تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     07-05-2016

مُقْتَدِرَہ

ایک اصطلاح Establishmentہے،اس کا ترجمہ ہم'' مُقْتَدِرَہ‘‘ سے کرتے ہیں ۔یہ ہمارے ملک کے حقیقی حاکم ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں جب پس پردہ فیصلہ کرنے والی حقیقی قوتوں کا نام لے کر ان کو اپنی نفرت یا ملامت کا ہدف نہ بنایا جاسکتا ہو ،تو کہاجاتا ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے یا اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم یا وزیرِ اعلیٰ یاکسی جماعت یا تنظیم سے مطمئن نہیں ہے یا ہمارے خلاف یہ ساری کارروائی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے یا حکم پر ہورہی ہے ،وغیرہ۔گویا اسٹیبلشمنٹ قدیم یونانی فلسفے کی زبان میں ایک ''ھَیُوْلیٰ‘‘یا تصوراتی طاقت ہے جو ہر صورت میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مُقتَدِرہ کسی شخصِ معیّن کا نام نہیں بلکہ یہ ریاست کی مجموعی ہیٔتِ انتظامی کا نام ہوتا ہے، جو فیصلہ کرنے اور اُسے نافذ کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔بعض اوقات مُقْتَدِرہ مختلف اداروں خاص طور پرالیکٹرانک وپرنٹ میڈیا میں اپنے گماشتوں کے ذریعے بولتی ہے یاباخبر و مستند ذرائع کا حوالہ دے کر خبریں اِفشا کی جاتی ہیں ۔ بے یقینی و بے اعتمادی اورپھر انتشار کی فضا پیدا کی جاتی ہے اور ایسا سماں باندھا جاتا ہے کہ جیسے اگلی صبح نمودار ہونے سے پہلے بساطِ اقتدار لپیٹ دی جائے گی ۔Cracyیونانی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: طرزِ حکومت، جیسے Autocracy (آمریت یا ڈکٹیٹر شپ)، Theocracy (مذہبی طبقے کی حکومت یا پاپائیت)،Democracy (جمہوریت ) وغیرہ، الغرض Cracyکے ساتھ جو بھی سابقہ لگے گا ،اس کے معنی کا تعیّن ہوجائے گا،اِسی سے Bureaucracyیعنی نوکر شاہی کی اصطلاح وجود میں آئی۔
انگریزوں نے متحدہ ہندوستان میں اپنی استعماری حکومت کوچلانے کے لیے بیورو کریسی کا ادارہ تشکیل دیا۔ انہیں طنز کے طور پربدیسی حکمرانوں کا ایجنٹ یا کالے انگریز کہاجاتا ہے۔ یہ طبقہ استعماری حکمرانوں کی بادشاہت کو قائم ودائم رکھنے اور روز مرّہ امور کو چلانے کا فریضہ انجام دینے کے لیے تھا۔اس کے لیے انہوں نے انڈین سِول سروس(ICS) کاادارہ تشکیل دیا۔ اس کے ذریعے محکوم ہندوستان کے جدید اعلیٰ تعلیم یافتہ اورذہین ترین لوگوں کو منتخب کیا جاتا تھا،یہ بلاشبہ اپنے عہد کے عالی دماغ لوگ تھے ۔ان کا کام یہ تھا کہ ترہیب اور ترغیب یعنی دبائو اور لالچ کے حربوں سے عوام کو کنٹرول کریں ۔یہ لوگ راجوں مہاراجوں ،نوابوں ،جاگیرداروں اور بعض صورتوں میں مذہبی پیشوائوں کوانعام واکرام سے نواز کر اپنے کارندے کے طور پر کام لیتے تاکہ عوام غلامی کے شکنجے میں کَسے رہیںاور کسی میں خوئے آزادی پیدا نہ ہونے پائے ۔قیامِ پاکستان کے وقت برطانوی سامراج کے ترکے کے طور پرآئی سی ایس کیڈر کا ایک حصہ پاکستان کے حصے میں آیا اور شروع ہی سے نظام کی جڑوں میں بیٹھ گیا ۔انگریزوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ تو ملک سے نکل جائیں گے ، لیکن اُن کی تربیت یافتہ نوکر شاہی کی صورت میں اُن کی فکر بدستور حاکم رہے گی اور یہاں کے لوگ حقیقی آزادی کی نعمت سے کبھی بھی فیض یاب نہیں ہوپائیں گے۔انہوں نے جانے سے پہلے جمہوریت کا چسکا بھی لگایا،مگر ہمارے ملک میں تسلسل کے ساتھ نہ جمہوریت کا چلن ہوسکا اور نہ ہی آمریت کا۔
پاکستان میں آگے چل کر ایک نیا کیڈر سول سروس آف پاکستان (CSP)وجود میں آیا جوکہ آئی سی ایس کا معنوی تسلسل تھا۔ یہ کیڈر صدر ایوب خان کے آخری دور تک جاری وساری رہا ۔تاہم ان کے دور تک اعلیٰ بیوروکریسی کے انتخاب میں چونکہ میرٹ کی کارفرمائی کافی حد تک جاری وساری رہی ،اسی لیے سی ایس پی کیڈر میں بھی کافی ذہین وفَطین لوگ تھے۔یہ لوگ نظام کو سامراجی آقائوں کے طرز پر تسلسل کے ساتھ چلاتے رہے ۔دسمبر 1971ء کے اواخر میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر،پھر عبوری آئین کے تحت صدراور 1973ء کے متفقہ آئین کی منظوری کے بعد وزیرِ اعظم بنے۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پہلے بیوروکریسی کا کنٹرول کمزور کرنے کے لیے ابتدا میں اعلیٰ عہدوں پر براہِ راست اپنے مَن پسند افراد کے تقرّر کا سلسلہ شروع کیا اور یہیں سے اعلیٰ نوکر شاہی کے معیار کا زوال شروع ہوا۔منصوبہ بندی اورنظریاتی کیڈر تیار کیے بغیر صنعتوں ،مالیاتی اورتعلیمی اداروں کے قومیانے کی پالیسی کی وجہ سے صنعتی ترقی کا پہیہ بھی رک گیا ،تعلیم کا معیار بھی تنزّل کا شکار ہوا اور اداروں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور نا اہلی کا نفوذ ہوا۔بعد میںCentral Superior Services(CSS)کا کیڈر قائم کیا گیا۔ وفاقی سطح پر پاکستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مختلف شعبہ جات کے اعلیٰ عہدوں کے لیے سلیکشن کا نظام متعارف ہوا۔یہ سلیکشن ماضی میں گزیٹڈکلاسII اورموجودہ کیڈر کے مطابق گریڈ سترہ سے شروع ہوتا ہے۔اس میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ ،فارن سروس، پولیس سروس،کسٹمز سروس، انکم ٹیکس سروس الغرض مختلف شعبہ جات کے لیے میرٹ کی بنیاد پر سلیکشن کی جاتی ہے ۔لیکن اب اس کا معیار آئی سی ایس اور سی ایس پی سے بہت فروتر ہوچکا ہے۔
انہی میں سے ترقی پاکر جب افسران گریڈ اٹھارہ اور انیس میں جاتے ہیں تو انہیں اگلے درجات میں ترقی کے لیے خصوصی تربیت دی جاتی ہے ،اس کے لیے پہلے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن(NIPA)کا ادارہ قائم کیا گیا تھا، اب یہ ادارہ نیشنل کالج آف مینجمنٹ (NCM)بن چکا ہے۔ مجھے بھی نیشنل کالج آف مینجمنٹ میں زیرِ تربیت اعلیٰ افسران سے خطاب اورسوال وجواب کی نشست کے سیشن میں شرکت کا موقع کئی بار ملا ہے۔اس کے تربیت یافتہ افسران گریڈ بیس تک جاسکتے ہیں ۔اُس کے بعد گریڈ اکیس اور بائیس میں ترقی کے لیے پہلے نیشنل ڈیفنس کالج (NDC)تھا ،اب اِسے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU)کا درجہ دے دیا گیا ہے ، اس کا سربراہ بالعموم فوج کا حاضر سروس یا ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ہوتا ہے ۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں گریڈ اکیس اور بائیس میں ترقی پانے والے مختلف شعبوں کے سول افسران اور بریگیڈیئر سے اوپر کے عہدوں پر ترقی پانے والے فوجی افسران ایک ساتھ تربیت پاتے ہیں ۔ یہاں سے ہماری اعلیٰ سول اور ملٹری بیوروکریسی کا آپس میں ربط قائم ہوتا ہے ۔یہ ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں اور یہ باہمی تعارف نظام کو مربوط کرنے اور ایک پالیسی کے تحت چلانے میں کام آتا ہے، یہی ہماری اصل مُقْتَدِرہ یا اسٹیبلشمنٹ ہے۔ان میں سے جو منتخب افراد تربیتی اور مطالعاتی دوروں پر امریکہ جاتے ہیں ،ان کے عالمی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے اور تعارف کی ایک صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
آج ہماری بیوروکریسی میں ڈاکٹر ، انجینئر اور دوسرے پروفیشنل بھی ہیں اور ان پر قوم کا جو پیسہ خرچ ہوا، وہ بے مصرف رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹر میڈیٹ کے بعد میڈیکل ،انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل شعبوں کی طرح رجحان کا جائزہ (Aptitude Test)لے کر بیوروکریسی کا انتخاب کیا جائے اور ان کی تعلیم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ساتھ لنک کردی جائے۔جس میں اپنے شعبے کے مضامین کے علاوہ ،سماجی علوم، تاریخ وادب، اسلام کے بارے میں خاطر خواہ آگہی، نفسیات اور لیڈر شپ کے مضامین شامل ہوں۔ فارن سروس کے لیے قانونِ بین الاقوام،مختلف خطوں کے لیے متعلقہ زبانوں ، وہاں کی ثقافت اور سماجی تانے بانے کے بارے میں معلومات شامل ہوں۔ انہیں بی ایس آنرزاور ایم ایس کی ڈگریاں دی جائیں۔
اگرچہ آئینی اعتبار سے پالیسیاں تشکیل دینے اور فیصلے کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے موجود ہونے کی صورت میں سول حکمرانوں کے پاس ہوتا ہے ،لیکن ان کے فیصلوں کی تنفیذ کا اختیاربھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہوتا ہے۔ چونکہ حکمران بھی ان پر انحصار کرتے ہیں ،لہٰذا یہ اُن کی کمزوریوں کا بخوبی ادراک کرلیتے ہیں اور پھر ان پر معنوی اعتبار سے غلبہ پالیتے ہیں اور پالیسیوں پر بھی اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔
امریکہ وبرطانیہ سمیت اسٹیبلشمنٹ ہر ملک کے نظام میں مؤثر ہوتی ہے ،فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اورپالیسیاں تشکیل دیتی ہے ۔امریکہ میں بھی پینٹا گان،سی آئی اے،ہوم لینڈ سیکورٹی اور وائٹ ہائوس کی بیوروکریسی کا نام اسٹیبلشمنٹ ہے۔وہاں مختلف شعبوں کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے کے لیے مجالسِ مفکّرین (Think Tanks)بھی کام کر رہی ہوتی ہیں ،جن میں مختلف شعبوں کے ماہرین اوروہاں کی صفِ اول کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان شامل ہوتے ہیں ،ان مجالس کوفنڈنگ صنعتی یا کاروباری ادارے کرتے ہیں،لہٰذاپالیسیاں تشکیل دینے میں اُن کے مفادات کو بھی ملحوظ رکھاجاتا ہے۔ وہ ہمارے حکمرانوں کی طرح الل ٹپ ، بے سوچے سمجھے اور ذاتی ترجیحات پر مبنی فیصلے نہیں کرتے، ان کے فیصلے قومی اتفاقِ رائے پر مبنی ہوتے ہیں ،اُن میں جمہوریت کی صحیح روح کارفرما ہوتی ہے اور قومی مفادات کا بھی تحفظ ہوتا ہے۔ہمارے ہاں نظام کے عدمِ تسلسل کی وجہ سے بے اعتمادی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، پالیسیوں کا تسلسل نہیں ہوتا ،اتفاقِ رائے پر مبنی کوئی قومی ایجنڈا مرتب نہیں ہوتا ۔سیاست دان اپنی اپنی محدود ذاتی اور گروہی سوچ و مفادات اوراپنی اپنی چاہتوں اور نفرتوں کے اسیر ہوتے ہیں۔اس لیے وہ بے توقیر رہتے ہیں ،کیونکہ جب وہ خودایک دوسرے اور ریاستی وحکومتی مناصب کا احترام نہیں کرتے تو دوسروں سے اس کی توقع عبث ہے۔ میڈیا کا تو سارا کاروبار اور سکرین کی رونقیں سیاست دانوں کی باہمی آویزش ،چپقلش اور ایک دوسرے کی توہین وتحقیر کے ساتھ وابستہ ہیں۔
پارلیمنٹ کا وجود علامتی ہے اور اُسے حسبِ ضرورت استعمال کیا جاتا ہے ۔اور تو چھوڑیے!آئینی ترامیم پر بھی کبھی پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث نہیں ہوتی ،نہ ہی کسی قانون سازی پر نظریاتی بحث ہوتی ہے ،تمام معاملات پارلیمنٹ سے باہر اور پسِ پردہ طے پاتے ہیں اور پارلیمنٹ کا کام ان طے شدہ امور کی توثیق رہ جاتا ہے۔موجودہ وزیرِ اعظم اور وفاقی وزراء تو پارلیمنٹ کو اہمیت ہی نہیں دیتے ، اس کے اجلاسوں میں بھی شریک نہیں ہوتے ۔آپس میں اور حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے ساتھ اُن کااحترام کا رشتہ بھی کم نظر آتا ہے ،اس پس منظر میں خیر کی توقع عبث ہے ۔ نظام جیسا بھی چل رہا ہے ،یہ حالات کے جبر کا نتیجہ ہے،یہی وجہ ہے کہ اس میں بلیک میلنگ کا عنصر زیادہ ہے۔جب ایک لیڈر چوک میں کھڑے ہوکر وزیرِ اعظم سے استعفیٰ طلب کرے ،تو پھر آئین وقانون کی باتیں افسانوی رہ جاتی ہیں ۔اس وقت بھی ہم اسی غیر یقینی اور تکلیف دِہ صورت حال کا شکار ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مقدر میں سیاسی قیادت کا جواثاثہ ہے ،وہ وقت گزاری والے مزاج کا ہے اور میوزیکل چیئرکا گیم جاری ہے، کوئی کرسی بچانے کی فکر میں سرگرداں ہے، کوئی دوسرے کودھکا دے کر اسے ہتھیانے کے غم میں گُھل رہا ہے اور کوئی اس آس پر جی رہا ہے کہ پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جائے تاکہ نہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved