تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     06-05-2016

چین کو چلیے!

اسلام آباد کونسل فار ورلڈ افیئرز وہ تھنک ٹینک ہے جسے ہمارے مشہور سفارت کار آغا شاہی نے قائم کیا تھا۔ اس کا مخفف ICWAہے۔ سابق سفارت کار پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائی کے لوگ اس کے ممبر ہیں۔ آغا شاہی کے بعد ڈاکٹر مقبول بھٹی ICWAکے صدر بنے۔ بھٹی صاحب نے وفات پائی تو ایمبیسڈر خالد محمود نے ICWAکی قیادت سنبھالی۔ ان تینوں شخصیات میں ایک قدر مشترک ہے کہ سب چین میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں اور وہاں اپنی ذہانت محنت اور لگن سے تینوں نے چین میں اپنا مقام بنایا پاک چین دوستی کے رشتے کو مضبوط بنایا۔ICWAاب بھی ہمارے فارن آفس سے رابطے میں رہتا ہے اور چین میں پیپلز انسٹی ٹیوٹ آف فارن افیئرز CPIFAکے ساتھ مفاہمت ہے کہ دونوں تھنک ٹینک باری باری چین اور پاکستان کا دورہ کریں گے اور باہمی دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو ہو گی۔ یاد رہے کہ CPIFAکے بانی وزیر اعظم چواین لائی تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب دنیا کے کئی ممالک چین سے براہ راست گفت گو کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا CPIFAکو دنیا سے غیر رسمی ڈائیلاگ کے لیے بنایا گیا اور تجربہ کامیاب رہا۔
میں کئی سال سےICWAکا ممبر ہوں۔ میرے دیرینہ ہمدم اور سابق سفیر افضال اکبر خان سیکرٹری جنرل ہیں جو ہر سال نہ صرف چندہ وصول کرتے ہیں بلکہ گاہے ماہے فکری نشست کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں۔CPIFAوالے ہر دو سال کے بعد پاکستان آتے ہیں تو ان کے لیے پروگرام ترتیب دینا رہائش اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست اور اہم پاکستانی شخصیات سے ملاقات کرانا یہ سب افضال صاحب اور ایمبیسڈر خالد محمود باہمی مشاورت سے کرتے ہیں۔ 2013ء میں ICWAکا وفد چین گیا تھا تو میں اس میں شامل تھا۔ لیکن سچ پوچھیے تو دل بھرا نہ تھا ابھی شوق کی منزلیں باقی تھیں لہٰذا میں نے پھر سے جانے کا عندیہ دے دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس مرتبہ چین کا قدیم دارالحکومت شیان بھی پروگرام میں شامل تھا۔ شیان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ کہ وہاں ٹیرا کوٹاTerra Cottaسپاہیوں کا میوزیم خاصے کی چیز ہے مسجد اور شہر کی فصیل دیکھنے کے لائق ہیں۔شیان کا مفصل ذکر اگلے کالم میں آئے گا۔
عظیم قوموں کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان کی طبیعاتی اور فکری نشو و نما جاری رہتی ہے۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب 1949ء میں کامران ہوا اور تیس سال پورے شدومد سے چلا۔ کمیونسٹ دور نے چین کی زندگی میں فکری انقلاب پیدا کیا عوام میں سوچ بیدار کی کہ وہ خواص سے کسی طرح کم نہیں قوم کو ڈسپلن دیا۔ صبر کا عنصر پہلے ہی لوگوں کی فطرت کا حصہ تھا۔ اور یہ شاید بدھ مت کی وجہ سے تھا جو صدیوں تک چین کا اہم مذہب رہا۔ ڈسپلن کے علاوہ عام تعلیم کا تحفہ کمیونزم سے ملا۔ خواتین و حضرات شانہ بشانہ کام کرنے لگے۔ لوگوں کو مذہبی رسوم کا حق حاصل رہا لیکن ریاست مکمل طور پر سیکولر ہو گئی اور اس طرح مذہبی تفریق ختم ہو گئی۔ عظیم قومیں چونکہ جامد نہیں رہتیں لہٰذا1979ء میں ایک اور انقلاب آیا اور یہ انقلاب چین کے لیڈر ڈینگ Dengلے کر آئے۔ چین میں سرمایہ داری اقتصادی نظام آیا صدر ڈینگ کا ہی مشہور مقولہ ہے کہ بلی کالی ہو یا سفید یہ بات اہم نہیں اصل بات یہ ہے کہ بلی چوہے پکڑتی ہے یا نہیں۔ اس نئے نظام نے چین کی ترقی میں انقلاب برپا کر دیا۔سالانہ شرح نمو یعنیGrowth Ratioآٹھ نو فیصد رہنے لگا۔ 2015ء میں اقتصادی ترقی کی رفتار چھ اعشاریہ نو رہی اور چینی بھائی کچھ پریشان نظر آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1978ء میں چین کی فی کس آمدنی آج کے پاکستان کے برابر تھی اور 37سال میں چین کا نقشہ بدل گیا ہے مجھے2013ء اور 2016ء کے چین میں بھی واضح فرق نظر آیا۔ وسیع و عریض سڑکوں کا جال اور ہر ماڈل اور برانڈ کی کاریں ہی کاریں فلک بوس عمارتیں بھی دیکھیں لیکن میرے لیے قابل نوٹس بات یہ تھی کہ دو کروڑ نفوس کے شہر بیجنگ میں کہیں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر نظر نہیں آیا۔
بیجنگ روانگی سے قبل اسلام آباد میں چینی ناظم الامور نے شاندار عشائیہ دیا۔ وفد کے لیے CPECیعنی اقتصادی راہداری کے بارے میں مفصل بریفنگ دی گئی۔ چینی سفارت کاروں کو سی پیک کی ایک ایک تفصیل ازبر تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ گوادر سے لے کر خنجراب تک کون سے پراجیکٹ شروع ہو چکے ہیں۔ میں نے گوادر کے نئے بین الاقوامی ایئر پورٹ کے بارے میں استفسار کیا کہ یہ کب مکمل ہو گا۔ مجھے علم تھا کہ مسقط اور دلی میں مقیم بلوچ بھائی اس ایئر پورٹ کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ گوادر کا نیا انٹرنیشنل ایئر پورٹ تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔
روانگی سے قبل میں نے ایک چائنا ایکسپرٹ سے پوچھا کہ چین کے بارے کوئی ایسی بات بتائیں جس نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہو کہنے لگے چینی قوم Thinking Nationہے۔ ہزاروں سال پرانی تہذیب کی وارث ہے لوگ ہر وقت ترقی اور قومی خوش حالی کے منصوبے بناتے ہیں قوم بے حد محنتی ہے ڈسپلن اتنا زیادہ ہے کہ ہمارے تصور سے بھی باہر۔حکومت کہتی ہے کہ والدین صرف ایک بچہ پیدا کریں تو تمام لوگ بغیر چوں چراں کیے اس پالیسی پر عمل کرتے ہیں عوامی خوشحالی ہر جگہ عیاں ہے۔ نئی نسل کی صحت بہتر ہے قد کاٹھ اپنے والدین سے طویل تر ہے۔ 2015ء میں چینی لوگوں نے پچیس کروڑ کاریں خریدیں اس سے لوگوں کی زندگی میں آسانی ضرور آئی ہے مگر ٹریفک کے مسائل بھی بڑھے ہیں آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چین میں پچھلے دنوں ایک کار شو ہوا آٹھ انواع کی کاریں چین میں بن رہی ہیں اور اب بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بھی چین میں بنیں گی۔ ایک چھوٹی کار بنائی گئی ہے جس کی قیمت صرف آٹھ سو ڈالر ہو گی ۔
بین الاقوامی تعلقات میں بھی چین بڑے صبر اور تحمل سے دھیمے دھیمے چل رہا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ بڑھکیں لگانے سے فائدے کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ ہانگ کانگ کے بارے میں چین نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بالآخر ہانگ کانگ چین کا حصہ بن گیا لیکن ہانگ کانگ پر مین لینڈ والا سسٹم مسلط نہیں کیا گیا۔
آپ کسی چینی سفارت کار سے سوال کریں کہ چین سپر پاور کب بنے گا جواب ملے گا کہ ہم قوموں کی مساوات پر یقین رکھتے ہیں ہمارا سپر پاور بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔ چین کی معیشت اور ڈیفنس انڈسٹری دونوں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں چینی جانتے ہیں کہ جب ان کا ملک اقتصادی سپر پاور بن جائے گا تو ساری دنیا کی توجہ چین پر مرکوز ہو گی خواہ مخواہ ابھی سے نعرے لگانے کا کیا فائدہ۔
چین کی امریکہ کے ساتھ بحر جنوبی چین میں مسابقت بڑھ رہی ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بات جنگ تک جا سکتی ہے لیکن اکثریت کا تجزیہ یہ ہے کہ چینی عقل مند اور پر امن لوگ ہیں جنگ کی طرف بالکل نہیں جائیں گے۔ امریکہ کی پانچ سو بڑی بڑی کمپنیاں اس وقت چین میں موجود ہیں اور خوب منافع کما رہی ہیں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کھربوں میں ہے۔ امریکہ کا بجٹ خسارے کا شکار ہے اور چین کا مقروض ہے ۔اقتصادی حقائق اور تعاون دونوں ملکوں کوجنگ کی طرف جانے سے روکیں گے۔ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved