تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     08-05-2016

اب یہ ’’نیا لندن‘‘ ہے

یارانِ نکتہ داں بھی کیا کیا نکتے اُٹھاتے ہیں، ''لندن میں تبدیلی آ گئی۔ اب یہ ''نیا لندن‘‘ہے لیکن اپنے خان صاحب کا وزن مخالف پلڑے میں تھا‘‘۔ ان دو تین دنوں میں ''پانامہ‘‘ کے علاوہ‘ لندن کے میئر کا الیکشن بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ کہاوت عام ہے، کبھی دنیا میں برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب بچی کھچی برطانوی ریاست پر سورج طلوع نہیں ہوتا‘ (اشارہ وہاں کے موسم کی طرف بھی ہے اور ''کٹ ٹو سائز‘‘ ہوئے برطانیہ کی طرف بھی) برطانوی استعمار کے دنوں میں برصغیر (متحدہ ہندوستان) بھی اس کے مقبوضات شمار ہوتا تھا۔ پھر آزادی کی تحریکیں چلیں‘ اور گوروں نے بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا۔ اس میں اہم حصہ جنگِ عظیم دوئم کا بھی تھا‘ جس میں اگرچہ برطانیہ اور اس کے اتحادی جیت گئے لیکن ہٹلر کے لگائے ہوئے زخموں سے ان کے جسم لہولہان تھے۔ وہ جو پنجابی کا محاورہ ہے، جس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ بڑی دیگ کی کھُرچن بھی بہت ہوتی ہے۔ برطانیہ آج بھی یورپ کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، عالمی سیاست میں اگرچہ اس کی حیثیت امریکی پٹھو کی ہو کر رہ گئی ہے۔ بُش جونیئر کے دور میں ٹونی بلیئر کو بُش کا Poodle کہا جانے لگا۔ لندن آج بھی مغربی سیاست کا اہم ترین اعصابی مرکز شمار ہوتا ہے‘ جس سے اُٹھنے والی لہریں ایک دنیا کو متاثر کرتی ہیں۔
1960ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستانیوں نے برطانیہ کا رخ کرنا شروع کیا۔ تب ان کی بڑی تعداد محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی تھی‘ جنہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت سے وہاں کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی میں اہم مقام بنا لیا۔ پھر وہاں کی سیاست میں بھی حصہ لینے لگے اور یہاں بھی اپنی پوزیشن بنا لی۔ ان ابتدائی لوگوں میں دارالعوام (ہائوس آف کامنز) کے رکن چودھری محمد سرور اور دارالامرا (ہائوس آف لارڈز) کے رکن لارڈ نذیر احمد تھے۔ پھر اس فہرست میں سعیدہ وارثی بھی شامل ہو گئیں‘ جو کنزرویٹو حکومت میں کیبنٹ ممبر کے علاوہ پارٹی سربراہ بھی رہیں۔ صادق خان نے کوچہء سیاست کا رخ کیا تو وہ بھی آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ ان کے والد امان اللہ خان قسمت آزمائی کے لئے کراچی سے لندن پہنچے‘ اور بس ڈرائیونگ کو پیشہ بنایا۔ صادق کی والدہ کڑھائی سلائی کے ذریعے گھر کا بوجھ اُٹھانے میں شوہر کی مددگار ہوئیں۔ کونسل کی جانب سے فراہم کردہ فلیٹ سر چھپانے کا ٹھکانہ تھا۔ 
کونسلر کے طور پر سیاست کا آغاز کرنے والے صادق خان اب لیبر پارٹی کی طرف سے لندن کی میئرشپ کے امیدوار تھے، برطانیہ کا دارالحکومت اور دنیا کے اہم ترین معاشی، ثقافتی اور تعلیمی مراکز میں ایک، جہاں ہر سال ایک کروڑ ستر لاکھ سیاح آتے ہیں۔ میئرشپ کے الیکشن میں صادق خان کے اہم ترین حریف، کنزرویٹو پارٹی کے 41 سالہ زیک گولڈسمتھ تھے‘ جن کی فیملی یورپ کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتی ہے۔ زیک ہمارے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما کے بھائی ہوتے ہیں۔ عمران خان کرکٹ کیریئر کے ابتدائی برسوں میں ہی مقبول ہو گیا تھا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ نے اسے مقبولیت کی عروج پر پہنچا دیا۔ آکسفورڈکے فارغ التحصیل پاکستانی کرکٹر کو ولایتی گوروں (اور گوریوں) میں بھی مقبول ہونے میں دیر نہ لگی۔ پھر وہ یہاں کی ''ایلیٹ‘‘ میں شمار ہونے لگا‘ اب وہ یہاں کی کلب لائف کا بھی اہم حصہ بن گیا تھا۔ ورلڈ کپ کی جیت کے بعد اس نے کرکٹ سے ریٹائر ہو کر تمام تر توجہ اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال کی تعمیر پر مرکوز کر دی تھی۔ تین سال بعد جمائما اس کی زندگی میں آئی‘ اور 16 مئی 1995ء کو وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے یہ شادی 9 جون 2004ء کو اختتام کو پہنچی۔ تب وہ دو بیٹوں سلیمان اور قاسم کے والدین تھے۔ پروین شاکر نے کہا تھا: ؎
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا 
میں نے تو صرف بات کی، اس نے کمال کر دیا 
یہاں یہ کمال جمائما نے کیا تھا، لیکن دونوں طرف سے وقار اور شائستگی کے ساتھ۔ بچے ماں کے ساتھ لندن چلے گئے، اس اتفاق رائے کے ساتھ کہ وہ چھٹیوں میں پاکستان آتے رہیں گے، عمران لندن جائے گا تو انہی کے ساتھ قیام کرے گا۔ بچوں کی نانی اینابل سمتھ کے ہاں سابق داماد کے لئے اپنائیت کا وہی جذبہ تھا۔ عمران اور جمائما اب اچھے دوست تھے۔ جمائما 11 فروری 2008ء کو ''انڈیپنڈنٹ‘‘ کے لئے پرویز مشرف کا انٹرویو کرنے آئی‘ تو اسلام آباد ایئرپورٹ پر عمران خان اس کے خیر مقدم کے لئے موجود تھا۔ 
اب لندن کی میئرشپ کے الیکشن میں بھی خان کی ہمدردیاں اپنے بچوں کے ماموں کے ساتھ تھیں۔ 18 سالہ سلیمان خان تو الیکشن کیمپین میں بہت سرگرم تھا۔ ایک پاکستانی ٹی وی چینل سے انٹر ویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی نثراد مسلمان صادق خان کے مقابلے میں وہ زیک کی حمایت محض جمائما کا بھائی ہونے کے ناتے نہیں کر رہا‘ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ زیک اس عہدے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ اور یہ بھی کہ برسوں پہلے اسی کے مشورے پر زیک سیاست میں آیا تھا۔ خان کے اس فیصلے نے لندن میں مقیم پی ٹی آئی کے وابستگان کو بھی مشکل میں ڈال دیا تھا‘ جو صادق خان کی حمایت کر رہے تھے۔ رائے عامہ کی سروے رپورٹس میں صادق خان کی برتری واضح تھی‘ جس پر 41 سالہ زیک ناروا حملوں پر اُتر آیا تھا، وہ جو انگریزی میں Below the belt کہتے ہیں۔ لندن دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا خوبصورت گلدستہ ہے۔ یہ تنوع اور رنگا رنگی لندن کا حسن ہے، زیک جسے تباہ کرنے پر اُتر آیا تھا۔ وہ اپنے سیاسی حریف کے پاکستانی نژاد اور مسلمان ہونے کو ایکسپلائٹ کر رہا تھا‘ جس کی کامیابی، بقول اس کے، لندن پر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے دوستوں کی کامیابی ہوتی۔ لندن کے 85 لاکھ ووٹرز میں پاکستانیوں کی تعداد 223,000 اور انڈین کی تعداد 542,000 ہے ( یہ سب ہندو نہیں، ان میں مسلمان اور سکھ بھی ہیں) دلچسپ بات یہ کہ کنزرویٹو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی زیک کی لَے کو آگے بڑھا رہا تھا‘ جبکہ اسی پارٹی کی سعیدہ وارثی اور اینڈریوباف جیسے لوگ حیران اور پریشان تھے کہ زیک کس راہ پر چل نکلا ہے، کیا زبان استعمال کر رہا ہے۔ سعیدہ وارثی چیخ اُٹھی، یہ وہ زیک تو نہیں جسے میں جانتی تھی۔ اینڈریو باف اسے انگلستان میں ہم آہنگی اور یک جہتی کے ان پُلوں کو توڑنے کے مترادف قرار دے رہا تھا جو کئی عشروں میں تعمیر ہوئے تھے۔ 
پاکستان میں عمران خان کے سیاسی حریف، خصوصاً مسلم لیگ (ن)‘ خان کی طرف سے زیک کی حمایت کو اس کے خلاف استعمال نہیں کر رہے تھے۔ ایک مولانا فضل الرحمان تھے جنہوں نے اسے عمران خان کے خلاف پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کا موقع جانا۔ وہ اس کے لئے زیک کے بینرز پر لکھے ان الفاظ کا بطورِ خاص حوالہ دیتے، ''کنزرویٹو فرینڈ آف اسرائیل‘‘۔
پھر امیر کبیر زیک گولڈسمتھ کے مقابلے میں بس ڈرائیور کے بیٹے، پاکستانی نثراد مسلمان صادق خان کی کامیابی لندن ہی نہیں، پورے یورپ کی سیاسی تاریخ کا نیا باب بن گئی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved