سینیٹ آف پاکستان کے سابق چیئرمین نیئر بخاری نے گزشتہ روز سرکاری سکیورٹی گارڈ سے جو سلوک کیا‘ وہ ہمارے منتخب عوامی نمائندوں کی ذہنیت کا عکاس ہے‘ فرائض کی ادائیگی میں مصروف سرکاری اہلکار اوّل تو بڑی گاڑی اور بڑی شخصیت کو چیک کرنے کی جرأت نہیں کرتے خواہ گاڑی میں غیر قانونی مہلک ہتھیار‘ قانون کو مطلوب کوئی جرائم پیشہ فرد ہی موجود نہ ہو اگر کوئی سر پھرا حرکت کر بیٹھے تو اس سلوک کا مستحق ٹھہرتا ہے جو ایف ایٹ کچہری میں ڈیوٹی ادا کرنے والے اہلکار سے ہوا۔چند سال قبل سندھ کی ایک رکن اسمبلی وحیدہ شاہ نے بھی نیّر بخاری کی طرح عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا تھا۔
نوے کی دہائی میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک ٹریفک سارجنٹ نے جس کا نام غالباً غلام رسول صابری تھا‘ رکن اسمبلی جلال الدین ڈھکو کو گاڑی کے شیشے پر چسپاں کاغذ اتارنے کے لیے کہا تو موصوف بپھر گئے اور بہاولنگر کے ساتھی رکن اسمبلی چودھری محمد اکرم کے ساتھ مل کر سارجنٹ کی بے عزتی کی ۔ اہلکار بھی ٹلا نہیں اور اس نے ارکان اسمبلی کی گاڑی کا چالان کاٹ کر دم لیا غلام حیدر وائیں مرحوم وزیر اعلیٰ تھے اور قانون کی بالادستی و میرٹ کے پرچارک ۔مگر ارکان اسمبلی نے ایکا کر لیا اور باجماعت باہر نکل کر احتجاج کیا۔ وائیں صاحب نے سارجنٹ کی گرفتاری کا حکم دیا اور ارکان اسمبلی کو منایا مگر پولیس کے اعلیٰ افسران نے بااصول اہلکار کی پشت پناہی کی اور میڈیا نے بھی خوب شور مچایا چنانچہ وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اعلیٰ اور مشتعل ارکان اسمبلی کو مری بلا کر خوب ''خاطر تواضع ‘‘ کی اور ٹریفک سارجنٹ تھانہ سول لائن سے باعزت رہاہوا۔
خورشید شاہ صاحب نے فرمایا کہ نیّر بخاری سابق چیئرمین سینیٹ اور سابق صدر پاکستان رہے وہ سادہ لباس میں سکیورٹی پر مامور کسی شخص کو تلاشی کیوں دیتے؟جبکہ سامنے آنے والی فوٹیج نیّر بخاری اور خورشید شاہ کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ پاکستان میں عوامی نمائندگی کا مطلب ہی شاہی اختیارات اور پروٹوکول کو انجوائے کرنا رہ گیا ہے۔ لہٰذا اندراج مقدمہ کو انتقامی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہے ورنہ پوری دنیا میں حفاظتی مقاصد کے لیے جامہ تلاشی کا رواج ہے یہی سابق صدر و سابق چیئرمین سینیٹ امریکہ اور دوسرے ممالک میں جوتے اتار کر شوق سے تلاشی دے رہے ہوتے ہیں اور کبھی احتجاج نہیں کرتے۔ امریکہ میں تو ایک بار ہمارے سرکاری وفد کو کپڑے اتار کر تلاشی دینی پڑی مگر کسی نے شور مچایا نہ اہلکار سے بدتمیزی کی جانتے تھے کہ سیدھے جیل جائیں گے اور صدر بش بھی چھڑا نہیں پائیں گے۔جانگیہ تلاشی دینے والوں میں فوجی صدر پرویز مشرف کے ترجمان راشد قریشی بھی شامل تھے۔
1947ء میں 3جون منصوبے پر غور کے لیے دہلی کے امپیریل ہوٹل میں مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ داخلہ بذریعہ کارڈ تھا۔ مندوبین کو ہدایت کی گئی کہ وہ مسلم لیگ کے جاری کردہ شناختی کارڈ ساتھ لائیں ۔ ہال کے باہر ارباب نور محمد نے اپنے ڈرائیور کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہر شخص کا کارڈ چیک کرنے کے بعد اندر داخل ہونے دے۔ حسین شہید سہروردی بنگال کے وزیر اعظم تھے ہال میں داخل ہونے لگے تو ڈرائیور نے روک دیا اور کارڈ طلب کیا سہروردی صاحب نے لیت و لعل کرنے کے بجائے اشارہ کیا کہ کارڈ ان کی اچکن کی جیب پر چسپاں ہے سہروردی کے سٹاف نے کہانہ سہروردی نے اصرار کیا کہ وہ وزیر اعظم ہیں انہیں شناخت کرانے کی کیا ضرورت ہے یا چیکنگ پرمامور شخص سادہ کپڑوں میں ملبوس ہے۔ قائد اعظم تشریف لائے تو انہیں بھی روکا گیا کسی نے تعارف کرانا چاہا تو قائد اعظم نے روک دیا جیب سے کارڈ نکال کر دکھایااور نوجوان کو فرض شناسی کی داد دی‘ قائد اعظم کے کسی متوالے نے آگے بڑھ کر ڈرائیور کو تھپڑ رسید کیا نہ یہ کہا کہ تم نے مسلم لیگ کے سربراہ اور اسلامیان برصغیر کے محبوب لیڈر کی توہین کی ۔
ایک دو دوسرے مواقع پر بھی ایسے واقعات پیش آئے مگر قائد اعظم نے خندہ پیشانی سے اپنی شناخت کرائی متعلقہ شخص کو شاباش بھی دی۔ قائد اعظم تو خیر قائد اعظم تھے۔ بااصول ‘ قاعدے قانون کے پابند اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنے والے ۔مگر ان کے بعد بھی بہت عرصہ تک ہمارے سول و فوجی حکمرانوں‘ عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کا یہی طرز عمل رہا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اس ملک کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر تھے اور قدرت اللہ شہاب طویل عرصہ تک ان کی ناک کا بال بنے رہے۔ ایوب خان جشن جمہوریت منانے نکلے تو خانیوال میں رکے۔ جلسہ گاہ میں صدر کے سٹاف کے لیے علیحدہ جگہ مختص تھی۔ شہاب صاحب اپنی کرسی پر اس انداز میں بیٹھے کہ لگتا نہیں تھا یہ صدر کے پرنسپل سیکرٹری ہیں۔ علاقہ کے ایس ڈی ایم کو شک گزرا کہ یہ کوئی غلط آدمی ہے قریب آیا‘ بازو سے پکڑا اور کہا آپ اس طرف چلے جائیں یہ سیٹ ریزرو ہے شہاب صاحب نے ڈانٹنے کے بجائے حکم کی تعمیل کی۔ ایک دو قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایوب خان پکارے شوہاب ! کدھر جا رہے ہو(ایوب خان شہاب کو شوہاب کہتے) ایس ڈی ایم کے ہاتھ پائوںپھول گئے مگر اعلیٰ سرکاری افسر نوجوان افسر سے کچھ کہے بغیر نشست پر بیٹھ گیا ۔رعب جھاڑانہ انتظامیہ سے نوٹس لینے کو کہا یوں ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اب مگر صورتحال مختلف ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کی حفاظت اور ناکوںپر مامور سکیورٹی اہلکار صبح سے شام تک اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ اگر کسی ایم این اے ‘ ایم پی اے‘ وزیر‘ مشیر‘ حکمران کے عزیز رشتہ دار اور نوکر چاکر کو روکا‘شناخت یا تلاشی کے لیے کہہ بیٹھے تو معلوم نہیں کیا عتاب نازل ہو گا۔ ٹریفک وارڈن بھی گاڑی کا ماڈل دیکھ کر ہی روکتے اور کاغذات طلب کرتے ہیں۔ مہنگی اور بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ شل ہوتے ہیں اور دماغ مفلوج کہ اگر یہ کوئی نیئر بخاری یا اس کا چہیتا نکل آیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ نوکری نہ بھی گئی تو چند دن کی معطلی لازمی ہے۔ ممکن ہے دو چار پڑ بھی جائیں۔ ہماری اشرافیہ کا یہی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے سول سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے حوصلے پست‘ کار گزاری صفر اور انداز فکر نیم دلانہ ہے جبکہ سکیورٹی کی صورتحال ابتر۔ان کا بس صرف کمزور اور غریب پر چلتا ہے اور وہ ان پر نہ صرف پورا غصہ نکالتے ہیں بلکہ چائے پانی دینے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ انہی اہلکاروں سے یہ توقع کی جاتی ہے وہ سنگدل دہشت گردوں اور خودکش بمباروں کا راستہ روکیں اور ہماری جان و مال کا تحفظ کریں۔جو ناممکن ہے۔
یہ واقعہ اس دن ظہور پذیر ہوا جس روز جڑواں شہروں میں ہائی الرٹ تھا‘ ''را‘‘ اور افغان ایجنسی کے تربیت یافتہ تیرہ خود کش دہشت گردوں کی شہروں میں موجودگی کی اطلاع گشت کر رہی تھی اور سیشن جج نے متعلقہ اہلکار کو تلاشی کی ہدایت کر رکھی تھی مگر نیر بخاری اور اس کے سکیورٹی گارڈ کو اس کی کیا پروا ؟کسی سیشن جج اور اس کے مقرر کردہ سکیورٹی اہلکار کی کیا مجال کہ تلاشی لے سکے۔ یہ تو سابق چیئرمین سینیٹ کی توہین ہے اور اہلکار نے اس توہین کا مزہ چکھ لیا۔ میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ چودھری نثار علی خان کے سر پر آ ج کل رٹ آف گورنمنٹ اور قانون کی بالادستی کا بھوت سوار ہے۔ یہ واقعہ ٹیسٹ کیس ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی اور اس کی حامی وکلاء برادری اور دیگر عوامی نمائندوں کے دبائو کا مقابلہ کس انداز میں کرتے ہیں ۔یہ ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے کسی چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں اور عزت نفس صرف بڑے لوگوں کی نہیں چھوٹے پولیس اہلکاروں کی بھی ہوتی ہے جس کا تحفظ حکومت کا فرض ہے۔ نوّے کے عشرے میں میاں نواز شریف نے اپنے ارکان اسمبلی کی غلط روی اور دیدہ دلیری کا نوٹس لے کر غریب ٹریفک اہلکار کی داد رسی کی تھی اب محمد ریاض کو بھی یہ امید رکھنی چاہیے؟