غالبؔ: کائنات میں انسان کا مقام
ڈاکٹر مبشر حسن کی تصنیف ہے جسے بابر علی فائونڈیشن نے چھاپا اور قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر خزانہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ کتاب پر توصیفی رائے دینے والے محمد حنیف رامے‘ آئی اے رحمن اور سید بابر علی ہیں۔ شروع میں غالب کی آخری اور ان کے جائے ولادت کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ غالب کی شاعری کو انہوں نے ایک نئے اور اپنے ہی نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں زیادہ تر غالب کے بعض اشعار کی شرح و تفسیر بیان کی گئی ہے۔ پیش لفظ مولف کا خود نوشت، گٹ اپ عمدہ ہے۔
پنجاب‘ پنجابی اور پنجابیت
عالمی شہرت کے دانشور ادیب اور شاعر فخر زمان کی تازہ ترین تخلیق ہے جسے کلاسک نے چھاپا اور قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے۔ دیباچہ پنجابی کے ممتاز شاعر‘ صحافی اور ہمارے گم شدہ دوست احمد سلیم کا تحریر کردہ ہے جس میں پوری تفصیل سے اس یادگار اور تاریخی دستاویز کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کا انتساب بے زبان پنجابیوں کے نام ہے جبکہ اپنی بات کے عنوان سے امجد علی بھٹی نے اس کتاب کی تیاری کا احوال بیان کیا ہے اور جس میں مصنف کے تفصیلی انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ حنیف رامے نے تو پنجاب کا مقدمہ لڑا تھا لیکن فخر زمان نے پنجابی اور پنجابیت کا بھی۔
ملاقاتیں کیا کیا
ممتاز اور سینئر صحافی الطاف حسن قریشی کی طرف سے کئے گئے عصر کی ممتاز شخصیات سے لیے گئے انٹرویوز کا مجموعہ ہے جسے جمہوری پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 1490 روپے رکھی ہے۔ مذکورہ شخصیات میں جسٹس ایس اے رحمن‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن‘ شاہ فیصل‘ سلیمان ڈیمرل‘ چیف جسٹس اے آر کارنیلیسن‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ اے کے بروہی‘ غلام رسول مہر‘ مولوی تمیز الدین خاں‘ پروفیسر حمید احمد خان‘ چودھری محمد علی‘ جسٹس حمود الرحمن‘ قدرت اللہ شہاب اور ایئر مارشل اصغر خاں نمایاں ہیں۔ دلکش طرز تحریر کے ساتھ یہ کتاب گویا پاکستان کی تاریخ بھی ہے۔
فیس بُک
مشہور ناول نگار اور ادیب عرفان احمد خان کے لکھے گئے مختلف ادیبوں کے خاکے ہیں جو زیادہ تر اڑائے گئے ہیں۔ جن میں مستنصر حسین تارڑ‘ عطاء الحق قاسمی‘ فقیر حسین ساگا‘ عمران خاں‘ آزاد مہدی‘ سیف اللہ خالد‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ‘ مرزا عظیم بیگ چغتائی‘ میر تقی میرؔ‘ جماعت اسلامی‘ خشونت سنگھ‘ سیلف پورٹریٹ‘ اسلام کے مامے‘ لاہور شہر وغیرہ شامل ہیں۔ شروع میں طنز و مزاح کے عنوان سے علی عباس جلالپوری کا مضمون شامل کیا گیا ہے۔ کئی خاکوں میں شائستگی اور متانت کا خیال نہیں رکھا جو کہ قابل افسوس ہے‘ لیکن یہ مصنف کا سٹائل ہے اور مجبوری‘ کتاب کے دلچسپ ہونے میں کوئی شک نہیں۔
مآخذ
یہ نوجوان شاعر دلاور علی آذر کا مجموعہ غزل ہے جو رُومیل ہائوس آف پبلی کیشنز راولپنڈی نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے۔ پس سرورق درج خاکسار کی رائے کے مطابق اس کی شاعری سے گزرتے ہوئے جدید اردو غزل پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ہے۔ اسے نسبتاً بڑی تقطیع پر نہایت عمدہ گٹ اپ میں شائع کیا گیا ہے۔ اندرون سرورق ہمارے باکمال شاعر محمد اظہار الحق کے قلم سے ہے‘ دیباچہ طارق ہاشمی نے لکھا ہے جو شعبہ اُردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ہیں۔ انتساب ثریا فرمان کے نام ہے۔ آخر میں گوپی چند نارنگ‘ احسان اکبر‘ جلیل عالی‘ سرور جاوید‘ فیصل عجمی‘ منصور آفاق و دیگران کی آراء۔
جدید غزل کا باب ظفر
اسے طارق ہاشمی نے ترتیب دیا ہے جس میں ہمارے سینئر اور ممتاز شاعر صابر ظفر کی غزل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسے رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے شائع کر کے قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ درآئینہ سخن کے عنوان سے پیش لفظ درج ہے جبکہ کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پس سرورق طاہر نظامی کے قلم سے ہے جس میں طارق ہاشمی کو نقاد کے طور پر سراہا گیا ہے۔ اس کے بعد صابر ظفر کے مجموعوں سے منتخب غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ نیز شاعر نے اپنی غزل گوئی میں جو مختلف تجربات کئے ہیں ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ خوبصورت گٹ اپ کے ساتھ سمارٹ کتاب ہے۔ ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔
یادوں کے آہٹ
ہماری سب سے چھوٹی بہو فرح مقبول جو اب فرح جنید ہیں‘ کی نظموں کا پہلا اور آخری مجموعہ ہے۔ زیر نظر نسخہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو کتاب نگر ملتان نے چھاپا اور اس کی قیمت 70 روپے رکھی گئی جو کہ 1995ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ کتاب کا انتساب معاشرے کے دکھوں کے نام ہے۔ پس سرورق نہایت عمدہ شاعر جاوید شاہین (مرحوم) کا تحریر کردہ ہے جس کے مطابق ان نظموں کے موضوعات بڑے عام اور سادہ ہیں جو روزمرہ کے رشتوں سے جنم لیتے ہیں اور سب سے عجیب اور عمدہ بات یہ ہے کہ یہ نثری نظمیں ہیں حالانکہ اس زمانے میں نثری نظم بس خال خال اور کہیں کہیں ہی لکھی جا رہی تھی۔
نائن الیون : حقیقت سے اُردو افسانے تک
اس کتاب کے مصنف محمد ساجد ہیں اور جو ادارہ نوید سحر کاہنہ نو نے چھاپی اور قیمت 150 روپے رکھی ہے۔ یہ ایک تحقیقی کتاب ہے جو نائن الیون کے سانحہ کے تناظر میں لکھی گئی ہے جو مختلف حلقوں میں زیر بحث رہی ہے اور جس میں مصنف نے دنیا کی سیاست میں تہلکہ مچا دینے والے اس واقعے کی تفتیش اپنے طور پر کی ہے اور اپنے نتائج اخذ کئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سانحے میں خود امریکی حکومت کے ملوث ہونے کی شہادتیں بھی پیش کی جاتی رہی ہیں جس نے اسے انتہائی طور پر متنازعہ بنا دیا ہے۔ آپ ایک بیسٹ ایتھلیٹ اور عمدہ فٹ بالر بھی ہیں۔ دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے۔
لاہور کا ادبی منظرنامہ
ممتاز نوجوان ادیب غافر شہزاد سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق 2013-14ء کی طرف سے پاک ٹی ہائوس میں ہونے والے ہفتہ وار اجلاسوں کی روداد ہے جو حلقے کے حوالے سے اپنی نوعیت کا شاید یہ پہلا کام ہے جس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے اور جس میں کم و پیش ہر اجلاس کے اہم شرکاء کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جبکہ ٹائٹل کو بھی ان اجلاسوں میں حصہ لینے والے ادیبوں کی تصاویر ہی سے سجایا گیا ہے۔ اسے الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور نے شائع کیا اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ ابتدائیہ کے عنوان سے مولف نے کتاب ہذا کا دیباچہ تحریر کیا ہے۔
آج کا مطلع
اہل دنیا سہی ‘ دنیا میں نہیں رہ سکتا
پانی ایسا ہوں کہ دریا میں نہیں رہ سکتا