پاناما لیکس کے سبب ''فریب ناتمام‘‘ کو درمیان چھوڑنا پڑا۔ جمعہ خان صوفی لکھتے ہیں:
''8 فروری 1975ء کی شام کو دنیا بھر کے ریڈیو سٹیشنز سے یہ خبر نشر ہوئی کہ پشاور یونیورسٹی کے ہسٹری ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں بم دھماکہ ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور صوبہ سرحد کے سینئر وزیر اور وزیر داخلہ حیات محمد خان شیر پائو جاں بحق ہو گئے۔ یہ ایک اہم واقعہ تھا اور جب یہ خبر نشر ہوئی تو صدر سردار دائود نے فوری طور پر اجمل خٹک سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ یہ کام آپ لوگوں نے کیا ہے؟ اجمل خٹک نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بالکل مکر گئے۔ مگر یہ ایک بڑا اور اہم واقعہ تھا اور شیر پائو کی موت کا یہ سانحہ نیپ جیسی سیکولر اور ترقی پسند پارٹی پر افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات اور پشتون و بلوچ اتحاد پر انتہائی اثر انداز ہوا‘‘۔
''اجمل خٹک کے انکار اور مکرنے کے باوجود اس واقعے کے دوسرے ہی دن اس تخریبی کارروائی کے دونوں کردار (جنہیں میں غمازان کہتا تھا) بلا خان (حبیب اللہ خان) اور اس کے بھائی معزاللہ خان کے ساتھ افغانستان چلے آئے۔ اس سارے واقعے اور سانحے کی روداد یہ ہے کہ منصوبہ بندی کے مطابق انور اور امجد نے ایک ٹیپ ریکارڈر میں بم نصب کر لیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ سات فروری کو ٹیکنیکل کالج پشاور میں طلباء کی ایک تقریب میں‘ جس میں حیات محمد خان شیر پائو شرکت کر رہے تھے‘ بم دھماکہ کرنا تھا۔ لیکن اس دن ہوا یہ کہ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر افراسیاب خٹک بھی سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے؛ چنانچہ منصوبے پر عمل نہ ہو سکا۔ دوسرے دن شیر پائو صاحب ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کی نو منتخب سٹوڈنٹس یونین کی تقریب حلف برداری میں مدعو تھے۔ انور اور امجد نے اپنا ٹیپ ریکارڈر روسٹرم پر مائیک کے ساتھ بظاہر اس غرض سے رکھ لیا تھا کہ شیر پائو کی تقریر ریکارڈ ہو۔ جب شیر پائو تقریر اور سوالات و جوابات کے لیے روسٹرم پر آئے تو ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ حیات محمد خان شیر پائو دھماکے کی نذر ہو گئے اور کئی دیگر افراد شدید زخمی ہوئے اور مرے بھی‘‘۔
''شیر پائو کی شہادت کے فوری بعد نیپ پر پابندی لگا دی گئی اور اس پابندی کو سپریم کورٹ نے جائز قرار دیا۔ نیپ کے لیڈر جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ ان پر حیدر آباد ٹریبیونل میں غداری کا مقدمہ بنایا گیا۔ تمام منصوبہ بندی گویا شکست و ریخت کا شکار ہوئی۔ گھٹن بڑھ گئی۔ استبداد کی زیادتی کے ساتھ ساتھ ہمارے جوانوں کی کارروائیاں ماند پڑنے لگیں جبکہ اس کے برعکس افغانستان میں پاکستان کے تربیت یافتہ اخوان اور تخریبی عناصر کی کارروائیاں زور پکڑنے لگیں‘ نتیجتاً افغانستان سخت داخلی اور خارجی دبائو میں آ گیا‘‘۔
''کونڑ ‘مہمند‘ شنواری‘ خروٹی‘ خوگیانی‘ منگل اور اچکزئی قبائل کے بعض اہم خاندان پاکستان چلے گئے۔ توازن بہت تیزی سے بدل چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اجمل خٹک نے ہندوستانی تعاون سے اردو زبان میں ‘‘قومی جمہوری انقلاب‘‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا۔ میں نے یہ پمفلٹ انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کے ساتھ پختون زلمے کی کارروائیوں کی تاریخ وار لسٹ بھی منسلک کی اور اس پر ایک مختصر سا دیباچہ لکھ کر اسے'گولی کا جواب گولی‘ یعنی''Bullet for Bullet‘‘کا عنوان رکھا گیا۔ یہ عنوان بشیر مٹہ نے پسند کیا تھا۔ یہ کتاب ہم نے انگلینڈ میں موجود ڈاکٹر خورشید عالم کے حوالے کر دی کہ وہاں سے شائع ہو۔ ابھی یہ کتاب شائع ہونے ہی والی تھی کہ حیات محمد خان شیر پائو کی شہادت کی خبر آ گئی۔ ڈاکٹر خورشید عالم نے فوری طور پر اس واقعہ کو بھی پختون زلمے کی کارروائیوں کی لسٹ میں شامل کر کے اس کتاب کو شائع کیا۔ یہ کتاب ہمیں ہندوستانی دوستوں کے توسط سے ملنے سے پہلے ڈاکٹر خورشید عالم کے ذریعے سینکڑوں کی تعدادمیں تقسیم ہو چکی تھی۔ سو یہ پمفلٹ حکومت پاکستان کے ہاتھ بھی لگا۔ یہ ایک مضبوط ثبوت تھا‘ جسے سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے پیش کیا گیا۔ خود بھٹو صاحب نے اس پمفلٹ کو عوامی جلسوں میں لہرا کر پیش کیا۔ اجمل خٹک اور میرے نام سامنے آ گئے اور ایک لحاظ سے یہ کتاب نیپ کے خلاف سرکاری گواہ بن گئی‘‘۔
''جب یہ کتاب ہم تک پہنچی تو اجمل خٹک نے مجھ سے کہا کہ تمام کاپیوں سے پختون زلمے کی کارروائیوں کی فہرست والے صفحے سے شیر پائو کے قتل کا ذکر قینچی سے کاٹ ڈالوں۔ اجمل خٹک نے فوری طور پر ایک کہانی گھڑ لی اور پھیلائی کہ اگرچہ اصل کتاب تو انہوں نے لکھی ہے لیکن فیڈرل سکیورٹی فورس (F.S.F) اور خصوصاً سعید احمد خان کو اس کی خبر ہو گئی تو انہوں نے سازش کے طور پر پریس میں پختون زلمے کی کارروائیوں کی فہرست میں شیر پائو قتل کے واقعہ کا اضافہ کیا اور ہمارے سر تھوپ دیا۔ یہ بھی کہا، حیات محمد خان شیر پائو کا قتل تو ایف ایس ایف نے کیا ہے۔ یہ ایک کمزور اور بے تکی کہانی تھی جسے کوئی دیوانہ ہی مان سکتا تھا‘‘۔
''حیات محمد خان شیر پائو کی موت سے پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں اجمل خٹک نے 17فروری1975ء کو مختلف اہم لوگوں سے رابطے کئے اور خطوط لکھے۔ اس دن اجمل خٹک نے بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن کو خط لکھا ، سوویت یونین کے سفیر‘ افغانستان کی وزارت خارجہ گئے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی اس نئی صورت حال سے اپنے آپ کو باخبر رکھیں‘ شام کو اجمل خٹک مصری سفیر متعینہ کابل سے ان کی درخواست پر ان سے ملنے ان کے گھر گئے۔ پختون زلمے کی کارروائیوں اور ان کارروائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے واقعات کو اجمل خٹک ہی رقم کرتے رہتے‘ ان اہم معلومات سے ہدایت اللہ اور عالم زیب اچھی طرح آشنا ہیں‘ میں تو فقط وہی واقعات و معلومات تحریر کر رہا ہوں‘ جن سے میں باخبر ہوں یا جو مجھ تک محدود تھیں۔ بیگم نسیم ولی خان کی ایک دو بار خفیہ طور پر کابل یاترا کرنے سے میں واقف ہوں‘ لیکن ان کی کابل میں ملاقاتوں سے میں بے خبر رہا، نہ اس زمانے میں کوئی جانکاری تھی اور نہ آج‘‘۔
''نیپ کا ہندوستان سے تعلق فطری تھا۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور نیپ ایک سیکولر جمہوری پارٹی۔ نیپ ایک غیر جانبدار اور غیر منسلک خارجی سیاست کی حامی تھی اور ہندوستان تسلیم شدہ غیر جانبدار ملک تھا اور ہے۔ نیپ امریکہ اور مغرب کے ساتھ تمام معاہدوں کے خلاف تھی اور ہندوستان بھی آزاد اور خود مختار سیاست پر کاربند تھا۔ تو ہم جو ہندوستان کے دوست تھے‘ اپنے مشترکہ دشمن پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور مشترکہ دوست افغانستان میں بیٹھے سرگرم تھے۔ اس لیے افغانستان کے بعد سب سے پہلے مدد کے لیے اپنا ہاتھ بغیر چھپائے ہندوستان کی طرف بڑھایا تھا اور ہندوستان نے بھی ہمیشہ کی طرح اپنے بازو ہمیں سمیٹنے کے لیے پھیلائے تھے‘‘۔
''بڑے پیمانے کا لین دین اور مالی آمدو رفت اجمل خٹک کے ذریعے ہوتی تھی اور میں نے اس کی ٹوہ لینے کی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ 'چیزے را کہ عیان است چہ حاجت بہ بیان است‘ (جو چیز صاف ظاہر ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے) البتہ ہمارے گھر کے خرچ کے لیے تیرہ ہزار افغانی کی ماہانہ مددکی جاتی۔ ٹائپ‘ سائیکلو سٹائل‘ طباعت اور ڈاک کی مد میں بھی مدد کی جاتی تھی۔ ہمارے ساتھ سیاسی تبادلہ خیال کیا جاتا اور سوال جواب کے سلسلے میں مددکرتے۔ اس وقت بھارتی جاسوسی تنظیم'را‘ (Research and Analysis Wing -Raw) کے نام سے تو کوئی واقف نہ تھا۔ لیکن ان مخصوص نمائندوں سے جو ہندوستان کے سفارتخانے میں بطور سفارتی اہلکار کام کیا کرتے تھے‘ ہمارا رابطہ رہتا‘‘۔
''پہلے سفارت کار کا نام ایس ایل بھگا تھا، جب اس کا تبادلہ ٹرینیڈاڈ ہو گیا تو اس کی جگہ ملہوترا آیا جو مشہور صحافی اندر ملہوترا کا بھائی تھا۔ اس کے بعد ایک اور آیا تھا جس کا نام میں بھول رہا ہوں۔ پھر ثور انقلاب اور روسیوں کی آمد کے بعد یہ سلسلہ بکھر گیا۔ اگرچہ میرے ساتھ ہندوستانیوں کے تعلقات آخر دم تک رہے‘ لیکن ہمیشہ سفیر کی حد تک، البتہ اجمل خٹک سے پرانا لین دین کا رابطہ بحال رہا‘‘۔
جمعہ خان صوفی نے کتاب کے آخری صفحات میں پتے کی بات لکھی ہے: ''پاکستانی پالیسی سازوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں افغانوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا جائے یا اچھا، واپس جا کر وہ پاکستان کو گالیوں سے نوازیں گے، یہ تاریخ اور ان کی قومی نفسیات کا حصہ ہے‘ وہ پاکستان سے خوش ہوں یا ناراض ‘ انحصار پاکستان پر کریں گے۔ یہ بھی تاریخ اور جغرافیے کا جبر ہے۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی کی حکومت نے جتنا برا سلوک افغان مہاجرین سے کیا شاید ہی ماضی میں کسی نے کیا ہو‘ لیکن کابل کے حکمران پھر بھی اس کے وجود کو اپنے لیے ضروری خیال کرتے ہیں‘‘۔ (ختم)