تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-05-2016

اوچ شریف مدینہ میڈا تے کوٹ مٹھن بیت اللہ

آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ایسی بے خبری‘ ایسی موقع پرستی۔ اللہ کے رسول ؐ کا فرمان وہی ہے جو تاریخی تجربہ ہے :'' کاروبار حکومت کا کام نہیں‘‘۔
سوا بارہ بجے ہیں۔ اس وقت مجھے بہاولپور میں ہونا چاہیے تھا۔ اوچ شریف کو رات گیارہ بجے جہاز روانہ ہونا تھا۔ دور دور تک آثار نہ تھے۔ پی آئی اے کے افسروں کا ایک گروپ سامنے کھڑا تھا۔ ان سے پوچھا کہ اگر تاخیر ہے تو اعلان کرنے میں تامل کیوں ہے۔ شائستگی کے ساتھ انہوں نے اتفاق کیا۔ ایک صاحب بولے: اگر متعلقہ شعبے والے بتا دیں۔ متعلقہ افسر بھی وہیں کھڑے تھے۔ زیادہ شائستگی اور زیادہ ولولے کے ساتھ انہوں نے آمادگی ظاہر کی۔ اعلان کردیا گیا کہ چالیس منٹ کی تاخیر ہوگی۔ سبب یہ کہ جہاز دیر سے آیا۔ حیرت ہوئی کہ جہاز پہنچ چکا تو چالیس منٹ کیوں درکار ہیں؛ 25‘ 30 کیوں نہیں؟ کچھ دیر میں معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے لاہور اترنے والے جہاز کا پٹرول ختم ہو چکا۔ پاکستان سٹیٹ آئل والے مہربانی پر آمادہ نہیں کہ ایئرلائن ادائیگی کے قابل نہیں۔ یہ تنازع ایک گھنٹہ جاری رہا۔ اس دوران دوبار پی آئی اے کے کائونٹر پر پہنچ کر درخواست کی کہ اگر مزید تاخیر ہے تو ازراہ کرم اعلان کر دیجئے۔ وعدہ کیا گیا مگر اعلان نہ ہوا۔ ایک لطیفہ اور بھی۔ بارہ بجنے میں بارہ منٹ پر کائونٹر پر گیا تو ایک نہایت ہی شائستہ گھریلو سی خاتون نے بتایا کہ جہاز بارہ بجے روانہ ہو جائے گا۔ مسافر حیرت زدہ رہ گیا: آخر یہ کس طرح ممکن ہے۔ اگر ایسا ہے تو پرواز کا اعلان کیوں نہیں کردیا جاتا؟ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور کہا: بارہ بجے اعلان ضرور کردیا جائے گا۔ اس دوران اسلام آباد سے آنے والے مسافروں کو انتظار گاہ میں لا کر بٹھا دیا گیا تھا۔ قرائن اچھے نہ تھے۔ تاخیر سے کیا صدمہ ہوتا۔ پی آئی اے اور ریلوے سے سفر کرنے والے اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
جب سے نون لیگ کی حکومت آئی ہے‘ ریلوے کے نظام میں بہتری آئی ۔ پی آئی اے کی 83 فیصد پروازیں بھی بروقت ہو گئی ہیں۔ ملال یہ تھا کہ اوچ شریف میں لوگ انتظار کر رہے ہوںگے خاص طورپر کمسن بچے۔ مکھن بیلہ کے سکول کی خستہ عمارت کو سیلاب نے برباد کردیا تھا۔ ایک تراشیدہ سماجی کارکن زبیر نیازی نے رابطہ کیا۔ تفصیل سے اس پر لکھا مگر خادم پنجاب کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی‘ جو چاہتے ہیں کہ تاریخ میں ان کا نام شیرشاہ سوری کے ساتھ لکھا جائے۔ ستم صرف سیلاب نہ تھا۔ سکول کے چار سو بچوں کے لیے صرف ایک استاد۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کے دفتر نے تو نوٹس تک لینا گوارا نہ کیا‘ ایوان وزیراعظم سے ایک ٹیلی فون البتہ موصول ہوا۔ دو استاد فوراً بھجوا دیئے جائیں گے اور دو کا بندوبست ایک این جی او کرے گی۔ شکریہ ادا کیا اور خیال نہ آیا کہ وزیراعظم کا دفتر یہ بندوبست کیوں کرے گا‘ صوبے کی حکومت کا کام ہے‘ پھر ایک سرکاری سکول کے لیے ایک این جی او؟ دو برس بعد جناب شہبازشریف کو 1122 کے لیے چندے کی اپیل کا کارنامہ بھی انجام دینا تھا۔ ایک شاندار ادارہ‘ جس کی کبھی وہ خود بھی تعریف کیا کرتے۔ فرمایا کرتے کہ مشرف عہد کا یہ واحد کمال ہے۔ اب برباد ہونے کے لیے اسے چھوڑ دیا گیا ہے کہ بنیاد اس کی چوہدری پرویزالٰہی نے رکھی تھی۔ برقرار اور نموپذیر رہا تو داد انہیں ملے گی؛چنانچہ اسے تباہ ہو جانا چاہیے۔ منیر نیازی نے کہا تھا ؎
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
غیظ و غضب اور انتقام کے طوفان جو دلوں سے اٹھتے ہیں اور کیوں اٹھتے ہیں؟ یہ راز دائمی عظمت کے غالب نے کھولا تھا؎
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہکاں کا
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
زیادہ حدادب! سخن شناس شعیب بن عزیز اگر اس شعر کا مفہوم عصر رواں کے سکندراعظم کو سمجھانا پسند نہ کریں تو یہ طالب علم حاضر ہے۔ اگر وزیراعلیٰ اپنے بے حد قیمتی وقت سے دو تین منٹ عنایت کر سکیں۔ محی الدین وانی اب کہاں ہیں؟ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ایما پر ان کا وعدہ جھوٹا ثابت ہوا۔ پنجابی میں اسے '' لارا لپا‘‘ کہا جاتا ہے، لاہور میں ''بول بچن‘‘۔ قصور کے سردار احمد علی نے ایک بار میاں صاحب سے کہا کہ فلاں وعدہ پورا کرنا مشکل ہو گا‘ جو ابھی خلق خدا سے انہوں نے کیا ہے۔ فرمایا: مگر اعلان کرنے میں حرج کیا ہے! ان کے اصل الفاظ بہت کرخت تھے‘ لکھے جا سکتے ہیں مگر حیا دامن گیر ہے۔ دانی سے بعدازاں ایک اتفاقی ملاقات میں ‘ میں نے پوچھا کہ جھوٹا وعدہ اس نے کیوں کیا تھا؟ وہ گھبرایا ہوا تھا اور اس نے انکشاف کیا کہ وہ زیر عتاب ہے۔ عرض کیا‘ کچھ بھی ہو‘ آپ پیمان کی پاسداری کے قابل تھے‘ پھر ایسا کیوں کیا۔ وہ اپنی قسمت کو کوستا رہا۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ فرمان مگر یہ ہے کہ خلق خدا کے ساتھ نرمی کرنے والوں کے ساتھ ہی نرمی کی جاتی ہے: ''نرمی کرو تمہیں سلامتی بخشی جائے گی‘‘۔
گائوں والوں سے میں تو وعدہ کر چکا تھا۔ سان گمان تک میں نہ تھا کہ صوبائی حکومت ایسی کٹھور ثابت ہوگی۔ بار بار کی التجا کے باوجود بیچارے دیہی بچوں پہ رحم اسے نہ آئے گا۔ آخری چارۂ کار کے طور پر عرض کیا کہ دو اچھے استاد وہ بھرتی کر لیں‘ اللہ بہتری کرے گا۔ حیرت انگیز‘ دو اساتذہ کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے ماہوار۔ بعد میں کچھ اضافہ کیا گیا۔ اچھے لڑکے ہیں۔ اس دوران اپنی تعلیمی استعداد میں انہوں نے اضافہ کیا۔ ایک بھلے آدمی اشرف خان درانی نے دو ایکڑ زمین عنایت کر دی ہے۔ اب یہ عاجز روانہ ہے‘ انشاء اللہ ریڈ فائونڈیشن‘ تعمیر ملت فائونڈیشن اور غزالی فائونڈیشن میں سے کسی ایک کے ساتھ مل کر یہ سکول تعمیر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حاکم اگر پتھر دل ہیں تو کیا‘ سب سے بڑا حاکم رحمن و رحیم ہے اورولی و نصیر بھی۔ خطا کار ہیں مگر شرمندہ‘ اس سے التجا کرتے رہتے ہیں۔ وہ دلوں کو بدل ڈالنے والا ہے۔ ان میں خیر اور ایثار کی لہلہاتی فصلیں اگاتا ہے۔ مالک کس قدر مہربان ہے‘ آدمی اگر ادراک کر سکے تو کسی اور دروازے پر کبھی نہ جائے ؎
دست ہرنا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
ہر نااہل ہاتھ بیمار کرتا ہے‘ اپنی ماں کے پاس آ کہ تیری تیمار داری کرے۔ فرمایا: اپنے بندوں سے‘ وہ مائوں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ یا للعجب‘ یہ بات مولویوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ ہر وقت وہ ڈراتے کیوں رہتے ہیں؟ عارف نے کہا تھا : تھانیدار سے ڈر کر آدمی جی نہیں سکتا۔ اللہ سے خوف زدہ ہوکر وہ کیونکر پنپے گا؟ خشیتِ الٰہی کا ترجمہ ناقص کیا جاتا ہے۔ من خاف مقام ربّہ۔ وہ جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے تصور سے پریشان ہوا۔ علم‘ ادراک ‘ محبت‘ احترام‘ پھر اس میں سے پھوٹنے والا اندیشہ۔ یہ ہے خشیت۔ سید اسعد گیلانی مرحوم کی قبر‘ اللہ نور سے بھر دے۔ ایک بار فرمایا: اللہ کو لوگوں نے کیا سمجھ لیا؟ خاکم بدہن ‘ وہ کوئی مہاجن نہیں کہ پرانے رجسٹر سامنے رکھ کر ایک ایک پائی کا تقاضا کرے۔ مانگنے اور توبہ کرنے والوں پر اس کے اکرام کی بارش ہوتی ہے۔
اچھا وہ پی آئی اے کی پرواز کاقصہ ! پندرہ بیس منٹ میں وہ بہاولپور میں اترنے والی ہے۔ وہ خواب سا شہر جو عہد اکبری میں بغداد سے بھاگ کر آنے والے عباسیوں نے آباد کیا تھا۔ اپنی تاریخ سے بے خبر‘ ان میں سے اب کچھ ''داد پوترے‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایک ہی دادا کی اولاد‘ اس سے آگے‘ صوفیوں کا وہ دیار ہے‘ اوچ شریف جس سے محبت کا چراغ عشروں پہلے جلا تھا۔ قسمت میں مگر فراق تھا۔'' اوچ شریف مدینہ میڈا تے کوٹ مٹھن بیت اللہ‘‘۔ وہی بات جو اقبال نے ہسپانیہ کے بارے میں کہی تھی۔ مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں۔ پی آئی اے کی تباہی کے ذمہ دار نواز شریف نہیں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ نواز شریف تو اس کی نجکاری چاہتے ہیں مگر عمران خان‘ بلاول بھٹو اور سینیٹر سراج الحق کرنے نہیں دیتے۔
آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ایسی بے خبری‘ ایسی موقع پرستی۔ اللہ کے رسول ؐ کا فرمان وہی ہے جو تاریخی تجربہ ہے : ''کاروبار حکومت کا کام نہیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved