تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-05-2016

خوب زندہ رہیے، مگر …

جان کسے پیاری نہیں ہوتی؟ جان کی سلامتی سبھی چاہتے ہیں۔ اور جان کی سلامتی کا مطلب ہے زیادہ سے زیادہ زندہ رہنا۔ یہ دنیا عجیب مایا جال ہے۔ جو اِس سے پیار کرتے ہیں وہ بھی بہت دیر تک جینا چاہتے ہیں اور جنہیں اِس دنیا سے نفرت ہے وہ بھی اِس سے جان چُھڑانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے! ایسی ہی کیفیت کے لیے غالبؔ نے کہا تھا ع 
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے 
ہمارا ایمان ہے کہ ہمیں سانسیں پورے حساب کتاب کے ساتھ بخشی گئی ہیں۔ جس قدر رکنا طے کر دیا گیا ہے اُس سے ایک پل بھی زیادہ ہم اِس دنیا میں رہ نہیں سکتے۔ مگر خیر، ہمیں کیا معلوم کہ ہمارا قیام کس قدر ہے اور کب تک ہے؟ ایسے میں ہمارے پاس سب سے اچھا آپشن اِس کے سوا کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اور ڈھنگ سے جینے کی کوشش کریں؟ زندگی سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ اِس دنیا میں یعنی زندگی سے مُزیّن اِس سیّارے پر ایک خاص مدت تک ٹھہرنے کا موقع ملنا اِتنی بڑی بات ہے کہ رب کا جس قدر بھی شکر ادا کریں، کم ہے۔ اور رب کا شکر ادا کرنے کا ایک موثر اور قابل قبول طریقہ یہ بھی تو ہے کہ ہم اِس دنیا کو بہتر بنائیں اور اِس میں جن لوگوں کے ساتھ ہم آباد ہیں اُن کے کام آئیں، اُن کا جینا آسان تر بنائیں! 
ہر انسان زیادہ سے زیادہ جینا چاہتا ہے۔ اور ہر معاشرہ بھی یہی چاہتا ہے کہ عمومی صحت کا معیار بلند تر ہوتا جائے اور اوسط عمر میں اضافہ ہوتا رہے۔ اوسط عمر میں اضافے کا مطلب ہے اِس دنیا میں قیام کی مدت کا بڑھ جانا۔ عمومی حالات میں ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ صحت کتنی بڑی نعمت ہے اور سلامت رہنا کتنا بڑا اور سُنہرا موقع ہے۔ جب ہم کسی حادثے سے دوچار ہوتے ہیں تب ہمیں عافیت کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ بیمار پڑنے پر ہم جان پاتے ہیں کہ صحت مند رہنا قدرت کا کیسا انمول تحفہ ہے۔ 
زندگی کا معیار بلند کرتے رہنا ویسے تو ہر معاشرے کا خواب اور کوشش ہے مگر ترقی یافتہ معاشرے اِس معاملے میں واقعی قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے ایک مثال کی صورت ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ انہوں نے صدیوں کے عمل میں بہت کچھ پایا ہے اور جو کچھ بھی پایا ہے اُس سے بخوبی مستفید ہوتے ہوئے زندگی اور صحت کا عمومی معیار بلند کرتے جا رہے ہیں۔ صحتِ عامہ کا معیار اور گراف بلند کرتے رہنے کی کوشش نے اب بہت سے ترقی یافتہ معاشروں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ بڑھاپے کے عمل کو قابل ذکر حد تک سُست کر دیں۔ طِبّی ماہرین دن رات اِس امر پر دادِ تحقیق دے رہے ہیں کہ زندگی کا دورانیہ کیونکر زیادہ سے زیادہ طویل کیا جا سکتا ہے۔ صاف سُتھرے ماحول میں اگر کھانے پینے کی اشیا معیاری ہوں اور صحتِ عامہ کا معیار قابل رشک حد تک بلند ہو تو جسم میں خلیوں کی شکست و ریخت کا عمل سُست پڑنے سے اوسط عمر ویسے ہی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر جسم کے ڈھلنے کا عمل مزید سُست کرنے پر توجہ دی جائے تو اوسط عمر میں حیرت انگیز اور قابل رشک حد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ جاپان اِس کی ایک اچھی مثال ہے۔ 
ترقی یافتہ معاشروں کے طِبّی ماہرین اب بڑھاپے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ طے کر لیا گیا ہے کہ معاشرے میں سبھی کچھ انسانی جسم کے لیے انتہائی موافق ہے تو پھر ہر دم جاری رہنے والی تحقیق کی مدد سے کیوں نہ بڑھاپے کی راہ روک کر زندگی کا دورانیہ اِتنا بڑھایا جائے کہ باقی دنیا دیکھے تو انگشت بہ دنداں رہ جائے! 
پچاس تا ساٹھ سال کی عمر کے بعد جسم میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یعنی جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اُن پر قابو پانے کی کوشش عشروں سے کی جا رہی ہے۔ ڈھلتی عمر میں خلیوں کی شکست و ریخت کے عمل کو سمجھنے کی کوشش نے بہت سی ایسی ادویہ تیار کرنے میں مدد دی ہے جن سے جسم کی ٹوٹ پھوٹ کو تھوڑا روکنا یا سُست کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ اچھی خوراک، بروقت علاج اور جسم کو توانائی بخشنے والی ادویہ کی مدد سے اب یہ بہت حد تک ممکن ہو چکا ہے کہ بڑھاپے کا عمل دیر سے شروع ہو۔ 
ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں عام آدمی چالیس سال کا ہونے تک خاصا تھک چکا ہوتا ہے اور اُس کی چال ڈھال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس میں زندہ رہنے اور کچھ کرنے کی لگن ماند پڑ چکی ہے۔ دوسری طرف ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی 75 سال کا ہونے تک خاصا توانا اور پُھرتیلا رہتا ہے۔ صحتِ عامہ کا یہی فرق اُنہیں بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع عطا کرتا ہے۔ 
صاف سُتھرا ماحول، اچھی خوراک، صحتِ عامہ کا بلند معیار اور باقاعدہ ورزش... یہ تمام عوامل ترقی یافتہ معاشروں کے عام آدمی کو اِس سیّارے پر بہت دیر تک سکونت پذیر رہنے کے قابل بناتے ہیں۔ اب ماہرین ایک قدم آگے جاکر بڑھاپے کے عمل کو انتہائی سُست کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ایسی ادویہ تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کے استعمال سے اوسط عمر کو دس بارہ سال بڑھانا ممکن ہو۔ 
یہ سب کچھ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اُمید یہی ہے کہ جو ادویہ مغربی دنیا میں تیار کی جا رہی ہیں وہ بالآخر، اور بہت سی چیزوں کے مانند، ہم تک پہنچ ہی جائیں گی۔ یہ تصوّر کتنا اچھا اور خوش کُن ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی کا دورانیہ بڑھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ویسے معاملہ تصوّر کی حد تک ہے۔ ہمارے ہاں جب تک ماحول صاف سُتھرا نہ ہوگا، متوازن اور صحت بخش خوراک تک رسائی ممکن نہ بنائی جا سکے گی اور ورزش کو یومیہ معمولات کا حصہ نہیں بنایا جائے گا تب تک قابل رشک صحت کے ساتھ اوسط عمر میں اضافہ بھی ممکن نہ بنایا جا سکے گا۔ 
ترقی یافتہ معاشروں کی تحقیق سے زندگی آسان ہوتی جا رہی ہے مگر کہیں کہیں الجھنیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ جسم کی شکست و ریخت کا عمل سُست کرکے زندگی کا دورانیہ بڑھانے کی کوشش تو کی جا رہی ہے مگر اس نکتے پر کوئی بھی دھیان نہیں دے رہا کہ اگر دنیا بھر میں اوسط عمر بڑھتی گئی تو کیا ہو گا۔ آپ سوچیں گے زیادہ جینا ممکن ہو تو اور کیا چاہیے۔ ٹھیک ہے، مگر زیادہ جینا کس کام کا اگر کسی منزل کا تعیّن ہی نہ کیا گیا ہو! چلیے، دور کہیں نہیں جاتے۔ ہم اپنے معاشرے سے شروع کرتے ہیں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ پچاس پچپن سال کی جو اوسط انفرادی زندگی ملی ہے وہی ڈھنگ سے گزاری نہیں جا رہی۔ ایسے میں اگر عام آدمی، کسی نہ کسی طور، مزید دس بارہ سال جینے کے قابل ہو گیا تو کیا ہو گا؟ 
ترقی یافتہ معاشروں کے اپنے مسائل اور وسائل ہیں۔ ہمارا حساب کتاب الگ ہے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ بچپن کی معصومیت میں لڑکپن گھس جاتا ہے۔ پھر لڑکپن کے عہدِ شباب میں بھرپور جوانی وارد ہو جاتی ہے۔ اور ابھی جوانی گئی بھی نہیں ہوتی کہ بڑھاپا درشن دینے لگتا ہے۔ جسم کا ہر مرحلہ یہاں بہت پہلے وارد ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کس ڈھب کی زندگی بسر کی جا سکتی ہے یہ بات ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہم سبھی اُس ڈھب کی یعنی الل ٹپ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
نظامِ شمسی کے جس سیّارے کی تقدیر میں ہم لکھے گئے ہیں وہ زندگی کے لیے انتہائی موافق ماحول سے آراستہ و مُزیّن ہے۔ اِس نعمت کا شکر ادا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہاں، کوشش ضرور کرنی چاہیے تاکہ دل میں اور دماغ میں استحکام پیدا ہو۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کون کتنا جیے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ تیس چالیس سال کی عمر میں چل دیتے ہیں مگر اپنے لیے بقا و دوام کا اہتمام کر جاتے ہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جو سو سال سے زیادہ زندہ تو رہتے ہیں مگر ایسا کچھ نہیں کرتے کہ اُنہیں یاد رکھا جائے، یاد کرکے کمی محسوس کی جائے۔ بنیادی سوال زندگی کے دورانیے کا نہیں، دورانیے کی افادیت کا ہے۔ یہ معاملہ ''کتنی‘‘ سے زیادہ ''کیسی‘‘ زندگی کا ہے! اگر موافق حالات اور ادویہ کی مدد سے 80، 90 یا 100 جی بھی لیے تو کیا حاصل اگر کچھ کر دکھانے اور اِس دنیا کو کچھ دینے کی صلاحیت ہی ناپید ہو؟ عقلِ سلیم کہتی ہے کہ جو سانسیں میسّر ہیں اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لائیے۔ ایسا ہوگا تو چند سانسوں کی زندگی بھی سو برس کی عمر پر حاوی آجائے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved