اللہ کی بارگاہ میں صرف دو سکّے ہی سچّے ہیں۔ خلوص اور انکسار۔ انہی سے ہم محروم ہیں تو فروغ کیسے پائیں؟ کاش، اے کاش!
جناب نیّر بخاری کو کانسٹیبل نے روکا تو انہیں صدمہ کیوں ہوا؟ انہوں نے کیوں کہا: تم مجھے جانتے نہیں؟ کیا وہ قائدِ اعظم ہیں؟ ملک کے آخری کمانڈر انچیف جنرل گل حسن کا لکھا ہوا واقعہ اس پر یاد آیا، جو درجنوں بار دہرایا جا چکا۔ سیر کرنے کے لیے قائدِ اعظم نکلے تھے، غالباً ملیر کی طرف۔ گل حسن ان کے اے ڈی سی تھے۔ پھاٹک پہ گاڑی رکی تو وہ اتر کر گئے اور چوکیدار سے پوچھا کہ ٹرین میں کتنی دیر باقی ہے۔ ابھی دس منٹ تھے۔ پھاٹک کھول دینے کا کہا‘ مگر 73 سالہ نحیف آدمی نے انکار کر دیا۔ فرمایا: قانون کی میں پابندی کروں گا۔ گل حسن نے پھر بھٹو کا ذکر کیا۔ مری روڈ راولپنڈی میں سرخ سگنل توڑ کر نکلے اور کہا: کون مجھے روک سکتا ہے؟ اسی طرح نشیب کی طرف ایک ایک زینہ اترتے ہوئے ہم دلدل میں جا اترے ہیں۔
خطبہ حجۃ الوداع میں سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا: گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر پاک بازی سے۔ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنائے گئے۔
مورخ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر ابن خطابؓ یروشلم روانہ ہوئے تو زمین کانپ رہی تھی۔ آدھا راستہ وہ اونٹ پر سوار تھے اور آدھا راستہ ان کا غلام۔ شہر میں داخل ہوئے تو مشورہ دیا گیا کہ بہتر لباس پہن لیں۔ فرمایا: رعب آسمان کی چیز ہے اور لباس زمین کی۔ عبیدہ بن جراحؓ کا بہت اکرام فرمایا کرتے کہ سادگی اور یقین کا پیکر تھے۔ سرکار ؐ نے ارشاد فرمایا تھا: ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے۔ اس امت کے امین عبیدہ بن جراحؓ ہیں۔ ان کی خدمت میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہی ایک تلوار، وہی ایک ڈھال۔ فرش پہ وہی بچھونا اور لکڑی کا وہی پیالہ۔ آنکھ نم ہو گئی اور فرمایا: رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد ہم سب تھوڑے تھوڑے بدل گئے، آپ نہیں بدلے۔ آخری دنوں کا واقعہ ہے کہ مکّہ سے مدینہ لوٹ رہے تھے کہ ایک مقام پر کنکریاں جمع کیں۔ ان پہ چادر بچھائی اور یہ کہا: اے میرے مالک، میر ی عمر بڑھ گئی۔ میری رعایا پھیل گئی۔ میری ہمّت ٹوٹ گئی۔ اس سے پہلے کہ کوئی غلطی ہو جائے، مجھے اس دنیا سے اٹھا لے۔ انہی دنوں ارشاد کیا تھا: عراق کے دلدلی راستوں پہ اگر کوئی خچر پھسل کے گر پڑا تو مجھے اندیشہ ہے کہ عمر سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ عدالت میں طلب کیے گئے تو قاضی اکرام میں اٹھا‘ امیرالمومنین نہیں، شاید عمر ابنِ خطاب ؓ کے لیے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: میرے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو عمر ہوتے۔ چودہ صدیوں سے تاریخ جس آدمی کے حضور سجدہ ریز ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کے بقول سوشل سکیورٹی سمیت جس نے 26 نئے اداروں کی بنا ڈالی۔ آنے والے زمانوں کا رخ متعین کیا، قاضی سے انہوں نے یہ کہا: یہ پہلی ناانصافی ہے۔
میرے پیارے بھائی نیّر بخاری، خاکم بدہن، کیا ہم ان سے بڑے ہو گئے؟
گاہے بدّو ان کے ہاں بلا اجازت بھی گھسے چلے جاتے۔ ان میں سے ایک نے کہا: مجھے پہنائو اور مجھے کھلائو۔ یعنی خوراک اور لباس کے لیے روپیہ دو۔ غالباً یہ اس پانچ سالہ قحط کے ایام تھے، جس میں چوری کی سزا آپ نے موقوف کر دی تھی۔ پرسوں ایک برطانوی عدالت نے یہ کہتے ہوئے جس کی پیروی کی کہ بھوک میں کھانا چرانا جرم نہیں۔ فرمایا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں‘ کہ خزانہ خالی تھا۔ وہ بھی عجیب آدمی تھا۔ بولا: عمرؓ اللہ کو کیا جواب دو گے؟ رو پڑے اور اپنا کرتا اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔
واقعات معروف ہیں مگر دہرانے چاہئیں۔ خطبہ دینے کے لیے اٹھے اور ارشاد کیا: میں نے مہر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غالباً اس لیے کہ آسودہ ہوتے معاشرے میں اب افراط و تفریط برپا تھی۔ ایک بڑھیا اٹھی کہ تب خواتین مسجد جایا کرتیں۔ اس نے کہا: رسول اللہ ؐ نے مقرر نہ کیا‘ تو ایسا کرنے والے تم کون ہو؟ رک گئے، رکے رہے اور بولے تو یہ کہا: ایک بوڑھی عورت نے عمر کو بچا لیا۔ قوت عمل کے کیسے کیسے طوفان ان کے سینوں میں امنـڈا کرتے مگر اصول کی کس درجہ تقدیس تھی۔ ادھر سرکار ؐ کا نام آیا، ادھر کسی نے قرآنِ کریم کی آیت پڑھی اور ادھر طوفان تھم گیا۔ ابریشم کی طرح نرم، عاجز اور اطاعت گزار۔
وہ مسلمان کیا ہوئے؟ کہاں چلے گئے؟ اب ہم ہیں اور برادرم نیّر بخاری ہیں۔ طنطنہ ہے اور مغالطے ہیں۔ معاف کیجیے گا، انا ہے، جہل ہے اور قوتِ فکر سے خالی مقلد ذہن۔ انکسار سے آدمی کی قیمت بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی۔ کاش نیّر بخاری سمجھ سکیں کہ دبائو سے پسِ پردہ مصالحت کی بجائے، علی الاعلان اگر وہ معافی مانگ لیں‘ تو ان کا قد و قامت بالا ہو گا۔ بخاری ہی کا ذکر نہیں۔ وہ بھلے آدمی مانے جاتے ہیں۔ ہم سب کا حال یہی ہے۔ ملّا ہو کہ لیڈر، جنرل اور جج ہوں کہ جرنلسٹ، سبھی کا۔ میاں محمد منشا کو نیب والوں نے بلایا تو نواز شریف تڑپ اٹھے تھے۔
عینی شاہد معظم رشید نے بیان کیا: آئی جی کلیم امام کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے طلب کیا اور کہا کہ وہ ان کی وردی اتروا دیں گے۔ ایک مقدمے پر اعتراض تھا۔ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ان سے پہلے کا ہے مگر سن کر نہ دیا۔ چھ مقدمات تھے، ایک بھی نہ سنا۔ پھر تین گھنٹے جناب ایس ایم ظفر کا خطاب سنا۔ ان سے غالباً مرعوب تھے۔ قہرمان قاضی القضاۃ اب حیران پھرتے ہیں۔ 'پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘۔ عدالتی تحریک تو اپنی جگہ جائز اور طیب مگر بخدا ان صاحب کی ذات کے بارے میں نعیم بخاری سچّے تھے۔ ان سے معذرت قومی پریس کے ذمہ ایک واجب الادا قرض ہے۔
بار بار میں سوچتا ہوں۔ اپنی سول سروس اور پولیس کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ خاص طور پر پولیس سے۔ خلفائے راشدین کا ہم حوالہ دیتے ہیں۔ پھر اخبار اٹھاتے اور ٹی وی دیکھتے ہیں تو شرم آتی ہے کہ مغرب میں کوئی حکمران فضیلت کا مدّعی نہیں ہو سکتا۔ ہو تو مارا جائے۔ پولیس کو حکمرانوں کی باندی بنا دیا گیا۔ ہر بارسوخ ان پہ چڑھ دوڑتا ہے۔ اس تذلیل کے باوجود یہ مطالبہ کیوں ہے کہ وہ مہذب اور مرتب رہیں۔ پناہ بخدا، ہر روز تبادلے، ہر روز تحقیر۔ اخبار نویس، ارکانِ اسمبلی، سینیٹر، جج ، جنرل اور وزرا کیا آسمان سے اترے ہیں؟ دھوپ میں کھڑا، اپنی ڈیوٹی نبھاتا کانسٹیبل ان سے کہیں زیادہ معزز ہے، جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آج تک شرمندہ ہوں۔ دھوپ میں ایک کانسٹیبل کو ڈانٹا تو اس نے کہا: آپ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھے ہیں اور میں لُو میں کھڑا ہوں۔
انسانی جبلتوں کے تعامل کا مطالعہ مشکل ہے۔ بخاری صاحب نے غالباً یہ گمان کیا کہ عام آدمیوں میں وہ کیوں شمار ہوں؟ خود پسندی؟ احساسِ کمتری؟ احساس عدم تحفظ یا معاشرے کا چلن؟ نیّر بخاری ہی نہیں۔ ہم سب کا یہی عالم ہے۔ آج ایک پولیس افسر سے ملاقات ہوئی۔ چہرے پر ملال: کہا: یہ صاحب سینیٹ کے چیئرمین رہے اور قائم مقام صدر بھی۔
خاتون سرکارؐ کی بارگاہ میں تھی۔ ان کے جمال اور عظمت سے کانپ اٹھی تو فرمایا: مجھ سے نہ ڈرو، میں ایک قریشی عورت کا فرزند ہوں، جو سوکھا گوشت کھایا کرتی۔ اللہ کی بارگاہ میں صرف دو سکّے ہی سچّے ہیں۔ خلوص اور انکسار۔ انہی سے ہم محروم ہیں تو فروغ کیسے پائیں؟ کاش، اے کاش!