فوج اور رینجرز نہیں بلکہ یہ سول ادارے ہوتے ہیں، معقول طریقے سے مستقل طور پر جو ملک کو چلا سکتے ہیں اور وہی نکتہ۔۔۔۔۔ ساری بات اندازِ فکر کی ہے۔
وزیر اعظم جب یہ کہتے ہیں کہ سکولوں، مارکیٹوں، مساجد اور امام بارگاہوں میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے چیتھڑے اُڑا دینے والے اور پاناما لیکس پر احتجاج کرنے والے ایک برابر ہیں تو در اصل وہ کیا کہتے ہیں: وہ یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مجھے اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے، جتنی معصوم بچوں کے قتل سے۔ میرا دکھ میرے لیے بہت بڑا ہے۔ میرا اقتدار، میری اولاد اور میری دولت مجھے بہت عزیز ہے۔ انہیں خطرہ ہو تو میرے اندر نفرت کی لہر اُٹھتی ہے۔ غلبے کی، اقتدار کی آرزو، اولاد اور دولت فتنے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد یہ ہے: ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف سے اور بھوک سے، مال کے نقصان سے، جانوں کے خوف اور تباہی سے، باغات کی بربادی سے۔ عصر رواں کے عارف نے کہا تھا: دوسروں کو تو درویش ہمیشہ رعایت دے سکتا ہے، خود کو کبھی نہیں۔ احتساب اصل میں اپنا احتساب ہوتا ہے۔ اپنے بارے میں سچ سننا دشوار ہے۔ خود کو جائز ثابت کرنا انسانوں کا شِعار۔ ایمان اور بالیدگی یہ ہے کہ آدمی خود پہ نظر رکھے۔ فرمان یہ ہے: ہم دیکھیں گے تم میں سے کون حسن عمل کے تقاضے پورے کرتا ہے، حسنِ عمل فقط خلوص اور دیانت ہی نہیں بلکہ صبر اور حکمت بھی ہے۔
دیر تک طالب علم سوچتا رہا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دائمی عظمت کا راز کیا ہے؟ پیغمبرانِ عظام کے بعد کہ منتخب ترین لوگ ہوتے ہیں، تاریخ میں شاید سب سے زیادہ یاد رکھے گئے رہنما۔ عارف کا کہنا ہے کہ پوری شدت کے ساتھ سب آزمائشیں ایک ساتھ ہی ان پر ٹوٹ پڑیں۔ مال تو کیا جان، خاندان کے سب چھوٹے بڑوں کی زندگیاں، ظاہری عزت اور عظمت و شوکت۔ مگر آپ نے رتی برابر پروا نہ کی۔ ڈٹے اور اس طرح ڈٹ کر کھڑے رہے وہ اور ان کے تمام ہم نفس کہ آسمان نے ایسا منظر شاید ہی کبھی پہلے دیکھا ہو۔ نگاہ مالک پہ رہی اور یقین ایسا کہ شاعر نہ ادیب، خطیب نہ انشا پرداز، کوئی ان کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں۔ عظمت اور تقدس سچائی کی ہوتی ہے، آدم زاد کی نہیں ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں
اور نادرِ روزگار شاعر میر تقی میرؔ نے یہ کہا تھا ؎
موت اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
اور یہ کہا تھا ؎
جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نا محرم رہا
رینجرز کی تحویل میں فاروق ستار کے رابطہ کار کی ہلاکت سے بہت صدمہ ہوا۔ اس سے زیادہ اپنی بوکھلاہٹ پر کہ بروقت احتجاج نہ کیا۔ جن سے امید زیادہ ہو، ان کی حماقت زیادہ صدمہ پہنچاتی ہے۔ لوگوں سے نہیں، ہمیں اپنی توقعات کی شکست پر دکھ پہنچتا ہے۔ حیدر عباس رضوی کہاں ہیں؟ چار برس ہوتے ہیں، وسیم اختر کی دعوت پر میں کراچی گیا۔ پانچ گھنٹے تک نائن زیرو میں جناب حیدر عباس سے بریفنگ لی۔ زیربحث یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے کچھ لوگ اٹھا لیے گئے تھے۔ ان میں سے بعض پر تشدد کیا گیا تھا۔ ناچیز نے اس پر احتجاج کیا اور بہت شدید احتجاج۔ رینجرزکے افسر اس پر بگڑے اور بہت بگڑے۔ ان میں سے ایک دوست نے جو اب ایک بہت بڑے منصب پر ہیں، مجھے لکھا: ؎
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اقرار کریں اور خلش مٹ جائے
مراد یہ ہے کہ ناچیز نے غلطی کی اور ا سے معافی مانگنی چاہیے۔ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ایم کیو ایم کے بارے میں، اس کے عسکری ونگ کے بارے میں میری رائے بدل نہیں گئی۔ وہ جملہ ان دنوں کثرت سے دہراتا رہا کہ نا انصافی کو انصاف سے ختم کیا جا سکتا ہے، قوت سے نہیں۔ خون کو پانی سے دھویا جاتا ہے، خون سے نہیں۔ بگاڑ اسی وقت آشکار تھا۔ عسکری قیادت نے مجھ سے خیر خواہوں کی گزارش پر غور کیا ہوتا تو انداز فکر کی اصلاح ہوتی۔ ایم کیو ایم نے جو کچھ کیا، اسے حکمت اور عدل سے سلجھایا جا سکتا ہے، طاقت سے نہیں۔ قصاص سے، انتقام سے نہیں۔ قرآن کریم یہ کہتا ہے: ولکم فی القصاص حیٰوۃً یا اولی الالباب، اے اہلِ دانش زندگی قصاص میں ہے، انتقام میں نہیں۔
اہلِ کراچی پر اور پورے ملک پر رینجرز کے احسانات ہیں اور بے شمار ہیں۔ حال ہی میں ایک سروے کے مطابق کراچی کے 92 فیصد شہری رینجرز کی قیادت سے خوش ہیں۔ ملک کے صنعتی اور مالی دارالحکومت کو برباد ہونے سے انہوں نے بچا لیا۔ عہدِ آئندہ کا مورخ ان کی تحسین کرے گا اور برقرار رہنے والی تحسین۔ ان کی کاوش اور قربانیوں کا اعجاز ہے کہ دہشت گرد شہر سے فرار ہونے لگے۔ قتل و غارت کے واقعات میں 70 فیصد کمی آئی۔ جرائم کم ہو گئے۔ صرف 20فیصد۔ سال رواں کے چار مہینوں میں تاک کر قتل کرنے کے اب تک صرف 26 واقعات ہوئے ہیں۔ 2013-14ء میں 618 معصوم شہری شہید کر دیئے گئے تھے۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔ 2013ء میں بھتہ لینے کے 1524 واقعات رپورٹ کئے گئے اور بہت سے اس کے سوا تھے۔ 2014ء میں 899 رہ گئے، 2015ء میں صرف 303۔ سال رواں کے جنوری سے اب تک صرف 35 ۔ اغوا برائے تاوان کے مرتکب جتھوں میں سے بیشتر کا صفایا کیا جا چکا۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اندرونِ سندھ میں بھی، جہاں وڈیروں کی سرپرستی اور پولیس کی مدد سے وہ بروئے کار تھے۔ تین برس پہلے کے مقابلے میں اغوا کی وارداتیں اب صرف دس فیصد رہ گئی ہیں۔ کراچی دنیا کے ان چھ شہروں میں سے ایک تھا، جہاں مجرم دندناتے پھرتے اور قانون بے بس تھا۔ چھٹے سے اب وہ اکتیسویں نمبر پر آ پہنچا ہے۔کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ 2015ء میں 81 بیمار بند پڑے کارخانے پھر سے کام کرنے لگے۔ اس ایک سال کے دوران جائیدادوں کی قیمت میں 31فیصد اضافہ ہوا۔
سالِ گزشتہ رمضان المبارک اور عید الفطر پر 78 ارب روپے کی خریداری ہوئی۔ اسی دوران صوبے میں 242290 لٹر سمگل شدہ ایرانی ڈیزل اور پٹرول پکڑا گیا۔ پٹرول پمپوں سے تیل کی فروخت دو گنا ہو گئی۔ سرکاری آمدن میں 8.3 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ سب سہولت سے نہیں ہوا۔ رینجرز کے 30 جوان شہید ہوئے اور 89کو زخم آئے۔ بیتے ہوئے اڑھائی سال کے دوران رینجرز نے 1203 دہشت گردوں اور 636 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا۔ اگر یہ لوگ بروئے کار ہوتے تو ملک کس حال کو پہنچتا؟ 388 بھتہ خور پکڑے گئے، 143اغوا کار۔ 87 فیصد شہریوں کا کہنا یہ ہے کہ رینجرز کو برقرار رکھا جائے اور ان کی کارروائی جاری رہنی چاہیے۔
جنوبی ایشیا کے لیے انسانی حقوق کے کمیشن کی رپورٹ یہ ہے کہ ان اقدامات کے دوران انسانی حقوق کو پامال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اب مگر یہ واقعہ ہوا اور جیسا کہ اندازہ تھا چرچا بھی غیر معمولی طور پر۔ جن سے اندیشہ نہ تھا، انہوں نے ستم ڈھایا۔ رینجرز کے متعلقہ افسروں کو غور کرنا چاہیے کہ تاریخ ساز کارنامے انجام دینے والے اپنے ادارے کی نیک نامی پر انہوں نے کیسا زخم لگایا۔
بروقت سپہ سالار نے نوٹس لیا اور مکمل تحقیقات کا حکم صادر کیا۔ کارندوں میں سے ایک نے کہا تھا: آئی ایس آئی بیرون ملک تخریب کاری کرتی ہے، را نہیں، مایوسی پھیلانے کی کوشش کی اور یہ کہا: رینجرز کے طرزِ عمل میں بہتری نہ آئے گی۔ کیوں نہیں آئے گی؟ اپنی شہرت کے باب میں وہ حساس ہیں۔ وہ میرے محترم دوست مولا بخش چانڈیو کی پسندیدہ پولیس جیسے نہیں، حکمرانوں نے جسے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
فوج اور رینجرز نہیں بلکہ یہ سول ادارے ہوتے ہیں، معقول طریقے سے مستقل طور پر جو ملک کو چلا سکتے ہیں اور وہی نکتہ۔۔۔۔۔ ساری بات اندازِ فکر کی ہے۔