اگر مزاج میں بے ایمانی رچ بس گئی ہو تو انسان ایمان داری کے راستے پر چل ہی نہیں پاتا۔ دل و دماغ رات دن جس چیز کے پھیر میں ہوں وہی چیز ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ان کی بھی ہوتی ہے جو ایمان داری کو اپنے وجود کا حصہ بنالیتے ہیں۔ ایمان داری اور راستی کی راہ پر چلتے رہنے سے ان کے دماغ کا وہ حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جو بے ایمانی سکھاتا ہے۔ اس وقت مغربی دنیا کے بہت سے، بلکہ بیشتر افراد اِسی ''الجھن‘‘ سے دوچار ہیں۔ سیدھی راہ پر چلتے رہنے سے ان میں ٹیڑھی راہ پر چلنے کی صلاحیت دم توڑ چکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بہت آسان سا کام بھی خاصا گھما پھراکر کیا جاتا ہے۔ ہر چیز ''تھرو پراپر چینل‘‘ ہو تو زندگی یونہی پیچیدہ ہو جایا کرتی ہے۔ ہمیں تو حیرت ہے کہ یہ لوگ زندہ کس طرح ہیں!
ویسے تو خیر اب زندگی کے ہر معاملے کو طرح طرح کے کیڑے مکوڑے چٹ کر جانے کے فراق میں رہتے ہیں مگر توجہ صرف فصلوں پر ہے۔ دنیا بھر میں فصلوں کو کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم سے بچانے کے لیے ادویہ کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ یہ ادویہ اب خاصی مہنگی ہوگئی ہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ چھڑکاؤ کرنا ہی پڑتا ہے۔ نہ کیا جائے تو فصل خراب ہوجاتی ہے یا پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ داد دیجیے بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع سیکر کے کسانوں کو جنہوں نے کیڑوں مکوڑوں سے نجات کا ایسا طریقہ دریافت (بلکہ ایجاد!) کیا ہے کہ کیڑوں مکوڑوں کے ساتھ ساتھ کیڑے مار ادویہ سے بھی جان چھوٹ گئی ہے! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیڑے مار ادویہ مہنگی ہوتی گئی ہیں جس کے باعث کسانوں یا زمینداروں کے لیے منافع کی شرح گھٹ گئی ہے۔ راجستھان کے کسانوں نے منافع کی شرح کو گرنے سے روکنے کا ایسا طریقہ متعارف کرایا ہے کہ آپ پڑھیں گے تو مست ہوکر جھومنے لگیں گے۔ جی ہاں، ہم مستی میں ڈوبنے اور جھومنے کی گارنٹی دے رہے ہیں! راجستھان کے اس ضلع میں ساڑھے تین ہزار ہیکٹرز سے زائد رقبے پر سبزیوں کی فصل کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے دیسی یعنی کچّی شراب کا چھڑکاؤ کیا جارہا ہے! کیوں، یہ خبر پڑھ کر آپ بھی جھومنے لگے نا؟ کسانوں کا کہنا ہے کہ کیڑے مار دوا کی ایک بوتل ساڑھے تین سو روپے میں آتی ہے جس میں پانی ملاکر چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ جتنے رقبے پر سبزیوں کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے ساڑھے تین سو روپے کی کیڑے مار دوا چھڑکنی پڑتی ہے اتنے رقبے کے لیے صرف پچھتر روپے کی دیسی شراب کافی ہے!
ایک راجستھان پر کیا موقوف ہے، کسی بھی معاملے میں ''جگاڑ‘‘ تلاش کرنے کے حوالے سے ہمارے تو پورے خطے کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ اگر کوئی ہم سا ہے تو سامنے آئے۔ ایک تیر سے دو نشانے لگانے کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ یہ باقی دنیا کا چلن ہے۔ ہم ایک قدم، یا ایک نشانہ آگے ہیں۔ یہاں ایک تیر میں تین تین نشانے لگائے جارہے ہیں۔ اب یہ شراب کے چھڑکاؤ والا معاملہ ہی لیجیے۔ ایک تو یہ کہ کچّی شراب کی تلخی کیڑوں مکوڑوں کو فصلوں سے دور رکھتی ہے۔ جب اچھے خاصے ہٹے کٹے کیڑے مکوڑے پاس نہیں پھٹکتے تو پھر ذرا سے وائرس کی کیا مجال کہ سامنے آئے اور فصل کے منہ لگے! دوسرے یہ کہ دیسی شراب میں بھیگنے سے فصل تیزی سے پکتی ہے۔ اس میں بھی حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ دیسی شراب پینے سے جب لوگ پک جاتے ہیں اور پرلوک سِدھار جاتے ہیں تو پھر سبزی کی فصل کیا بیچتی ہے کہ تیزی سے پکنے سے انکار کرے! اور اب آئیے تیسرے نشانے کی طرف۔ کیا پاکستان اور کیا بھارت، اب لوگوں میں زیادہ جھجھک رہی نہیں۔ جسے جو کرنا ہوتا ہے کر گزرتا ہے، کسی کی پروا نہیں کرتا۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو اب تک ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے کے زمانے میں جی رہے ہیں اور بات بات پر تہذیب و اقدار کا رونا روتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر دنیا والوں کے خوف سے کر نہیں پاتے۔ اب مے نوشی ہی کو لیجیے۔ بہت سے لوگ پینا چاہتے ہیں مگر پینے کے بعد انہیں جس سلوک کا سامنا کرنے کا خدشہ ہے اُس کے خوف سے پی نہیں پاتے۔ ایسے تمام لوگوں کے لیے دیسی شراب کے چھڑکاؤ والی سبزیاں لاٹری کی طرح ہیں! شراب کے چھڑکاؤ والی سبزیاں ٹُن ہونے کی خواہش رکھنے مگر ایسا کرنے سے ڈرنے والوں کے لیے ''مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟َ‘‘ کی بہترین مثال ہیں!
راجستھان کے کسانوں نے ''تھری اِن ون‘‘ پیکیج متعارف کراکے کھیتی باڑی کی دنیا میں ''انقلاب‘‘ برپا کردیا ہے۔ اب اگر کوئی چاہتا ہے کہ شام کے گہرے ہوتے ہوئے سائے میں کچھ پی کر اپنا دل بہلائے تو ہاتھ میں بوتل تھامنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ گھر والی سے کہے کہ تھوڑی سبزی پکادے۔ سرسوں کا ساگ ہو یا بھنڈی، جی بھر کے کھائیے اور مست ہوکر ایک طرف لڑھک جائیے! پیٹ بھرے کی مستی اِسے نہیں تو پھر کسے کہتے ہیں؟ ہمیں حیرت ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین کھیتوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے رات دن تحقیق کرتے رہتے ہیں مگر اُنہیں ایسا آسان نسخہ نہیں سُوجھا! خیر، اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ راجستھان کے کسانوں نے فصلوں کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کا جو طریقہ متعارف کرایا ہے اُسے دیکھ کر صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دنیا بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ آج کی دنیا میں فوڈ سکیورٹی ایک اہم اِشو ہے۔ راجستھانی کسانوں کی مہربانی سے اب یہ اِشو اپنی موت آپ مرتا دکھائی دے رہا ہے! ماہرین کو اب رات دن تحقیق کی اوکھلی میں سَر دینے یعنی سَر پھوڑنے کی ضرورت نہیں۔
آپ سوچیں گے یہ کیا بات ہوئی کہ سبزی کی فصلوں پر شراب کا چھڑکاؤ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ خدشہ محسوس ہوتا ہو کہ ایسا کرنے سے انسانی صحت کو خطرات لاحق ہوں گے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کچّی شراب پینے سے انسان کا کیا حال ہوتا ہے؟ لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بھٹّی سے کچّی شراب ادھار لے جانے والے ہمیشہ کے لیے ٹُن ہو جاتے ہیں اور یُوں بھٹّی والے کے پیسے ڈوب جاتے ہیں۔ کچّی شراب جان لیوا ہوتی ہے۔ اِس سے جان چھڑانے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے کہ براہِ راست پینے کے بجائے فصلوں پر چھڑکاؤ کیا جائے۔ ایسی صورت میں کچّی شراب ٹھکانے لگ جائے گی اور فصلیں بھی محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے تیار ہوسکیں گی۔ اب اگر لوکی، ٹنڈے، بھنڈی یا گوار پھلی کھاکر کوئی تھوڑا سا ٹُن ہوجائے تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے۔ ہر چیز کے سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں۔ کیڑے مار ادویہ کے بھی تو سائڈ ایفیکیٹس ہوتے ہی ہیں۔ اور شاید آپ کو یاد ہو کہ محبت اور شادی کے بھی سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں اور اس موضوع پر تو بالی وڈ میں فلم بھی بن چکی ہے!
ساتھ ہی ساتھ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کیڑے مار ادویہ کے چھڑکاؤ والی سبزیاں کھانے سے کوئی آج تک مستی میں جُھومتا ہوا نہیں پایا گیا۔ ایسے میں کچّی شراب کے چھڑکاؤ والی سبزی کو غنیمت جانیے کہ اُسے کھاکر پیٹ کے ساتھ ساتھ دماغ کی آگ بھی بجھائی جاسکے گی یعنی ایک پلیٹ سبزی کھائیے اور مست ہوکر دو تین گھنٹے کے لیے غم کی اس دنیا سے کہیں دور چلے جائیے!
راجستھان کے کسانوں پر تاؤ نہ کھائیے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے، پیٹ بھرے کی مستی کا اہتمام کرنے کا ایسا آسان اور سستا نسخہ کہاں ملے گا!