تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     07-05-2016

پاکستانی مائوں کو تربیت کی ضرورت

آپ کو کالم کا عنوان پڑھ کر شاید حیرت ہوئی ہو اور آپ سوچ رہے ہوں کہ مائوں کا ایثار اور قربانی تو شک و شبہ سے بالا ہوتی ہے، مائیں ہی ہیں جو اپنی زندگیاں بچوں پر وار دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں، بھلا ایسی مائوں کو تربیت کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ بات یقیناً سچ ہے کہ مائیں بچوں کے لیے ایثار، قربانی، محبت اور شفقت کا ایک جہان ہوتی ہیں۔ یہ سارے جذبے فطرت نے ان کے اندر رکھ دیے ہیں۔ یہ کالم لکھنے کا ایک محرک یہ ہے کہ کل یعنی اتوار 8 مئی کو مائوں کا عالمی دن ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر مائوں کو خراج محبت پیش کیا جاتا ہے جو یقیناً ان کا حق ہے۔ ہر ماں اپنے بچے کے لیے جو جدوجہد کرتی ہے، اس پر وہ سلام عقیدت کی مستحق ہے۔
اس کالم کا موضوع ہماری آج کی مائیں ہیں یعنی نوجوان مائیں جو اپنے سکول اور کالج جانے والے بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہی ہیں۔ پاکستانی مائوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع مجھے دو طرح سے ملا۔ ایک وہ وقت جب میں ایک بڑے اردو اخبارکے چلڈرن پیج کی انچارج تھی۔ چونکہ ہر ہفتے مجھے بچوں سے متعلق کوئی سرگرمی کروانا ہوتی تھی اس لئے ہر ہفتے بچوں کی مائوں سے بھی ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے، ایک بار ہمیں بچوں کے پارٹی ڈریسز پر شوٹ کروانا تھا۔ ایک ماں اپنی تین چار سال کی بچی کو قابل اعتراض لباس پہنا کر لے آئی۔ ابھی میں اسے دیکھ کر شاک کی کیفیت میں ہی تھی کہ وہ بڑے فخر سے بولی، میں نے یہ لباس فلاں انڈین فلم کی فلاں ڈانسر کے لباس کی طرز کا بنوایا ہے۔ اس نے اپنی خالہ کی مہندی پر بھی یہ پہنا تھا۔ میں اس ماں کو دیکھ رہی تھی کہ وہ اپنی بچی کی تربیت کس نہج پر کر رہی ہے اور اسے کیا سکھا رہی ہے! میں نے اس خاتون سے کہا، ہمارا اخبار اس طرح کے لباس میں بچوں کی تصاویر نہیں چھاپتا۔ وہ مصر رہی کہ بچی ہی نے تو پہنا ہے، ایسی بھی کیا بات ہے؟
اس دوران مجھے بہت سی ایسی مائوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جن کی شخصیت اور بچوں کی تربیت کرنے کا انداز انتہائی متاثر کن تھا، ان کی ترجیحات میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی شامل تھی۔
ہمارے اپنے اخبار کے محترم کالم نویس برادرم خورشید ندیم نے کراچی کے ایک سکول میں ہونے والے سانحے پر کالم لکھا تھا ''ایک بیٹی کی آخری تحریر‘‘ جس کے الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں۔ اس المناک واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ نویں کلاس کے دو طالب علموں۔۔۔ لڑکے اور لڑکی نے اسمبلی کے وقت کلاس میں ایک دوسرے کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ کچی عمر میں وہ ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو کر شادی کرنا چاہتے تھے۔ دونوں نے خودکشی کرنے سے پہلے جو تحریر لکھی اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ بچوں اور والدین خصوصاً مائوں کے درمیان ایک فاصلہ موجود ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے اسے اخلاقی زوال قرار دیا تھا اور بجا طور پر لکھا تھا کہ اس طرح کے واقعات میں سراسر بچوں کو مورد الزام ٹھہرانا زیادتی ہے کیونکہ اصل ذمہ دار وہ والدین ہیں جو بچوں کی اخلاقی تربیت میں ناکام ہو چکے ہیں۔
بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار زیادہ اہم ہے کیونکہ ماں ہی بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے۔ میں نے مائوں کو ہمیشہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے متفکر دیکھا ہے۔ سکولوں میں ایک ایک نمبر پر مائوں کو لڑتے اور بحث کرتے دیکھا ہے۔ بس یہی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ میرے بچے نے ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، فلاں یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے۔ اس دوڑ میں ہمارے تعلیمی ادارے تو تربیت کا عنصر ویسے ہی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہماری مائوں نے بھی تعلیم کے ایک اہم ترین جزو یعنی تربیت کو بالکل بھلا دیا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے مائوں کے ذہنوں میں milestone یعنی ہدف کا تعین ہو چکا ہوتا ہے اور پوری توجہ اسی کے حصول پر مرتکز رہتی ہے ۔ ہم میں کتنی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے بھی اتنی ہی متفکر رہتی ہیں۔ کیا ہمارے ذہنوں میں بچوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے کوئی Objective موجود ہے؟ جب سے میرا بیٹا سکول جانے لگا ہے، کئی مائوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے اور ان کے خیالات جان کر بعض اوقات حیرت ہوتی ہے۔ ہماری آج کی مائیں مارننگ شوز دیکھنے والی‘ کمرشل دور کی مائیں ہیں جو بچوں کو سکول لنچ کے لیے ہوم میڈ فوڈ کے نام سے پراسیسڈ فروزن فوڈ تل کر کھلاتی ہیں۔ اس حوالے سے میں نے اپنے بیٹے کے سکول کی ہیڈ سے بات کی کہ پلیز آپ فروزن فوڈ سکول میں لانے پر پابندی عائد کر دیں کیونکہ اس سے صحت کے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میں ان کا جواب سن کر حیرت زدہ رہ گئی۔کہا، ہم اس حوالے سے کوشش کر چکے ہیں، مائیں کہتی ہیں ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ خود کھانے بنا کر لنچ میں دیں۔ ٹیچرز کا بھی یہی کہنا تھا کہ بیشتر مائیں اس حوالے سے کوئی بات سمجھنے کو تیار نہیں۔ پوری دنیا اب ریفائن آٹا یعنی میدے سے بنی ہوئی اشیاء کے نقصانات سے واقف ہو کر آرگینگ فوڈ کی طرف آ رہی ہے جبکہ ہم دیسی کھانوں سے کچرا فوڈ یعنی جنک فوڈ کی طرف جا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں مختلف کولا ڈرنکس کو صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا چکا ہے جبکہ ہماری مائیں بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ میرا بچہ چھ مہینے کی عمر سے فلاں کولا ڈرنک بڑے شوق سے پی رہا ہے!
گزشتہ کچھ برسوں سے ہماری غذائی عادات اور طرز زندگی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ بچوں کا اس سے متاثر ہونا ایک فطری بات ہے۔ اگر ماں کی ترجیحات میں بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت اور صحت مقدم ہو گی تو وہ ان باتوں کو مد نظر رکھے گی۔ ایک ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو نئی اصلاحات سے اپ ڈیٹ رکھے، خصوصاً غذائی عادات اور صحت کے حوالے سے نئی معلومات پر نظر رکھے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو سٹرا بری کا ملک شیک بڑے شوق سے پلاتی ہیں مگر ایک ریسرچ میری نظر سے گزری کہ یہ صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ چند مائوں سے میری اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے اس خیال کو ہی جھٹلا دیا، ''اس سے کچھ نہیں ہوتا‘‘ مائوں کو ایسے جاہلانہ رویے ترک کر کے خود معلومات کی کھوج کرنی چاہیے۔ انہیں انٹر نیٹ اور فیس بک پر برانڈڈ لانوں کے ڈیزائن دیکھنے کے علاوہ کچھ وقت اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے پر بھی صرف کرنا چاہیے۔ ماں ہونا ایک مسلسل ریاضت ہے، مسلسل سیکھنا اور جاننا، خود کو بھی ایک تربیت کے عمل سے گزارنا تاکہ بچوں کی متوازن دینی اور اخلاقی تربیت کر سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved