تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     08-05-2016

وزارت خزانہ کے اعترافات اور مزید سوالات۔۔۔!

خیال تو یہی تھا آج کالموں کی سیریز ''ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے‘‘ کی چھٹی قسط لکھی جائے لیکن ہفتہ کے روز وزارت خزانہ کی وضاحت چھپی جو وضاحت سے زیادہ طویل اعترافات پر مبنی تحریرہے۔ اس میں مجبوریوں کے رونے روئے گئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے طاقتور لوگ جب چاہیں قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑ لیں۔ کمال کے زکوٹا جن ہیں، سب کچھ مان لیتے ہیں اور میری مذمت کرنا بھی نہیں بھولتے۔
وزارت خزانہ کے افسران بھول گئے کہ یہ سب میرے ذہن کی پیداوار نہیں۔ یہ ایک اجلاس کی آنکھوں دیکھی روداد تھی جس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی اور جس میں سینیٹرز محسن لغاری، محسن عزیز، عائشہ رضا فاروق وغیرہ موجود تھے۔ اگر سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کی یادداشت ان کا ساتھ دے تو ان پر محسن لغاری نے چڑھائی کی تھی کہ وہ بغیر قانونی بل کے کیسے الیکشن کمشن کے ممبران کی تنخواہ کا تعین کر سکتے تھے اورکیسے الیکشن کمشن کے ممبران سے یہ لکھوایا گیا کہ اگر یہ قانون پاس نہ ہوا تو ان کی تنخواہوںکے پانچ پانچ کروڑ روپے واپس لے لیے جائیں گے؟ اور ڈاکٹر وقار مسعود نے ہی الیکشن کمشن کے ساتھ کی گئی حیران کن ڈیل کی باتیں کمیٹی ممبران کو بتائی تھیں۔ ہم سب وہاں موجود تھے۔ اگر شک ہے تو یہ سب کچھ ریکارڈنگ میں موجود ہے جسے سنا جا سکتا ہے۔ 
کمیٹی میں وقار مسعود کا مذاق بھی اڑایا گیا تھا۔ یہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سرکاری ملازم کی طاقت نہیں تھی کہ ججوں کی تنخواہوںکا فیصلہ کرتے اور اس ڈیل پر ان سے دستخط کرواتے۔ یہ کام پارلیمنٹ کا تھا، وقار مسعود نے اسی کی طاقت استعمال کی۔ اگر باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اصلی جمہوریت ہوتی تو وقار مسعود پارلیمنٹ کی توہین کرنے کے جرم میں ملازمت سے برطرف ہوکر جیل جاتے، انہوں نے پارلیمنٹ کو بلڈوزکرکے الیکشن کمشن کے ساتھ ایک ایسی ڈیل کی جو وہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کا اعتراف وہ خود اپنی پریس ریلیز میں کر چکے ہیں۔ 
وزارت خزانہ نے ریفارم ایکٹ کا دفاع بھی کیا ہے۔ یہ دفاع وہ کمیٹی میں اس وقت کیوں نہیں کر سکے جب وہاں انکشاف ہوا کہ جناب نواز شریف نے 1992ء میں قانون پاس کیا جس کے تحت آپ چاہیں تو دس ارب ڈالر بھی اپنے اکائونٹ میں ڈالیں اور دوسرے ملک میںجا کر نکلوا لیں۔ چلیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، لیکن پاکستانیوںکوکس خوشی میں یہ اجازت دی گئی تھی؟ یہ قانون آنے کے ایک سال کے اندر اندر نواز شریف کے بچوں مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز نے آف شورکمپنیاں بنا لی تھیں۔ اس قانون اور بیرون ملک ''شریف‘‘ بچوں کی آف شورکمپنیوں کے درمیان کیا تعلق بنتا ہے؟ کیا یہ قانون نواز شریف کے بچوںکو پاکستان سے سرمایہ باہر بھجوانے کے لیے لایا گیا تھا؟ اس قانون کے تحت پاکستان میں کتنی سرمایہ کاری آئی اورکتنے ڈالر دوبارہ اس کالے قانون کے تحت واپس گئے؟ اگر یہ اعداد و شمار پیش کیے جائیں تو شاید ہم اس قانون کے قائل ہوجائیں۔ ماشاء اللہ، اس قانون کو جنم لیے چوبیس برس ہوگئے ہیں، کہاں ہے بیرونی سرمایہ کاری؟ ملک تو اس وقت بیرونی قرضوں پر چل رہا ہے جنہیں چالاکی سے سرمایہ کاری دکھایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کالا قانون حکمرانوں نے اپنی غیرقانونی دولت بیرون ملک بھیجنے کے لیے متعارف کرایا تھا اور آج تک یہ کام آ رہا ہے۔ 
جہاں تک گردشی قرضوں کی بات ہے، یہ ادائیگی ایک دن میں کی گئی تھی اور یہ سب کچھ بھی سینٹ کی فنانس کمیٹی میں بتایا گیا تھا۔ سلیم مانڈوی والا نے تو وزارت خزانہ کا مذاق اڑایا تھا کہ کیسے اسحاق ڈار نے27 جون 2013ء کو ایک گھنٹے میں ادائیگی کرا دی تھی؛ حالانکہ آئین کے تحت ضروری تھا کہ 480 ارب روپے کے بل پہلے اکائونٹنٹ جنرل کو بھیجے جائیںگے جہاں انہیں چیک کیا جائے گا، پھر اکائونٹینٹ جنرل سٹیٹ بنک کو خط لکھے گا کہ اتنی رقم بھیجی جائے، اس کے بعد اکائونٹینٹ جنرل کے دستخطوں سے چیک جاری ہوںگے۔ لیکن اس ضابطہ کار کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا اور براہ راست گورنر سٹیٹ بینک کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئی پی پیزکو فوراً ادائیگی کر دیں اور یہ کر دی گئی۔کیوں اکائونٹینٹ جنرل سے بل کنفرم نہیں کرائے گئے؟کیا وزارت خزانہ پارلیمنٹ کا درجہ اختیارکر چکی ہے؟ اس سے بڑا جرم قانون کے نام پرکیا گیا، جب منی بل میں ایک شق ڈالی گئی کہ اب جب بھی اربوں روپے کی ادائیگی کرائی جائے گی، بلوں کی کنفرمیشن اکائونٹینٹ جنرل سے کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ اختیارات تو مغل بادشاہوں کے پاس بھی نہیں تھے۔ ان کے بھی دیوان اور منشی ہوتے تھے جو حساب کتاب کرنے کے بعد ادائیگی کرتے تھے۔ وزارت خزانہ نے یہ اختیارات اکائونٹنٹ جنرل سے لے کر اپنے پاس رکھ لیے اورکوئی پوچھنے والا نہیں۔
گردشی قرضوں کا آڈٹ اختر بلند رانا نے کرایا تھا۔ یہ ایک آئینی ادارہ ہے، تھرڈ پارٹی آڈٹ کی کیا حیثیت ہے جسے آپ پیسے دے کر کلین چٹ لے سکتے ہیں۔گردشی قرضوں میں 190 ارب روپے کے گھپلے کسی اخبار نویس یا کالم نگار کے ذہن کی اختراع نہیں۔ اپوزیشن نے بھی شور مچایا تھا، اس لیے تو سینیٹ کمیٹی میں اس ادائیگی کو ایجنڈے پر لایا گیا تھا جہاں اسٹیٹ بینک کے افسران نے سارا الزام وقار مسعود اور اسحاق ڈار پر ڈالا کہ انہوں نے بل کنفرم کرائے بغیر ادائیگی کے لئے ان پر دبائو ڈالا تھا۔ 
وقار مسعود جانتے ہیں کہ وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ ان پر کبھی نہ کبھی 480 ارب روپے کی ادائیگی ایک گھنٹے میں کرانے کا ریفرنس بنے گا، جیسے اُس وقت بنا تھا جب وہ زرداری صاحب کے ساتھ تھے اورکافی عرصہ ان کے ساتھ جیل میں بھی گزارا تھا۔ اس وضاحت میں ایک اور جھوٹ بولا گیا کہ 2014-15 ء میں وزارت خزانہ قانونی طور پر گردشی قرضوںکی براہ راست ادائیگی کر سکتی تھی، پری آڈٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بھول گئے کہ ہم 27 جون 2013ء کو341 ارب روپے ادائیگی کی بات کر رہے ہیں جب ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ 
اور سنیں، مان رہے ہیں کہ 32 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی کی تھی، لیکن الزام میرے سر دھر رہے ہیںکہ مجھے معاملے کی سمجھ نہیں آئی۔فرماتے ہیں، 22 ارب روپے کا جرمانہ جو آئی پیز نے ادا کرنا تھا اس کا معاملہ ابھی چل رہا ہے۔ ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ آپ کسی کو اپنے اوپر لگائے گئے جرمانے کے 32 ارب روپے ادا کر رہے ہوں اور اس نے آپ کو 22 ارب روپے جرمانہ ادا کرنا ہو توآپ کو کیا کرنا چاہیے؟ آپ کواس کے 32 ارب روپے ادا کر دینے چاہئیں یا پہلے اپنے 22 ارب روپے منہاکرکے باقی 10ارب روپے ادا کرنے چاہئیں؟ ذہین سرکاری زکوٹا جنوںکو داد دیں، 32 ارب روپے ادا کر دیے اورفرماتے ہیں ان سے اپنا 22 ارب روپے کا جرمانہ طلب کر رہے ہیں۔ یہ بات آڈیٹر جنرل نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھی تھی کہ 32 ارب روپے جرمانہ ادا کیا گیا لیکن اپنا 22 ارب روپے معاف کر دیا گیا۔کس کس زکوٹا جن نے 32 ارب روپے کے جرمانے کی ادائیگی میںکتنا کتنا مال بنایا تھا؟ یہ راز جلد یا بدیر کھل کر رہے گا، سب کو پتا ہے کس نے کیا کھایا!
جہاں تک پی اے سی کی بلند اختر رانا کے خلاف انکوائری کا تعلق ہے، رانا نے خورشید شاہ کے سامنے یہ کہہ کر پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ خود کرپٹ ہیں۔ ان کی بات اس وقت درست نکلی جب خورشید شاہ کا سکینڈل پی اے سی میں پیش ہوا۔ پیپلز پارٹی دور حکومت کے بارے میں رپورٹس کرپشن سے بھری پڑی ہیں۔ خورشید شاہ کی اپنی وزارت میں کرپشن ہوئی، وہ کیسے ان فیصلہ کر سکتے ہیں۔ رانا پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے چند ہزار روپے اپنی تنخواہ بڑھائی۔ اگرالیکشن کمشن کے ممبران کی تنخواہ وقار مسعود پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر طے کر سکتے ہیں تو آڈیٹر جنرل کیوں نہیں؟ جہاں تک جوڈیشل ریفرنس کا تعلق ہے، سب کو علم ہے کہ درجنوں ایسے ریفرنس سپریم کورٹ پڑے ہیں، لیکن یہ واحد ریفرنس تھا جس پر فوراً فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس کی وجہ سب جانتے ہیں، اتنے کم وقت میں انصاف کیونکر ہوا۔ ایسی تیزی اگر دیگر کے خلاف ریفرنسز میں بھی دکھائی جاتی تو آج پاکستان جنت بن چکا ہوتا۔ ہم سب جانتے ہیں، جہاں اربوں کاکھیل ہو وہاں انصاف کس کو ملتا ہے! 
بلند اختر رانا اپنے خلاف الزامات کا خود جواب دے سکتے ہیں۔ ویسے وزارت خزانہ نے ان پر جو الزامات لگائے، ایف آئی اے انہیں کلیئرکر چکی ہے۔ وزارت خزانہ کے قابل افسران کو علم ہونا چاہیے کہ سرکاری افسران پر بیرون ملک شہریت کی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ پابندی پارلیمنٹیرینزکے لیے ہے۔ یہ سب انتقامی کارروائی تھی۔
جہاں تک رانا اسد امین کی بات ہے تو موصوف وزارت خزانہ میں ہی ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے تھے۔ انہیں اٹھا کرآڈیٹر جنرل لگا دیا گیا۔ وزارت خزانہ آخر خاموش کیوں ہے؟
یہ بھی تاریخی کام ہوا کہ جس آڈیٹر جنرل پر ان کے اپنے آڈیٹرز نے ثبوتوں کے ساتھ کرپشن کا الزام لگایا اسی کو اسحاق ڈار نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان لگا دیا گیا۔ میں نے یونہی تو اپنے کالموں کی سیریز کا عنوان ''ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے‘‘ نہیں رکھا تھا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved