تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-05-2016

تُوتُو،مَیں مَیں

وزیراعظم نے بڑے پتے کی بات کی۔ایسی بات جس نے پاکستانی انصاف کا پیمانہ طے کر دیا۔
لیکن ان کے چھوٹے بھائی یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں۔اگلے روز کہا کرپٹ شخص کا بیٹا ہم سے حساب مانگتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے ۔کون سا کرپٹ شخص؟جس کے خلاف قلعہ گجر سنگھ میں سائیکل چوری کے مقدمے میں پکڑے گئے ملزم سے کہانی شروع کر کے ڈرگ کیس بنایا گیا۔وہ کیس سے بری ہوا،صرف 8سال چلنے کے بعد یہ سارے سال بلاول کے ابا نے کسی سرور پیلس یا ایجوئیر روڈ پرنہیں گزارے۔بلکہ کوٹ لکھ پت، اڈیالہ اور سینٹرل جیل کراچی کی کھولی میں''شاہانہ‘‘ زندگی میں گزارے۔بلاول کا وہی ابا جس کے لیے ذاتی ملازم کو سینیٹر بنایا گیا۔پھر سیف سیل تشکیل ہوا۔200ملین ڈالر خرچ کر کے سوئٹزرلینڈ کے بینک اکاؤنٹس کا مقدمہ بنا۔مقدمہ چلتا رہا چلتا رہا اور تخت لاہور کا دوسرا ''بڑا ملزم‘‘ بری ہو گیا۔نواز شریف کے برادرِ خورد احتساب کا رَسہ ہاتھ میں پکڑے اقتدار کے کھمبے تلے8سال سے بیٹھے ہیں۔وہ قوم کو بتانا پسند کریں گے اتنا سب کچھ خرچ کر کے انہوں نے بلاول کے ابا کے خلاف کیا ثابت کر لیا؟
چند سال پہلے کی بات ہے ۔چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی تشریف لائے۔مجھے مونس الٰہی کے لیے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لیے وکیل مقرر کیا۔میں پیش ہوا فائل دیکھی،بلکہ کئی بار کھنگالی۔ مجھے فائل میں،مشہور ملزم بیٹے کے ہمراہی ''جج ابا جی‘‘کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔باقی جو بھی تھا وہ خالص میڈیا ٹرائل یا سٹریٹ جسٹس ۔شریف جمہوریت اور اس کا جوڈیشل سرپرست کیا ثابت کر سکے۔؟
شریف جمہوریت کی خواہش تو یہی ہے کاش! چھوٹو اس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے بھی کچھ ثابت نہ کرنے دیں۔زیرِ تفتیش چھوٹو بڑوں کے نام لینے سے پہلے ہی پنجاب پولیس کے عظیم الشان روایتی''پلس مقابلے‘‘میں مارا جائے۔جس میں بیڑی اور ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ملز م ہی ہمیشہ فائرنگ کرتا ہے۔پولیس معجزانہ طور پر بچ جاتی ہے اور ملزم پار ہو جاتا ہے۔اسی لیے ہر دہشت ناک واردات کے فوراً بعد بانس کٹ جاتا ہے۔اب بانسری کہاںسے بجے گی...؟
ابھی سپریم کورٹ سے باہر آیا ہوں۔کئی حضرات نے پوچھا اگر سپریم کورٹ نے خط پر کارروائی نہ کی تو حکومت کے پاس کون سا آپشن کھلا ہے۔عرض کیا 2آپشن۔پہلا آپشن وہی جس پرتقریباً پوری قوم کا اتفاق رائے ہو چکا۔وزیراعظم دل بڑا کریں قوم کو بحران سے نکالنے کے لیے کارروائی ہونے دیں۔اس دوران وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ ہو جائیں۔مشرف کابینہ اور مشرف تھنک ٹینک کی طرف سے نون لیگ کو جہیز میں ملنے والے مشیر چھوڑ کر کسی نہ کسی حوالے سے سارے لوگ بحران کا حل وزیراعظم کے کمرے میں تلاش کرتے ہیں۔مشرف کے ''اشرفیے‘‘ کہتے ہیں استعفیٰ کی پاکستانی مثال پیش کرو۔ایسا ہی سوال مجھ سے سپریم کورٹ میں پوچھا گیا،پوچھنے والا قائداعظم ثانی کا محسنِ اعظم سیاسی جج تھا۔میں نے قائدِ عوام کے عدالتی قتل کا مقدمہ کھلوانا چاہا تو کہا آپ وزیر ہیں آپ کیسے عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔عرض کیا صدرِ پاکستان کا اٹارنی ہوں،کہنے لگے کسی وزیر کے پیش ہونے کی عدالتی نظیر بتائیں۔کہا محترم شریف الدین پیرزادہ، ڈاکٹر شیرافگن خان نیازی،فیصل صالح حیات سمیت کئی اور نام گنوا دیئے۔عدل کی میز پر ایجنڈا رکھے ہوئے عادل کو دیکھ کر میں نے آپشن بی استعمال کیا۔پہلے سے لکھا ہوا استعفیٰ جیب سے نکالا اور سامنے رکھ دیا۔ایک مظلوم وزیراعظم کے عدالتی قتل کا مقدمہ کھلوانا پروفیشنل وکیل کے لیے وزارت سے بڑا اعزاز ہے۔ کاروباری انکار کے ماہر کی طرف سے دفاعی وزیر کو اسی جج نے اپنے رو برو پیش ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔بعد ازاں ان کے برادرِ نسبتی کو بحیثیت وزیر قانون پیش ہونے کی اجازت ملی۔بڑے لمبے عرصے سے نواز شریف اینڈ کمپنی اسی طرح کے انصاف کے عادی ہیں،جو ان کا سہولت کار بنے۔
بات ہو رہی تھی حکومت کے آپشن کی۔دوسرا آپشن وہی ہے جو بمبئی حملہ کیس ،پٹھان کوٹ ڈرامہ کیس،سوئٹزر لینڈ کیس،میمو گیٹ کیس،لندن میں ڈاکٹرعمران فاروق قتل کیس۔ان سب کی ایف آئی آر پاکستان میں کاٹی گئی۔ان مقدمات میںتفتیش بھی ہوئی جبکہ ملزموں کے خلاف کارروائی وہ بھی گرفتاری سمیت۔ضابطہ فوجداری کے پاکستانی قانون کے مطابق حکومت چوروں کی عالمی بارات کے خلاف پرچہ کاٹے۔تفتیش آزادانہ ایجنسی کے سپرد کی جائے۔ورنہ تو تو ،مَیں مَیں کا بازار گرمی کی لہر کی طرح مزید گرم ہو تا جائے گا۔اپوزیشن چھوٹی ہو یا بڑی اسے حکومت کی نا اہلی اور سرکاری کارندوں کی نالائقی ہمیشہ گلوکوز فراہم کرتی ہے۔حکومتِ پاکستان کے ترجمان نے جو زبان پی ٹی آئی کے جلسے سے پہلے استعما ل کی ایسی زبان کوئی ''نہایت شریف‘‘ ہی بول سکتا ہے۔سرکار نے ارشاد کیا پانامہ کی تفتیش نہیں اب تو ان لوگوں کا ڈی۔این۔اے ٹیسٹ ہو گا۔ڈی این اے ٹیسٹ دو صورتوں میں کیا جاتا ہے۔جب کسی کی ولدیت معلوم کرنا ہو۔یا کسی کے ،جانے دیجیے۔قلم میں اتنی ہمت نہیں کہ ہ وکالت نامہ کو اس قدر غلیظ بنا دے جس قدر غلاظت لائیو پریس کانفرنس کے ذریعے پھیلائی گئی۔دوسری جانب اس دن لاہور میں وزیراعظم نے کمال کر دکھایا۔سیلف سینسر شپ کے ذریعے سیاسی سہولت کاروں کے ایک اِن کیمرہ اجلاس میں اپوزیشن کو طعنہ دیا کہ ان کی زبان نامناسب ہے۔کسی وقت وہ اپنی دفاعی ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرف سے کیمرے پر کی گئی تقریروں میں انگلی،بازو ننگا کر کے کیے گئے اشارے اور ان کے ڈائیلاگ کی ویڈیو بھی دیکھ لیں۔
لیکن شاید اب یہ ویڈیو بھی پیچھے رہ گئی۔اور کوئٹہ میں وزیراعظم کا جلسہ آگے نکل گیا۔جہاں نواز شریف نے جلسوں کے بارے میں اپنے اعلیٰ ذوق کا برملا اظہار کیا۔نہ صرف اپنے ذوق کا بلکہ حاضرین اور ناظرین سے بھی توقع کی کہ ان کا ذوق بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔جو تقریر وزیراعظم کے من کو بھا گئی اس میں پاناما لیکس پر حکومتی مؤقف کے برعکس بولنے والوں کو''بھونکنے والے کتے‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔جمہوریت نے اپنی سیاسی تہذیب کی تسکین کے لیے پھر بنوں کی طرف رخ موڑا۔بنوں جلسے میں اسی سیاسی ذوق کے تین مظاہرے مزید ہوئے۔
پہلا ،نواز شریف سے اجازت طلب کی گئی اگر آپ اجازت دیں تو ہم بنی گالا کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ دوسرے، وزیراعظم ہاؤس کی کرسی کی حفاظت کے لیے آسمانی مدد اور کمک بھی طلب ہوئی۔تیسرے،وزیراعظم صاحب نے اپنے میزبان کے چہرے کی طرف اشارہ کر کے حاضرین سے کہا تم نے نیا پاکستان دیکھنا ہے تو یہ دیکھو۔اس اعلیٰ ذوق کے ابلاغ اور سیاسی تبلیغ کے بعد اگرچہ سوال اٹھانے کی گنجائش باقی نہیں بچی۔مگر تھوڑا سا ابہام ضرور پیدا ہوا۔ابہام یہ کہ وزیراعظم نے ''یہ دیکھو نیا پاکستان‘‘ کہہ کر دھرنے والوں پر طنز کی ہے یا اپنے اتحادیوں پر....؟تُو تُو، مَیں مَیں والی غریبوں کی زبانی خدمت کی عادی حکومت نے فوجداری الزامات کا جواب دینے کے لیے تو تو مَیں مَیں کی منڈی لگائی۔ایسی ہر منڈی کی آخری بولی یا تو یا مَیں پر ختم ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved