تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     08-05-2016

باعث مسّرت یا مقام شرم

لندن کے میئر کے طور پر ایک مسلمان اور پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے کی کامیابی برطانوی عوام‘ لندن میں مقیم مسلمانوں‘ پاکستانیوں اور ایشیائی باشندوں اور خود صادق خان کے لیے تو باعث مسّرت و شادمانی ہے مگر ہم یہاں پاکستان میں کس بات پر خوش ہو رہے ہیں؟ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کیوں؟ ہمارے لیے تو یہ لمحہ فکریہ بلکہ شرم کا مقام ہے۔
امان اللہ نے تلاش روزگار کے لیے برطانیہ کا رُخ کیا‘ تو یہ دراصل اپنے ملک اور معاشرے پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ اگر امان اللہ مرحوم کو یہ یقین ہوتا کہ پاکستان میں باعزت روزگار کے علاوہ بچوں کی اچھی تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا حصول ممکن ہے تو ہندوستان سے ہجرت کر کے اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان میں بسنے والا شخص ایک بار پھر ترک وطن کا ارادہ نہ کرتا۔ صادق خان برطانیہ میں پیدا ہوا‘ پلا بڑھا اور وہاں کے سماجی‘ سیاسی اور انتخابی نظام کے طفیل لندن کے میئر کے عہدے تک پہنچا۔ صادق خان کی محنت اور ریاضت قابل رشک‘ جمائمہ خان نے اسے پاکستانی نوجوانوں کے لیے قابل تقلید قرار دیا‘ لیبر پارٹی اور لندن کے گوروں کا فراخدلانہ طرز عمل قابل داد کہ وہ حکمران کنزرویٹو پارٹی اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے مرعوب ہوئے نہ ارب پتی خاندان کی شہرت اور سرمائے کے علاوہ گوری چمڑی‘ زبان‘ نسل اور خاندان سے متاثر۔ حتیٰ کہ زیک نے صادق خان کو مسلم انتہا پسند قرار دیا تو مقامی گوروں نے اس الزام کو تعصب سمجھ کر مسترد کر دیا۔ صادق خان کی کامیابی میں اگرچہ لندن کی مسلمان‘ پاکستانی اور سکھ آبادی نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانیوں نے تو حسب معمول پارٹی ڈسپلن توڑ کر بھی اس کی حمایت کی مگر فیصلہ کن کردار لیبر پارٹی اور مقامی گورے ووٹروں کا تھا۔ اگر پاکستانیوں کی طرح وہ بھی صادق خان کو محض مسلمان اور پاکستانی ڈرائیور کا بیٹا سمجھتے تو اوّل ٹکٹ نہ ملتا‘ ثانیاً مذہبی انتہا پسندی کا الزام لگا کر انتخابی دوڑ سے باہر کر دیا جاتا اور کسی طرح اگر وہ اس میں شامل ہوتا بھی تو گورے ووٹ نہ دیتے۔
ہمارے لیے خوشی اور خوش بختی کا دن تو وہ ہونا چاہیے جب کسی بس ڈرائیور کا بیٹا محض اپنی محنت‘ قابلیت‘ خدمت‘ سیاسی بصیرت اور ذاتی مقبولیت کی بناء پر لاہور‘ اسلام آباد یا کراچی کا میئر بنے۔ اس کا مسلک اور خاندانی بیک گرائونڈ دیکھا جائے نہ ذات برادری‘ قبیلہ اور لسانی شناخت اہلیت کی شرط قرار پائے‘ بیس پچیس سال قبل ایسا ممکن تھا۔ جب تک سیاست میں دولت‘ مسلک اور برادری و زبان کے بُتوں کی پوجا شروع نہیں ہوئی تعصبّات اور تنگ نظری نے رواج نہ پایا‘ ووٹ کی خرید و فروخت عروج پر نہیں پہنچی‘ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے موروثی اور خاندانی قیادت کا طوق گلے میں نہیں ڈالا‘ اور ٹکٹ دینے سے قبل سرمایہ و جاگیر کی تفصیل‘ ملک و جماعت کے بجائے قیادت سے ذاتی وفاداری اور خدمت‘ کسی مخصوص ذات برادری سے تعلق کے علاوہ پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے کے نذرانے کا ثبوت پیش کرنے کی شرط قرار نہیں پائی تب تک پڑھے لکھے‘ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اور غریب خاندانوں کے بچے بھی سیاست میں آگے بڑھنے کے خواب دیکھتے رہے مگر جونہی موسم بدلا نام نہاد جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں اور مافیاز نے پنجے گاڑے اور یہ سرمائے کا کھیل بنا آس‘ اُمید سب خاک ہوئے۔ جب 
پولیس اور بیوروکریسی پر سیاست کا منحوس سایہ نہ پڑا تھا افتادگان خاک اپنی خداداد صلاحیتوں اور ریاضت کے بل بوتے پر اعلیٰ مناصب کا خواب دیکھ لیا کرتے تھے۔ چودھری سردار محمد ایک ایسے غریب باپ کا بیٹا تھا جو بیچارہ اسے میٹرک تک تعلیم دلانے کے قابل نہ تھا مگر وہ گرتے پڑتے گریجوایش میں کامیاب ہو گیا تو سی ایس ایس کرنے کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس کے منصب تک پہنچا۔ اس کے برعکس اپنی تمام تر ذہانت‘ لیاقت‘ اچھی شہرت اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے علاوہ حکمران شریف خاندان سے قربت کے باوجود اپنی اصول پسندی کی بنا پر ذوالفقار علی چیمہ کسی صوبے کا آئی جی نہ بن سکا‘ جبکہ کئی ٹٹ پونچئے اور بدنام افسر محض سفارش‘ چاپلوسی اور وفاداری کی بناء پر اس منصب پر فائز رہے۔ ہمارے جمہوریت پرست بُرا تو بہت مناتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں فوج واحد ادارہ ہے جہاں کسی لانس نائیک‘ صوبیدار اور سکول ٹیچر کا بیٹا لیفٹنٹ جنرل اور آرمی چیف بننے کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ صرف خواب کیوں؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جنرل ضیاء الحق‘ جنرل ٹکا خان اور کئی دوسرے اس کی زندہ مثال ہیں جو کمزور خاندانی و مالی پس منظر کے باوجود اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے‘ تاہم ہماری حکمران اشرافیہ اور اس کی قصیدہ خواں ذُریت عرصہ دراز سے فوج کے نظام عزل و نصب‘ ترقی و تنزلی میں شب خون مارنے اور سول بالادستی کے نام پر اس کا حشر پولیس اور انتظامیہ سے بدتر کرنے پر تُلی ہے تاکہ سیاست‘ انتظامیہ اور پولیس کی طرح فوج میں بھی کسی بے وسیلہ بس ڈرائیور کے بیٹے کے لئے آگے بڑھنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے اور ارب پتی خاندان کے نااہل‘ عیاش اور بدعنوان بیٹے یہاں بھی مناصب حاصل کر سکیں۔
کیا خیال ہے اگر یہ الیکشن لاہور میں ہوتا تو جیت کس کا مقدر ہوتی؟ بس ڈرائیور کے بیٹے یا ارب پتی خاندان کے نور نظر‘ لخت جگر کی؟ 
ایک دن انتخاب ہوا‘ دوسرے دن صادق خان نے حلف اٹھا کر بورس جانسن سے چارج لے لیا‘ یہاں بلدیاتی انتخابات کو ہوئے چھ ماہ گزر گئے ابھی تک دو بڑے صوبوں سندھ‘ اور پنجاب میں میئر اور چیئرمین منتخب نہیں ہو پائے۔ حالانکہ دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کے ذریعے دونوں ہی حکمران جماعتوں کو اکثریت مل چکی ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے منتخب بلدیاتی ارکان میں سے بھی بعض ایسے منہ زور سیاسی کارکن منتخب ہو چکے ہیں جو منصب اور اختیار مانگتے ہیں جبکہ حکمرانوں کو محض ذاتی وفادار‘ چاپلوس اور بے اختیار افراد مطلوب ہیں۔ 1998ء میں یہ تماشا ہم دیکھ چکے ہیں کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے بعد عرصہ دراز تک میئر‘ ڈپٹی میئر اور چیئرمینوں کے انتخابات نہ ہو پائے جب تک مختلف مسلم لیگی دھڑوں میں توڑ پھوڑ کر کے من پسند افراد کا انتخاب یقینی نہ ہوا۔ عمران خان کی دشمنی میں صادق خان کی کامیابی پر سب سے زیادہ خوش پاکستانیوں میں سے کسی کو یہ سوچنے کی توفیق نہیں کہ ہمارے ہاں جو بے ننگ و نام جمہوریت اور سیاسی بلدیاتی نظام ہے کیا وہ ان میں سے کسی کو آگے بڑھنے اور صادق خان کی طرح اپنا سر فخر سے بلند کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر انہیں خوش ہونا چاہئے یا شرمندہ؟ 
صادق خان کو مبارکباد‘ اُسے اپنی محنت کا ثمر ملا۔ پاکستانیوں‘ سکھوں‘ مسلمانوں اور گوروں نے اُسے اپنے اعتماد سے نوازا۔ ہم جنس پرستوں نے تو اجتماعی طور پر اس کی نہ صرف حمایت کی بلکہ فنڈز بھی دیئے کیونکہ زیک کی نسبت صادق خان زیادہ روشن خیال اور اس ''مظلوم‘‘ برادری کے ہمنوا تھے۔ برطانوی اور امریکی گورے اب مسلم ممالک اور معاشروں سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ بھی رنگ‘ نسل‘ زباں اور مذہب سے بالاتر ہو کر اپنے ہاں ایسے ہی روشن خیال افراد کو عنان اختیار سونپیں‘ یہ برطانوی معاشرے اور سیاسی نظام کی کامیابی ہے اور ہمارے جیسے تنگ نظر‘ مرعوب‘ منقسم‘ پست نگہ اور غلام معاشرے کے لیے تازیأنہ عبرت‘ جو اکیسویں صدی میں بھی موروثی سیاست کو برقرار رکھنے بلکہ پروان چڑھانے پر بضد ہے۔ یہاں میئر‘ رکن اسمبلی اور وزیر ‘مشیر بننے کے لیے خاص برادری سے تعلق درکار ہے یا دولت کا انبار‘ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں تیس فیصد نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے عوام نے محض اس بنا پر ووٹ نہ دیئے کہ ان بیچاروں کا کل اثاثہ نیک نامی‘ تعلیم‘ جذبہ خدمت اور تبدیلی کا نعرہ تھا۔ سرمایہ و جاگیر اور قبیلہ برادری نہیں۔ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ فصلی بٹیرے ہر جگہ کامیاب رہے خواہ ان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا‘ پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف سے۔ ووٹ ہم سب پاکستان کے اندر اور باہر دھن دولت کے انبار لگانے والوں کو دیتے ہیں‘ خوش لندن میں بس ڈرائیور کی کامیابی پر ہوتے ہیں اور طعن و تشیع کے تیر ارب پتی زیک پر برساتے ہیں‘ احتساب کے لئے بھی نیب کی بجائے ''غیب‘‘ کی منتظر قوم کی یہی اوقات ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved