پاکستان میں احتساب ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق نظام حکومت کی اصلاح یا کرپشن کے مرتکب افراد کو سزائیں دینے سے نہیں‘ بلکہ کچھ لوگوں یا طبقوںکے سیاسی مفادات سے ہے۔ انیس سو اٹھاون سے لے کر آج تک احتساب کا نعرہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومتوں کی بساط لپیٹنے کے لیے استعمال ہوا ہے‘ یا آمریت کو طول دینے کے لیے۔ جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں کا احتساب تو بڑی چوکسی سے کیا‘ لیکن اپنے سمدھی اور صاحبزادے کے کاروباری معاملات پر انہوں نے سکوت ہی فرمائے رکھا۔ ان کے جانشین جنرل یحیٰ سے پہلے چونکہ کوئی سیاسی حکومت تو تھی نہیں‘ اس لیے احتساب کی چُھری تلے رکھنے کے لیے انہیں سیاستدان مہیا نہ ہو سکے، اور غالباً اسی سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کا دورِ آمریت مختصر رہا۔ جنرل ضیاء الحق کو اقتدار کے تیسرے مہینے اندازہ ہوا کہ احتساب ہی واحد راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے ان کے اقتدار کی زندگی طویل ہو سکتی ہے‘ لہٰذا وہ بخوشی اس راستے پر گیارہ سال تک مسلسل چلتے رہے‘ اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ جنرل پرویز مشرف نے احتساب کو وہ معنی دیے جو آج رائج ہیں، یعنی صرف مخالفین کو احتسابی ٹکٹکی پر کسنا۔ اس دور میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ایک سانس کا حساب دیتے رہے‘ اور جنرل مشرف کی قیادت پر ایمان لانے والے حکومتی دستر خوان پر نو سال تک ڈیرے ڈالے بیٹھے رہے۔ احتساب کی قلعی عوامی طور پر تو ایوب خان کے دور سے ہی کھل چکی تھی لیکن جنرل پرویز مشرف نے این آر او جاری کرکے باقاعدہ اعتراف کر لیا کہ پاکستان میں احتساب کوئی بامعنی لفظ نہیں‘ بلکہ ایک حربہ ہے جس کے استعمال سے حکمران سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ جہاں تک کرپشن، احتساب اور عوامی شعور کا تعلق ہے تو عوام نے ان دونوں معاملات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر سرے محل، ایس جی ایس کوٹیکنا اور آگسٹا آبدوز کی خریداری میں گھپلوں کے سنگین الزامات لگتے رہے‘ لیکن عوام انہیں اپنی وزیر اعظم بھی منتخب کرتے رہے۔ نواز شریف صاحب پر منی لانڈرنگ سے لے کر ریلوے انجنوں کو اتفاق فائونڈری کی بھٹیوں میں ڈال دینے تک کے الزامات لگے، مگر وہ آج تیسری مرتبہ وزیر اعظم ہیں۔
یہ پاکستانیوں کی کمزوری ہے کہ ہمارے پاس سوائے عوام کے کوئی ایسا ادارہ نہیں رہا‘ جس کے کیے ہوئے احتساب پر ہم سب کو یقین آ جائے۔ اگر فوج اس معاملے میں ملوث ہوتی ہے‘ تو یہ معاملہ جمہوریت اور آمریت کی شکل اختیار کر جاتا ہے، اپوزیشن حکومت کے احتساب پر زور دیتی ہے تو بات عمران خان کے شوقِ اقتدار تک جا پہنچتی ہے‘ اور یہ کام عدلیہ کے ذمے ڈالا جاتا ہے تو وہ بھی اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے گریز کی راہ پر گامزن دکھائی دیتی ہے۔کسی کو اچھا لگے یا برا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم فی الحال کسی سیاستدان کو اس سے سے زیادہ سزا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہمارا سیاسی کلچر ایسا بن چکا ہے کہ جیسے ہی کسی سیاستدان پر بدعنوانی کا الزام لگتا ہے، اس کی جماعت اسے سیاسی ایشو بنا کر شور مچانا شروع کر دیتی ہے‘ اور انجامِ کار ملزم وکٹری کا نشان بناتا ہوا جیل سے باہر آ جاتا ہے اور کچھ صورتوں میں وزارتِ عظمیٰ یا صدارت تک جا پہنچتا ہے۔ آ جا کے ایک انتخابی عمل ہے‘ جو شفاف احتساب تو کرتا ہے لیکن اس کے نتائج کی بنیاد پر کسی کو جیل نہیں بھیجا جا سکتا۔
کسی باقاعدہ ادارے کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی پاناما کاغذات میں وزیر اعظم کے صاحبزادوں کے نام آنے کا معاملہ قانونی سے زیادہ سیاسی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ معاملہ سیاسی نہ ہوتا تو اس کی تفتیش سیدھے سبھاؤ ملک میں موجود ادارے نیب، ایف آئی اے، سنٹرل بورڈ آف ریونیو یا سٹیٹ بینک کر سکتے تھے‘ لیکن حکومت اور اپوزیشن نے اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہیں کسی بھی وجہ سے ان اداروں پر اعتماد نہیں‘ اور سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جس کا فیصلہ اس معاملے میں مانا جائے گا۔ اپنے اداروں پر اس عدم اعتماد کے اظہار کا آغاز حکومت نے کیا‘ جب وزیر اعظم نے پانامہ دستاویزات سے آشکار ہونے والے معاملات کی تفتیش کے لیے ازخود سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان کیا، اپوزیشن اس معاملے میں ایک قدم آگے بڑھی اور اس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کا مطالبہ داغا، حکومت نے یہ مطالبہ مانا تو کمیشن کے احاطہء کار (ٹرم آف ریفرنس) پر بے معنی قسم کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ وزیر اعظم نے خود کو مع اہل و عیال احتساب کے لیے پیش کر دیا‘ تو اپوزیشن عدالتی کمیشن کے لیے ایسے ٹرم آف ریفرنس لے آئی جن کا مطلب کچھ یوں ہے کہ عدالتی کمیشن وزیر اعظم کو پہلی فرصت میں مجرم قرار دے کر اقتدار اپوزیشن کے حوالے کرکے گھر چلا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن کا رویہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان میں سے کسی کا مقصد بھی پاناما دستاویزات میں آنے والے معاملات کی تفتیش نہیں‘ بلکہ اپنے اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو احتساب کی سولی پر لٹکانا ہے۔
اس معاملے کے سارے فریق اچھی طرح جانتے ہیں کہ دستاویزاتِ پاناما سے کوئی سیاسی انقلاب برآمد نہیں ہو سکتا، اس لیے حکومت نے اس موقع کو تحریک انصاف کی صفوں میں شامل قرضے معاف کرانے والوں کو رگڑنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے‘ تو تحریک انصاف ''سب سے پہلے وزیر اعظم‘‘ کا نعرہ لگا کر خود کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ رہ گئی پیپلز پارٹی تو وہ کسی بھی شفاف تفتیش میں نہیں الجھنا چاہتی‘ کیونکہ اس کی صفوں میں آف شور کمپنیوں والے بھی ہیں اور قرضے معاف کروانے والے بھی، اس لیے اس کا مفاد اس معاملے کو لٹکا کر حکومت پر خاک اڑاتے رہنے میں ہے۔ سیاستدانوں کے اس طرزِ عمل سے اگر کسی کے ذہن میں صاف شفاف احتساب کی مثال قائم ہونے کی کوئی امید ہے تو صاحبِ امید کے ساتھ سوائے اظہار ہمدردی کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
پاناما دستاویزات جہاں نواز شریف حکومت کے لیے ایک چیلنج ہیں‘ وہیں ایک موقع بھی ہیں۔ وزیر اعظم نے خود کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرکے اپوزیشن کی میز تو الٹ ڈالی ہے، لیکن ان کا خلوص عمل کی کسوٹی پر تبھی کھرا اترے گا‘ جب وہ کرپشن کی روک تھام کا مستقل بنیادوں پر کوئی بندوبست کریں گے۔ مثال کے طور پر ان کے صاحبزادے حسین نواز ملک سے ایک سو اسی دن باہر رہنے کی بنیاد پر اپنے اثاثوں کو چھپائے رکھنے کی قانونی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یقینا حسین نواز اس رخصت کا فائدہ اٹھا کر کوئی ناجائز کام نہیں کرتے ہوں گے لیکن اس کی آڑ میں قومی خزانے کو لوٹنے والے کئی عفریت بھی چھپے ہیں، جنہیں بے نقاب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ بجٹ میں ہر پاکستانی شہری کو پابند کر دیا جائے کہ اگر اس کے نام ملک کے اندر یا باہر کوئی زمین، مکان، یا گاڑی ہے تو وہ ہر سال اپنے اثاثوں کی فہرست سی بی آر میں جمع کرائے گا۔ اگر نواز شریف حکومت یہ کام کر جاتی ہے تو پاناما دستاویزات سے اس کی اخلاقی ساکھ کو جو دھچکا پہنچا ہے‘ اس کا ازالہ ہو جائے گا، اور اپوزیشن کے غبارے سے ہوا بھی نکل جائے گی، کیونکہ اس طرح حسین نواز، حسن نواز کی طرح اسحٰق ڈار کے باصلاحیت صاحبزادے اور جہانگیر ترین کے بیٹے بھی پاکستانیوں کو ہر سال اپنے اپنے اثاثوں کے بارے میں اعتماد میں لے رہے ہوں گے۔ ان کی جمع کرائی ہوئی فہرستیں ہی مستقبل میں بامعنی احتساب کا حوالہ بنیں گی‘ اور یہیں سے حکمرانوں اور عوام کا اپنے اداروں اور لیڈروں پر اعتماد بحال ہو گا۔ یہی ایک قدم اصلِ احتساب ہے باقی سب سیاست ہے۔