تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-05-2016

سٹریٹ جسٹس

قانون کی دنیا کا سب سے معروف نظریہ (Theory of detterence) کہلاتا ہے‘ جس کا سادہ مطلب ہے قانون کی قوتِ نافذہ کا خوف۔
یورپ نے اسی تھیوری کے ذریعے جنگل کے قانون سے آج کی ویلفیئر ریاست تک کا سفر طے کیا۔ ہماری بات دوسری ہے، اور سب سے بڑی بدبختی بھی۔ امریکی صدر ہو یا برطانوی وزیر اعظم‘ سب عام شہری کی طرح قانون کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔ شراب نوشی کی عمر سے پہلے شراب پینے کے جرم میں پہلے کی بیٹی‘ اور دوسرے کا بیٹا جیل گئے۔ یہ اسی عشرے اور ہمارے سامنے کی بات ہے، کسی پچھلی صدی کا قصہ نہیں۔ برطانیہ کے سابق یا موجودہ وزیر اعظم کے لئے کوئی سکیورٹی حصار نہیں ہوتا۔ کئی زندہ امریکی صدر اس وقت بھی موجود ہیں۔ چند ماہ بعد ان میں صدر اوباما کا اضافہ ہو جائے گا۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدور کی یہ بٹالین بھی ایسے پروٹوکول کا خواب تک نہیں دیکھ سکتی‘ جیسا مسلم ممالک کے صدر، وزیر اعظم اور بادشاہ ایک طرف‘ ان کے باورچی، زلف تراش اور مالشیے لے کر چلتے ہیں۔
اس ہفتے مجھے اسلام آباد بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسویسی ایشن اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے مشترکہ اجتماع میں نئے وکلا میں وکالت کے لائسنس اور سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب کی صدارت کے لئے بلایا گیا‘ جہاں اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قاضی بابر، ججز تعیناتی کے جوڈیشل کمیشن کے رکن اور میرے شاگرد واجد گیلانی، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر طارق جہانگیری، ڈسٹرکٹ بار اسلام آباد کے صدر سید طیب شاہ‘ اور بار کونسل کی ضابطہ جاتی کمیٹی کے چیئرمین جاوید شورش کے اظہار خیال کے بعد میں نے وکالتی آداب پر 30 منٹ گفتگو کی۔ نوجوان وکیلوں سے کہا: تم میں کئی جج بیٹھے ہیں‘ بہت سے پراسیکیوٹر غالباً چیف جسٹس بھی‘ آنے والا کل تمہارا ہے۔ یہ بھی کہا: آپ جانتے ہیں‘ انصاف کے ساتھ ساتھ، سب سے بڑی ناانصافیاں بھی کچہری میں ہی ہوتی ہیں۔ فرضی نکاح نامہ، پچھلی تاریخ کا اشٹام پیپر، جعلی بیع نامہ، دھوکہ دہی پر مبنی اقرار نامہ، پیشہ ور ضمانتی اور وہ سارا کچھ‘ جس کی عدل اور قانون کے ایوانوں میں جج اور وکیل ہر روز مذمت کرتے ہیں۔ عزت کمانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کام نہ کیے جائیں‘ جن سے عزت خراب ہو۔ ایک نوجوان خاتون وکیل کے سوال کے جواب میں کہا: ہم ساری زندگی اپنا تعارف نامہ (C.V) تحریر کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا ہر نیا دن ہماری سی وی میں اضافہ کرتا ہے۔ پھر میں نے بار کونسل کے ہال میں بیٹھے سینکڑوں خواتین و حضرات سے سوال کیا: کیا آپ نہیں جانتے آپ کی کچہری میں کس کا تعارف کیا ہے؟ سب نے بلند آواز میں جواب دیا: خوب جانتے ہیں۔ عرض کیا: یہ تعارف اس کو نظر نہیں آتا جو حرص اور ہوس کی دوڑ میں شریک ہو‘ لیکن قوم، وقت اور قدرت اس تعارف نامے کو اپنے مجرم کی پشت پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ وہ جہاں سے بھی گزرتا ہے اس کا تعارف اس کے مستقل تعاقب میں رہتا ہے۔ آج کی دنیا کے ظلِ الٰہی، بادشاہ، وزیر اعظم اور صدر ہمارا ایسا ہی تعارف ہیں‘ جو ہر جگہ ہمارے تعاقب میں ہے۔ اس کی تازہ قسط پانامہ لیکس کی صورت میں جاری ہوئی۔
اگلے روز اے پی ایس پشاور کے شہدا کے والدین نے مجھ سے ملاقات کی۔ اس گروپ میں شہید سٹوڈنٹس کی مائیں بھی شامل تھیں‘ اس بات پر نالاں کہ حکومت اور سیاستدان نہ ہمیں سنتے ہیں نہ ہم سے ملاقات کی زحمت گوارا کرتے ہیں‘ مشکلات دور کرنا تو بعد کی بات ہے۔ ان خواتین کے آنسو پتھر کا کلیجہ چیرنے کے لئے بھی کافی ہیں‘ لیکن شاید جنگلہ اور سریا پتھر سے زیادہ سخت دل نکلے۔ جس ملک کے سربراہ نے اپنے بچوں کی ''معاشی کارکردگی‘‘ چھپانے کے لئے پوری قوم کے وسائل جھونک رکھے ہوں‘ اس کے پاس شہیدوں کے مزاروں پر اذان دینے کا وقت کہاں سے آئے؟
عوام کو کوئی شک باقی نہیں‘ ان کے لئے انصاف کے سارے دروازے بند ہیں‘ اور انصاف کا ریٹ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے پلاٹوں جیسا‘ جس کو سن کر دنیا کے امیر ترین لوگوں کو بھی ٹھنڈا پسینہ آئے۔ ہر نظام کی ناکامی کا ایک قدرتی نتیجہ بھی ہے۔ یہی کہ لوگ اس کے متبادل تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہی متبادل سٹریٹ جسٹس بن کر سامنے آ رہا ہے۔ اس کی وجہ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کے بقول ہمارا لولا، لنگڑا، معذور نظام ہے۔ لولا اس لئے کہ اس کی پولیس کے ہر ایس ایچ او، ڈی پی او، آر پی او کا رشتہ کسی نہ کسی سیاسی خاندان سے ہے۔ بھائی ایم پی اے، بہن بیوروکریٹ کی بیگم، سالا آر پی او اور داماد منصف ہو تو عام آدمی زنجیر عدل سے لٹک کر خود کشی تو کر سکتا ہے‘ انصاف کی تمنا نہیں۔ لنگڑا یوں کہ اس نظام میں سب سے غریب صوبے کا سیکرٹری خزانہ کروڑوں روپے، ڈھیروں ڈالر، تھیلے بھرے ہوئے ریال اور سونے کے بیگ چارپائی کے نیچے نہ رکھے تو نیند نہیں آتی‘ جس کو وطن پرستی کا نعرہ لگا کر ووٹ لینے والے وزیر اعلیٰ نے لگایا‘ خزانے کی وزارت اپنے پاس رکھی اور خزانے کی رکھوالی پر اپنی پارٹی کا مشیر برائے وزیر اعلیٰ بٹھا دیا۔
اسی لنگڑے نظام کا یہی سیکرٹری بلوچستان کے کچے گھرندوں میں رہنے والے غریبوں کے لئے 2 بجٹ بنا چکا ہے۔ تیسرے بجٹ کی تیاری کے دوران ہی قانون نے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ اگر نظام لنگڑا نہ ہوا‘ تو فرنٹ مین کے بعد بڑے سہولت کار بھی پکڑے جائیں گے۔
کوئٹہ لیکس عالمی سطح پر اس صدی کی بڑی وارداتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے پہلے فلپائن کے ڈکٹیٹر فرڈینینڈ مارکوس کی بیوی امیلڈا مارکوس کے کپڑوں اور جوتوں کا اسی نوعیت کاخزانہ پکڑا گیا تھا۔ بلوچستان کے لوگوں کے لئے دو حوالوں سے یہ بہت تاریخی کیس ہے۔ پہلا: انہیں پتا چل گیا بلوچستانیوں کو غریب اور پسماندہ رکھنے کا ذمہ دار کون ہے۔ دوسرا یہ کہ‘ کیا کبھی بلوچستان کے خزانے کو لوٹ کر سیاسی نعرہ بازی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب نے اس نظام کو درست طور پر معذور بھی کہا‘ جس نظام میں احتساب کا ذکر آتے ہی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے۔ چوروں اور راہزنوں کی بارات قیادت کی دعویدار ہو۔ خزانے پر چور بازاری اور منی لانڈنگ کے بادشاہ بیٹھے ہوں۔ 3 ہفتوں سے فاٹا کے ہزاروں معزز اساتذہ 46 اور 44 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں شامیانے کے بغیر شاہراہ دستور پر احتجاج کر رہے ہوں۔ نہ پارلیمنٹ بولے، نہ حکومت توجہ دے۔ جس ملک کا سربراہ چارسدہ یونیورسٹی کے شہید بچوں کے والدین سے تعزیت تک نہ کرے‘ اور سربراہِ حکومت قومی وسائل کو سگریٹ کی طرح سلگا کر اپنے بچوں کے دفاع کے لئے تقریریںکرتا پھرے‘ وہ نظام یقیناً معذور ہے، بلکہ ریاست قابلِ رحم بھی‘ جو اپنی ملکیتی زمین سرکاری سرپرستی میں چلنے والے لینڈ مافیاز سے نہ چھڑوا سکے۔ جس ملک میں ذاتی، شخصی، خاندانی کاروبار، کاروبارِ سلطنت کی آڑ میں ترقی کرے‘ اس نظام کو چیف جسٹس صاحب نے معذور کہہ کر بہت نرم لفظ استعمال کیا۔
یورپ کی ایک سپریم کورٹ نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے فیصلے پر مبنی فیصلہ دیا: ''جس ملک میں غربت اور بے روزگاری ہو وہاں روٹی چوری کرنا جرم نہیں‘‘۔ یہاں دھاندلی کو ''ھٰذا من فضل ربی‘‘ اور منی لانڈرنگ کو خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔ ایسی دھرتی کے مظلوم لوگ کب تک انصاف کے اونچے مندروں کی طرف دیکھتے رہیں گے؟
میں سٹریٹ جسٹس اور ماورائے عدالت کا ہمیشہ سے کھلا مخالف ہوں‘ لیکن ان لوگوں کو کون پوچھے گا‘ جو پبلک کو سٹریٹ جسٹس کی طرف دھکیل کر قانون، انصاف اور عدل کے سارے راستوں پر اونچی دیواریں بنا چکے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved