کراچی میں رینجرز اٹارنی نے دہشت گردی عدالت میں اگلے روز دوسری باربتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے تفتیشی ڈی ایس پی الطاف حسین ملزم کو بچانے کے لیے شہادتوں میں ردو بدل اور گڑ بڑ کر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سابق تفتیشی افسر نے غیر جانبدارانہ کردار ادا کیا تھا لیکن موجودہ افسر شہادتوں کو خراب کر رہے ہیں اور اس طرح اہم دستاویزات میں ردوبدل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 25رسیدوں میں ردوبدل کیا جا چکا ہے جبکہ 14رسیدوں کا تعلق لیاری گینگسٹرز‘ چار رسیدیں القاعدہ کے دہشت گردوں کے ہسپتال میں علاج اور دیگر سہولتیں مہیا کرنے اور 9رسیدیں متحدہ کے دہشت گردوں کے علاج معالجہ کے حوالے سے تھیں جو ڈاکٹر عاصم حسین کے ذاتی ہسپتال میں بہم پہنچایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سابق تفتیشی کے تبادلے کا کوئی معقول جواز نہ تھا جس کی جگہ الطاف حسین کو تعینات کیا گیا جبکہ موجودہ افسر کو عاصم حسین کی دختر ہی کی درخواست پر لگایا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ میں ان تبادلوں کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت نے بدنیتی کی بناء پر تفتیشی افسر کو تبدیل کیا ۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر ضیاء الدین ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر یوسف ستار نے بھی رینجرز کے اس دعوے کی تائید کی ہے کہ آصف علی زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کے ضیاء الدین ہسپتال میں دہشت گردوں کو طبی امداد بہم پہنچائی جاتی رہی ہے اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں وسیم اختر اور رئوف صدیقی اور پی پی رہنما قادر پٹیل کو بھی وہاں طبی امداد فراہم کی جاتی رہی جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی بھی عدالت میں موجود تھے مع مصطفی کمال کے ‘جو ضمانت پر ہیں۔
ان خدشات کا بار بار اور ہر جگہ اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ فوج اور رینجرز جتنا بھی زور لگا لیں اور مقدمات قائم کر لیں پیروی تو پولیس ہی نے کرنی ہے جو براہ راست صوبائی حکومت کے ماتحت ہے‘ اور ‘ پولیس نے ان مقدمات میں جو کچھ کرنا ہے اور کر رہی ہے‘ اس کی ایک جھلک مندرجہ بالا رپورٹ میں ظاہر ہو بھی چکی ہے۔ بیشک داد رسی کے لیے سندھ ہائی کورٹ بھی موجود ہے لیکن وہ بھی کسی حد تک ہی اس بدمعاشی پر اثر انداز ہو سکتی ہے؛ جبکہ رسیدوں کو بگاڑنے کا کارنامہ تو پہلے ہی سرانجام دیا چکا ہے ۔ ان خرابیوں کا واحد علاج یہ ہے کہ رینجرز وہاں پراسیکیوشن کا بھی خود اپنا نظام وضع اور قائم کریں اور ملزمان کو پولیس کے سپرد ہی نہ کیا کریں تاکہ ایسی بد حرکتیاں وقوع پذیر ہی نہ ہو سکیں۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپریشن پنجاب کے حوالے سے بھی دہشت گردوں یا ان کے سہولت کاروں کے خلاف جو مقدمات قائم کئے جائیں گے وہ بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوں گے ‘ اور رینجرز کی کا ساری کارروائی سراسر رائگاں چلی جائے گی۔ کیونکہ یہاں بھی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جو مدد میسر ہوئی ہے اور جس کے نتیجے میں اب صورت حال مزید واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی اپنی چشم پوشی ہی کا نتیجہ ہے‘ اور ان عناصر نے کئی اضلاع میں جو اپنے مستقل ٹھکانے قائم کر لیے ہیں اور جس کے لیے رینجرز کو کئی گنا زیادہ سردردی اٹھانا پڑ رہی ہے‘ حکومت کے اسی رویے کا شاخسانہ ہے جو اس وقت سے چلا آ رہا ہے جب حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پینگیں بڑھا کر انہیں دوبارہ متحد ہونے کا موقع دے رہی تھی اور جس سے تنگ آ کر فوج کو خود ہی آپریشن ضرب عضب شروع کرنا پڑا؛ حتیٰ کہ بعد میں صوبائی حکومت طے شدہ معاہدے کے
برعکس نہ تو اپنے حصے کے کام کی الف بے ہی شروع کر سکی اور نہ ہی متعلقہ فنڈ میں ایک دھیلہ بھی فراہم کر سکی۔الٹا اندر خانے فوج اور رینجرز کی مساعی کے سراسر خلاف اور برعکس کام کر رہی تھی۔ ان حالات میں رینجرز اور دیگر اداروں کو پنجاب آپریشن کا تکلف روا رکھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ جو کچھ ان اداروں نے جانوں کی قربانی دے کر بنانا ہے اگر حکومت نے اسے ڈھائے چلا جانا ہے تو فوج کو چاہیے کہ یا تو پراسیکیوشن کی اس علت کا کوئی شافی علاج دریافت کرے یا اس کارِفضول سے باز اور ممنوع رہے اور حکومت کی طرف سے فوج کے ساتھ ایک پیج پرہونے کے کھوکھلے دعوئوں کی اصلیت کو سمجھے کیونکہ عرض کردہ صورت حال کے پیش نظر فوج اور حکومت ایک دوسرے کے مقابل صف آرا نظر آتی ہیں‘ مجھے ہی نہیں‘ ساری دنیا کو دکھائی دے رہی ہیں‘ اور کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتاری کے بعد پولیس اور حکومت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیا جائے۔
اپوزیشن اور عوام کو نیب سے بھی کچھ زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ اس کے بعض افسروں نے کئی جگہ پر خود تسلیم کیا ہے کہ حکومتی دبائو کی وجہ سے وہ کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور سارے میگا سکینڈلز اور بڑے آدمیوں کے خلاف انکوائریوں کی فائلیں کھول کر ایک بار پھر بند کر دی گئی ہیں اور اس ڈانٹ ڈپٹ کا بھی اعتراف کیا گیا ہے جو سپریم کورٹ کو بڑے مگرمچھوں کے خلاف انکوائریوں کی تفصیلات بتانے پر انہیں کھانی پڑی ہے پیپلز پارٹی والوں کا یہ کہنا اپنی جگہ پر درست ہو گا کہ راجن پور کے بعد لاہور میں بھی چھوٹو گینگ پکڑا جائے گا‘ لیکن پھر وہی بات کہ اگر ان کے خلاف مقدمات قائم ہو بھی گئے تو پراسیکیوشن تو پولیس ہی نے کرنی ہے‘ یعنی وہی رام دیال اور وہی چاروں گدھڑے!
ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت نے اپنے خلاف کرپشن ‘ قرضے معافی اور منی لانڈرنگ کے متعدد مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں سے جو سٹے حاصل کر رکھے ہیں اور انہی کی وجہ سے اپنا اُلّو سیدھا کئے ہوئے ہے‘ آخر ان کا فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا کیونکہ اب تو عدالت کی طرف سے جاری کئے جانے والے حکم ہائے امتناعی کے بارے میں کھل کر کہا جانے لگا ہے کہ سزا سے بچنے کا یہ بھی ایک آزمودہ نسخہ ہے اور اگر متعلقہ معزز عدالتیں اس بہت بڑے مسئلے پر توجہ دے کر ترجیحی بنیادوں پر ان مقدمات کا فیصلہ کر دیں تو یہ بھی ایک انقلاب آفریں کارروائی ہو گی کیونکہ ان حکم ہائے امتناعی کے طویل عرصے تک جاری رہنے سے خود عدلیہ کی نیک نامی پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں!
آج کا مقطع
جزیرئہ جہلاء میں گھرا ہوا ہوں‘ ظفر
نکل کے جائوں کہاں‘ چار سُو سمندر ہے