تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-05-2016

کتابی سلسلہ ’’اجمال‘‘ انور شعور اور جون ایلیا

کراچی سے فہیم اسلام انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والے کتابی سلسلے ''اجمال‘‘ کا تازہ شمارہ آ گیا ہے۔ نظم و نثر معمول کے مطابق ہے ‘البتہ ابتدائیہ میں کچھ شاعروں‘ ادیبوں اور فنکاروں کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتوں نے مزہ دیا جن میں سے انور شعور کے ایک انٹرویو کا تذکرہ بھی ہے جس میں اُن سے یہ باتیں منسوب کی گئی ہیں:
جوش تو شاعر ہی نہیں تھا۔ اس کے پاس لفظ تھے‘ لفظ کا شعور نہیں تھا۔
جون صاحب پر رونا آتا ہے۔ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ ایک کمزور شاعر تھے۔
رہی بات احمد فراز کی تو وہ بہت کمزور شاعر تھا۔
سلیم کوثر تو بچے ہیں‘ یہ تو شعراء میں ہیں ہی نہیں۔
میں پیشہ ور نقادوں کی نسبت شاعروں‘ ادیبوں کے بارے دی گئی شعراء کی باتوں کو زیادہ اہمیت دیا کرتا ہوں۔ دوسرے حضرات کے حوالے سے اپنے تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے میں جون ایلیا کے بارے میں انور شعور کی رائے کو خاصی حد تک درست سمجھتا ہوں۔ جون اتنا کمزور شاعر نہ بھی ہو تو اس کے ہاں بھرتی کے اشعار کی اس قدر بھرمار ہے کہ پریشانی بھی ہوتی ہے‘ مایوسی بھی اور شرمساری بھی۔ یاس یگا نہ چنگیزی کی طرح‘ اس کے لہجے میں جو تلخی تھی‘ وہی اس کا طرہّ امتیاز رہا‘ اگرچہ انور شعور ہی نے ایک جگہ کہہ رکھا ہے کہ شروع شروع میں یہ سٹائل ان کا تھا جو جون نے اُچک لیا!
غزل کی زمین کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کی کامیابی اور ناکامی اکثر اوقات اسی سبب سے ہوتی ہے‘ سو جون کے جو اشعار زیادہ مشہور ہوئے اور وہ غزلیں جن زمینوں میں کہی گئیں وہ جون کی اپنی نہیں تھیں۔ مثلاً ان کی غزل جس کا مشہور شعر ہے : ؎
تکتے رہتے ہو آسماں کی طرف
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
اسی زمین میں انجم رومانی بہت عرصہ پہلے غزل کہہ گئے تھے جس کا ایک شعر ہے ؎
دل سے اُٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا
جون کی ایک اور مشہور و مقبول غزل جس کا شعر ہے ؎
جن کو ڈالا تھا درمیاں دل نے 
لوگ وہ در میاں کے تھے ہی نہیں
کم و بیش اسی زمین میں اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ہے ؎
شیخ سے بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
ایک شاعر اپنے سینئرز سے بہت کچھ اخذ کرتا ہے اور اُسے اس کا حق بھی حاصل ہے لیکن اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے بلکہ اکثر اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی زمین میں غزل کہی جائے تو ساتھ اس کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
میں خود جون کے چاہنے اور ماننے والوں میں سے ہوں اور وہ بھی میری بہت قدر کیا کرتے تھے مثلاً کئی سال پیشتر جب دبئی میں ان کا جشن منایا جا رہا تھا تو فرمائش کر کے انہوں نے اپنی شاعری پر مجھ سے ایک مختصر مضمون بھی لکھوایا جو اسی دوران چھپنے والے بروشر میں شامل بھی ہوا تھا اور دبئی میں مجھے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ لاہور سے میں اور شہزاد احمد اس جشن میں شامل ہوئے تھے۔ اس بروشر کی کوئی کاپی اگر کسی کے پاس محفوظ ہو اور وہ مضمون اگر مجھے مل جائے تو میں اسے اپنے نثری مجموعہ ''لاتنقید‘‘ کے اگلے ایڈیشن میں شامل کر سکوں گا۔ زاہدہ حنا بھابی شاید اس سلسلے میں کچھ کر سکتی ہوں!
اس کے بعد ایک بار وہ لاہور بھی آئے تھے اور ہمارے شاعر دوست فیضی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے جن کی اطلاع پر میں جون سے ملنے بھی گیا تھا۔ فیضی نے بتایا تھا کہ جون یہاں اپنی دوسری شادی کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں جو نہ ہو سکی بلکہ کچھ عرصے کے بعد میرے ایک شعر کے مطابق یوں ہوا کہ ؎
موت کے ساتھ ہوئی ہے مری شادی سو ظفرؔ
عمر کے آخری لمحات میں دولہا ہوا میں
مجھے یاد ہے جون کی خاص اور دلچسپ صفات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مشاعرے کے دوران شعر سناتے ہوئے وہ زمین پر ہاتھ بہت زور سے مارا کرتے تھے۔ شاید اسی لیے ان کے قریب بیٹھنے سے ہر کوئی ڈرتا تھا۔ ہم عصر ہونے کی وجہ سے منیر نیازی کی بھی ان کے ساتھ بے تکلفی تھی اور انہوں نے ایک جگہ شرارتاً لکھا بھی کہ اس بار میں کراچی گیا تو جون سے ملنے اُس کے گھر چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر وہ اتنا خوش ہوا کہ درخت پر چڑھ گیا!
ہمارے دوست انور شعور کا شاعری میں ایک اپنا ذائقہ ہے اور ان کے یہ دو شعر میں کئی بار نقل کرنے کے علاوہ لوگوں کو سنا بھی چکا ہوں ؎
کبھی وہ آگ سے لگتے ہیں کبھی پانی سے
کب سے میں دیکھ رہا ہوں اُنہیں حیرانی سے
آدمی بن کے مرا آدمیوں میں رہنا
ایک الگ وضع ہے درویشی و سلطانی سے
لیکن پھر وہ اُم الخبائث کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کی غزل میں ہر تیسرا شعر یا تو شراب نوشی پر ہوتا ہے یا اس کی عدم دستیابی پر۔ جگر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
چند سال پہلے لاہور کے ایک مشاعرے میں اس سے ملاقات ہوئی تھی اور ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے بتایا تھا کہ میں اپنا تازہ مجموعہ آپ کے لیے لایا ہوں۔ لیکن اس گہما گہمی اور افراتفری میں کتاب دینے اور لینے کا موقع ہی نہ ملا۔
شراب کے علاوہ روزانہ کی قطعہ نویسی نے بھی شعور کو مارا ہو تو کوئی عجیب نہیں۔ اب پتا چلا ہے کہ موصوف کا کلیات بھی شائع ہو گیا ہے اور غالباً ہمارے دوست شاعر علی شاعر ہی نے اپنے ادارے سے چھاپا ہے۔ دونوں کو مبارک ہو‘ کتاب کا انتظار رہے گا!
ہم دونوں ''سویرا‘‘ میں اکٹھے چھپنا شروع ہوئے تھے اور پھر چل سو چل ع
غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں
آج کا مطلع
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دنیا میں رہتا ہوں
مگرمچھ سے نہیں بنتی مگر دریا میں رہتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved