنیوں کے حوالے سے نواز شریف کے صاحبزادوں کے نام لیے جا رہے ہیں اور حسین نواز ان کی ملکیت کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں کے نام کی بازگشت پاکستانی سیاست میں نوے کی دہائی سے سنی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب حکمران خاندان تاحال دینے میں ناکام ہے۔ اگر ڈیوڈ کیمرون اپنے والد سے حاصل کی گئی دولت کی تفصیل بتا سکتے ہیں تو نواز شریف سے یہ پوچھنا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو ورثے میں کتنی رقم دی ہے، ناجائز نہیں ہے۔عام طور پر آپ اپنے والدین کے فیصلوں کے جوابدہ نہیں ہو سکتے لیکن ذمہ دار، مذہبی اور روایتی مشرقی اقدار کا پاس کرنے والے والدین ہونے کے ناتے آپ کو اپنی اولاد کے ہر فیصلے کا جوابدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب آپ کی اولاد کو آپ سے ورثے میں بے انتہا دولت اور جائیداد ملی ہو۔پاکستان میں یہ بحث ایک سیاسی بحران کی کیفیت اختیار کر گئی ہے۔ شریف فیملی کی دولت اور امارت کی نئی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں لیکن سیاسی طور پر حکمران جماعت غریب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سیاسی منظر نامے پر وہ تنہا کھڑی نظر آتی ہے۔شریف خاندان کا دفاع کرنے والوں کی تعداد بھی انتہائی کم ہو چکی ہے۔نواز شریف پارلیمان میں کھڑے ہو کر اس صورت حال کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ارکان کی تعداد 188 ہے اور اس میں اگر حکومتی جماعت کے 26 سینیٹروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 216 جاتی ہے۔ لیکن ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثوں اور اخباری بیانات میں شریف فیلمی کا دفاع کرنے والوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں ہے۔حکومتی بنچوں کی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے کیا سوچتے ہیں؟ یہ معلوم نہیں ہو سکتا کیونکہ اپنی قیادت کی طرف سے انھیں بات کرنے کی تو کجا شاید ایسے معاملات پر سوچنے کی بھی اجازت نہیں۔‘‘
پاکستانیوں کی چند ہاتھوں میں سمٹی ہوئی دولت اس لئے زیادہ نظر آتی ہے کہ معاشرے میں اس کی تقسیم کا کوئی انتظام نہیں۔ ٹیکس کا نظام انتہائی ناقص بلکہ بیہودہ ہے۔ ٹیکس صرف کتابوں کے اندراجات پورے کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں‘ جو اصل منافع کمایا جاتا ہے اسے ٹیکس لینے والے اہلکاروں سے چھپا لیا جاتا ہے۔ لیکن چھپا لیا جانا بھی کسی ہنرمندی کا نتیجہ نہیں‘ ٹیکس لینے اور دینے والے دونوں ہی بڑے شوق اور بیتابی سے اپنا اپنا حصہ لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکس کی وصولی میں پاکستانی عوام سے زیادہ وہ بیرونی مالیاتی ادارے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں‘ جن سے ہم نے قرضے لے رکھے ہیں۔ ان اداروں کو مالیاتی ماہرین چلاتے ہیں۔ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔ سرکاری محکموں کی ملی بھگت سے افسر شاہی جس طریقے سے صنعت کاروں کو ٹیکس کھانے کی سہولتیں فراہم کرتی ہے‘ اس سے معاشرے میں تقسیم زر کا نظام غیرمتوازن ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بیرونی ماہرین‘ پاکستان کے عام شہری کی زندگی اور پھر دبئی جا کر ان کی سرمایہ کاری کو دیکھتے ہیں‘ تو انہیں تعجب ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دبئی میں ہونے والی سرمایہ کاری پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے‘ وہ پیش کر رہا ہوں۔ 
''گزشتہ دس برس سے دبئی کی پراپرٹی کی قیمتیں اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہیں لیکن حال ہی میں ایسا لگتا ہے کہ ان میں وہ دم نہیں رہا۔2002 ء میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے خاص فری ہولڈ زون بنانے کے بعد یہ خلیجی امارت ایک پسندیدہ ریئل سٹیٹ مارکیٹ کے طور پر ابھری۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2008ء میں قیمتیں اپنے عروج پر تھیں لیکن اس کے بعد عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پیسہ ختم ہوا اور قیمتیں یکدم گر گئیں۔پراپرٹی کنسلٹینسی فرم‘ جانز لانگ لا سال میں مینا ریسرچ کے سربراہ کریگ پلمب کے مطابق گذشتہ برس قیمتوں میں 12 فیصد کمی آئی۔وہ کہتے ہیں کہ' 'اس وقت مارکیٹ ایک قسم کی سافٹ لینڈنگ کر رہی ہے، قیمتیں ایک سال سے گر رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں مارکیٹ میں گراوٹ جاری رہے گی، لیکن اتنی نہیں جتنی پہلے گر چکی ہے۔‘‘پلمب کہتے ہیں '' دبئی کی مارکیٹ سمندر پار طلب کی وجہ سے چلتی ہے جن کی کرنسیاں امریکی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہونے کی وجہ سے، قیمتیں بڑھ گئیں‘‘۔ایک اور پراپرٹی مشاورتی کمپنی کی مالک نے بتایا کہ' 'ہم نے 2015 ء میں رہائشی سیکٹر میں 10 فیصد قیمتوں میں کمی دیکھی۔ لیکن اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ایسا نہیں ہوا۔‘‘نائٹ فرینک کی 2015 ء کی رپورٹ کے مطابق ''غیر ملکی کرنسی رکھنے والے خریداروں کے لیے اب دبئی کی ریئل سٹیٹ زیادہ مہنگی ہے۔‘‘دبئی میں بھارتی سرمایہ کاروں نے20 ارب درہم کی سرمایہ کاری کی۔اس کے بعد پاکستان اور برطانیہ کا نمبر آتا ہے۔ برطانیہ 10.8 ارب درہم اورپاکستانیوں نے 8.4 ارب درہم لگائے ۔ ایرانیوں نے 4.6 ارب، کینیڈینز نے 3.7 ارب اور روسیوں نے 2.7 ارب درہم کی سرمایہ کاری کی۔ قیمتوں میں جو کمی واقع ہو رہی ہے ‘ سرمایہ کار اس سے پریشان نہیں۔ایک بڑے سرمایہ کار کا تبصرہ ہے کہ اس وقت رسد کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ڈویلپر محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور طلب کے مطابق منصوبوں کو بتدریج مکمل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved