'' یہاں سے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے سے پہلے دونوں ٹانگوں سے معزور‘ تین سالوں سے بستر پر پڑے ہوئے میرے باپ کے علاج اور گھر بھر کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندو بست کر دیں۔ اگر آپ مجھے یہاں کام نہیں کرنے دیں گے تو بتائیں پھر یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟ میرے گھر میں کوئی اور کمانے والا نہیں۔ خادم اعلیٰ کی جانب سے حال ہی میںبنائے گئے قانون کے تحت مجھے سکول بھیجنے اور میرے گھر والوں کیلئے دو وقت کی روٹی کی اجرت دینے والے بھٹہ مالک کو گرفتار کرنے کیلئے اپنی پولیس بھی بھیج دی ہے‘ لیکن صوبے کے حاکم کا کیا یہ فرض نہیں کہ ایک خاندان کو جیتے جی مارنے سے پہلے یہ تو پتہ کرے کہ وہ کس حال میں ہے ؟اس خاندان کا پانچویں جماعت میں پڑھنے والا بچہ اپنا بستہ اور تختی چھوڑ کر یہاں کام کرنے پر کیوں مجبورہوا؟ مجھے سکول بھیجتے ہوئے میرے باپ کو دوہزار روپے دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ دو ہزار روپے میرے گھر میں سارا سال چلیں گے؟ میرے ٹوٹے پھوٹے چھوٹے سے گھر کی بجلی کا بل کبھی پانچ سو یا ایک ہزار کم نہیں آتا ‘میرا باپ تین سال سے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی نا اہلیوں کی وجہ سے معذور ہو چکا ہے ‘درد سے اس کا ہر وقت برا حال رہتا ہے‘ وہ ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہیں ۔اس کی ادویات کس قدر مہنگی ہیں ‘اس کا اندازہ خادم اعلیٰ اور ان کی بھیجی ہوئی پولیس کو شاید نہیں ہو گا‘ لیکن مجھے ہے ۔میں اگر اس بھٹے پر کام نہ کروں تو دو دنوں ہی میں میرے گھر فاقے سب کی جان لے لیں اور میرا باپ درد سے تڑپتے ہوئے جان دے دے۔۔۔
میں جیتے جی اپنے بوڑھے ماں باپ کو خود کشی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور اگر آپ زبردستی مجھے کام کرنے سے روک دیں گے تو میرے والدین کی موت کی ذمہ داری بھی قبول کریں کیونکہ اگر میں کام نہیں کروں گا تو میرے باپ کا علاج کیسے ہو گا؟ میرے ماں باپ کہاں سے اور کیسے کھائیں گے؟ اگلے ماہ میری بہن کی شادی کی تاریخ مقرر ہے ہمارے جیسے گھروں کی شادیوں پر اٹھنے والے اخراجات کسی درمیانے درجے کے گھر میں ہونے والی وفات سے بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ مجھے ا س کیلئے بھٹہ مالک سے ایڈوانس میں کچھ لینا ہو گا لیکن یہ اس صورت میںممکن ہو سکتا ہے‘ جب اسے یقین ہوجائے گا کہ میں اس کے پاس کم از کم چھ ماہ تک کام کروں گا۔ ‘‘
ایک چھوٹے سے گائوں کے پانچویں جماعت میں پڑھنے والے بچے کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ سننے کے بعد پولیس اپنی جگہ سن ہو کر رہ گئی۔ حکومت کی کارکردگی دکھانے کیلئے ساتھ آئے ہوئے سرکارکے الیکٹرانک میڈیا کے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور پھر سب اس معصوم اور ننھے فرشتے کو اسی طرح روتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ۔وہ بچہ جس نے اپنے ہاتھ میں قلم پکڑنا تھا جس نے تختی اور سلیٹ پر اپنے مستقبل کی راہیں متعین کرنا تھیں‘ اس کے کھردرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں چند لمحے تھامنے کے بعد قانون کی ٹیم چپکے سے کھسک گئی ۔شاید وہ جان چکی تھی کہ چائلڈ لیبر وہ نہیں جو بتائی جاتی ہے بلکہ وہ ہے جو وہ دیکھ رہے ہیں۔
ضلع قصور کے ایک چھوٹے سے گائوں ہر چوکی تحصیل چونیاں کے سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھنے والے اکبرکے بیٹے نے ایک صبح سکول جانے سے پہلے اپنی تختی اور بستہ گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا اور چونیاں کی ڈسٹرکٹ کورٹ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گائوں'' ہرچوکی ‘‘ کے قریب ایک بھٹے میں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اینٹیں بنانے کا کام شروع کر دیا ۔ایک چھوٹا سا بچہ کمانے والا‘ اور گھر کے چار افراد کھانے والے‘ جن میں اس کا دونوں ٹانگوں سے معذور باپ اور اس کی مہنگی ادویات بھی شامل ہیں۔یہ اس بچے کی کل کائنات تھی جس کے گرد گھومنے کیلئے وہ کئی کئی گھنٹے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے۔چائلڈ لیبر کے نام پر بیرونی پیسے سے نام اور دولت کمانے والی این جی اوز شور تو بہت کرتی ہیںلیکن کبھی انہوں نے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے بھٹوں پر کام کرنے والے اکبروں کے گھروں کے اندر جھانکنے کی بھی کوشش کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو یہاں کام کرنے کیلئے کیوں بھیجتے ہیں؟ کبھی انہوں نے کروڑوں روپے بیرونی ممالک سے وصول کرنے کے بعد سوچا کہ ان میں سے اگر نصف بھی وہ اکبر جیسے مستحق لوگوں میں تقسیم کر دیا کریںتو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔؟ کبھی ان فیشن ایبل خواتین اور بڑے ہوٹلوں میں کافی کی بھاپ میں سگار کا دھواں ملانے والے لیڈر قسم کے سوشلسٹوں نے ان تاریک گھروں کے اندر درد سے سسکتی اور کراہتی ہوئی انسانی ہڈیوں کو بھی ایک نظر دیکھنے کی کوشش کی ہے؟
چونیاں کاایک بھٹہ خشت ہی کیا پاکستان بھر میں گرمیوں اور سردیوں کی راتوں میںنو اور دس بجے کے بعد ننھے ننھے بچوں کو کسی نہ کسی ورکشاپ ، چائے کے ہوٹل یادکان سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے اکثر دیکھا جاسکتاہے ۔یہ کسی شوق سے نہیں ‘بلکہ اپنے ماں باپ کی بھوک مٹانے کیلئے اس عمر میں دھکے کھانے کیلئے نکلتے ہیں ۔یہ چھوٹی سی عمر میں شوق یا خوشی سے مزدوری نہیں کرتے بلکہ اپنے گھروں میں چھائی ہوئی غربت اور فاقہ کشی سے اس قدر حساس بن جاتے ہیں کہ اپنے ماں باپ کی بیماری اور گھر میں بہن بھائیوں کو فاقوں سے بچانے کیلئے صبح صبح گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔۔۔۔اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لینڈ مافیا، ٹیکس چور، رشوت خور، کمیشن خور اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے بچے اچھلتے کودتے نئی نئی اور چمکیلی گاڑیوں میں بیٹھے اپنے اپنے سکولوں کو جانے کی تیاریاں کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ چھوٹے مزدور بچے‘ جنہیں چائلڈ لیبر کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ ان صاف ستھرے کپڑے پہنے اور گلے میں رنگین بستے لٹکائے ہوئے بچوں کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے آنکھوں میں اتری ہوئی نمی کو اندر ہی اندر پیتے ہوئے اپنی منزلوں کی جانب چل پڑتے ہیں۔ان بچوں کا پیٹ ہی ان کا دین اور پیٹ ہی ان کا پاکستان ہے ۔یہ گدھوں اور جانوروں کی طرح روز و شب کام میں جتے رہتے ہیں ۔
حکمران چائلڈ لیبر کے نام پر دنیا کو خوش کرنے کیلئے اور پاکستان کو قرض دینے والوں کو دکھانے کیلئے بچوں کو پکڑ پکڑ کر لے جا رہے ہیں ‘لیکن کبھی کسی نے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے بیگار کیمپوں کو بھی ختم کرنے کی بات کی ہے؟کیا آپ نہیں جانتے کہ ان بیگار کیمپوں میں اغوا کئے ہوئے بچوں کو رکھا جاتا ہے۔ ان بیگار کیمپوں میں رکھے گئے وہ بچے خوش قسمت ہوتے ہیں جو بھوک اور تشدد سے جلد ہی اپنی جان دے دیتے ہیں ‘لیکن جو زندہ رہتے ہیں وہ روزانہ گھٹ گھٹ کر مرتے رہتے ہیں ۔
سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 125 ارب روپیہ سالانہ کہاں جا رہا ہے؟ کون کھا رہا ہے؟ بیت المال کے اربوں روپے مال مفت سمجھ کر کون لوگ ہضم کر رہے ہیں ؟کیونکہ پاکستان کے اکبروں کے لاکھوں گھروں میں تو اسی طرح فاقہ کشی جاری ہے...!
ہے کوئی اللہ کا نیک بندہ جو اس بچے کی فریاد سنے؟