تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     10-05-2016

برق گرتی ہے تو بے چارے امیروں پر

آپ میں سے جن خوش نصیب لوگوں نے کلام اقبال پڑھا ہے وہ اچانک جان لیں گے کہ آج کے کالم کا عنوان اقبال کے ایک مصرع کی تضمین ہے اوریہ مصرع بانگِ درا کے وسط میں پڑھی جانے والے نظم ''شکوہ‘‘ میں پڑھا جا سکتا ہے ع 
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
تضمین کا لفظ میں نے آج تک صرف کلام اقبال میں پڑھا ہے۔ اُنہوں نے ایک بڑے شاعر کے کلام کے ایک شعر کے چند الفاظ بدل کر اُسے نئے معنی دیے۔ میں نے صرف ایک لفظ بدلا۔ یہ ضرورت پاناما انکشافات (Panama Leaks) کی وجہ سے پیش آئی۔ میرے قارئین اس سکینڈل کے بارے میں تفصیلات اخباروں میں پڑھ پڑھ کر اور ٹیلی ویژن پر تبصرے سُن سُن کر نڈھال ہو چکے ہوں گے۔ یقین جانیے کہ میرا مصمم ارادہ ہے کہ میں ان کی ذہنی اذیت میں مزید اضافہ ہرگز نہ کروں، صرف پانچ چھوٹی چھوٹی باتیں لکھنے پر اکتفا کروں گا۔
اوّل: آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ اختیارات کی فراوانی کی طرح دولت کی فراوانی بھی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ اُسے اغیار (خصوصاً محکمہ ٹیکس) سے کس طرح بچائیں اور چھپائیں؟ ارب پتی لوگ استاد غالبؔ تو نہیں جو اپنا مختصر سا سامان چوری ہو جانے کے بعد رہزن کو دُعا دیتے تھے جس نے انہیں ان کی پونجی سے محروم کر کے اس کی حفاظت کے فرض سے سبکدوش کر دیا تھا۔ قارون کے بارے میں مشہور ہے کہ درجنوں اُونٹ اُس کے خزانوں کی چابیاں اُٹھا کر چلتے تھے۔ خزانہ کتنا بڑا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے زرخیز تخیل کی ضرورت نہیں۔ قارون کے پاس پاناما کے بینکوں کا پتہ ہوتا تو وہ بے چارہ اونٹوں کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور نہ ہوتا۔ دُنیا میں بہت سے ایسے مقامات ہیں (وہ تمام کے تمام چھوٹے چھوٹے گمنام جزیرے ہیں) جن کا واحد مصرف اور اُن کی آمدنی کا واحد ذریعہ ارب اور کھرب پتی لوگوں کی دولت کو چھپانا ہے۔ پاناما اُن درجنوں مقامات میں سے صرف ایک ہے۔
دوّم: جن سنسنی خیز معلومات کا انکشاف ہوا ہے وہ صرف ایک وکیل(Mossack Fonseca) کے دفتر کے توسط سے رجسٹر ہونے والی کمپنیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ منظر عام پر آجانے والے وکیل کے علاوہ اور بھی بہت سے وکیل پاناما میں یہی کاروبار کرتے ہیں مگر مقابلتاً چھوٹے پیمانے پر۔ میں آٹھ اپریل کو رُوم گیا توکئی میل پیدل چلنے اور سینکڑوں سیڑھیاں چڑھنے سے ہونے والی تھکاوٹ کے باوجود شام کو روم کا مشہور فوّارہ (دُنیا میں سب سے زیادہ جانا پہچانا)The Trevi Fountain دیکھنے گیا۔ وہاں لے جانے کا ثواب بھی میرے بیٹے فیصل کو پہنچتا ہے۔ یہ وُہی فوارہ ہے جسے La Dolce Vita نامی فلم نے عالمی شہرت دلائی۔ اگر یہ کالم نگار اُس دن روم میں موجود ہوتا جب سویڈیش اداکارہBritt Ekland نے اس فوارے میں نہانے کے لئے چھلانگ لگائی تھی تو شاید وہ اپنے ہوٹل میں غسل کرنے کی بجائے مذکورہ بالا دُشمنِ ایمان حسینہ کی پیروی کرتے ہوئے یہ ممنوعہ حرکت کر گزرتا۔۔۔۔ نقل کُفر کُفر نہ باشد کے مصداق! فوارے کے ارد گرد دُنیا بھر کے سیاحوں کا اتنا بڑا ہجوم تھا کہ بڑی مشکل اور انتظار کے بعد مر مریں سیڑھیوں پر بیٹھنے کی جگہ ملی۔ پڑوسیوں سے تعارف ہوا تو پتا چلا کہ ہمارے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکیاں پاناما کے ایک وکیل کے دفتر میں کام کرتی ہیں۔ اُنہوں نے مجھے جو کچھ بتایا وہ اس کالم میں لکھنے کا مطلب ہے کہ میں اپنے اخبارکے ناشرین کو ایک بڑے دردِ سر میں مبتلا کر دُوں یا اُس میں اضافہ کر دُوں۔ اس لئے وہ ناقابل اشاعت ہے۔ آپ کو پورا حق ہے کہ میری خاموشی سے جو نتیجہ نکالنا چاہیں بصد شوق نکال لیں۔ آپ کو اس کالم نگارکی اس بزدلانہ حرکت کی مذمت کرنے کا بھی اختیار ہے، مگر جان لیجئے کہ میرے ہونٹ (اور وہ بھی ایک عمر رسیدہ وکیل کے ہونٹ) مضبوطی سے سلے ہوئے ہیں۔ میرے پاس دستاویز ی ثبوت تو ہے نہیں، سُنی سنائی باتوں کو ایک سنجیدہ کالم میں لکھ دینا غیر ذمہ داری ہوگی۔ 
سوم: برق گرنے کے الفاظ نہ صرف لغوی معنوں میں بلکہ واقعتاً بھی یوں درست ہیں کہ جس دن یہ سکینڈل دُنیا بھرکے اخباروںکے صفحہ اوّل کی زینت بنا اُس دن پاناما ریاست کے دارالحکومت (پاناما سٹی) پر وقفہ وقفہ کے بعد بار بار بجلی گری۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا طوفان پہلے نہیں دیکھا۔ بلند آواز میں گرجتے ہوئے بادلوں اور چمکتی بلکہ گرتی ہوئی بجلیوں نے قیامت صغریٰ کا منظر بنا رکھا تھا۔ پاناما کے ماہرینِ موسمیات حیران پریشان ہیں کہ اس خلافِ توقع اور خلاف موسم طوفان کی وجوہ کیا ہو سکتی ہیں؟ وہ اپنے بھولپن میں یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ برق گرتی ہے تو بے چارے امیروں پر یا مسلمانوں پر یا مسلمان امیروں پر!
چہارم: برطانیہ کے سب سے معتبر اور موثر روزنامہ گارڈین نے اپنی سولہ اپریل کی اشاعت کے صفحہ نمبر 48 پر وہ سارا قصہ بیان کیا ہے کہ گارڈین کے تجربہ کار رپورٹروں کی ایک ٹیم نے مکمل راز داری کے ساتھ پورے چھ ماہ پاناما دستاویزات کا مطالعہ کیا اور انہیں شب و روز کی محنت شاقہ سے اشاعت کے لئے مرتب کیا۔ بی بی سی، فرانسیسی اخبار Le Monde اور تیونس کے اخبار Inky Fada (Intifada کے وزن پررکھا گیا نام) نے گارڈین کے صحافیوں کی اس عرق ریزی اور جانفشانی کے کام میں معاونت کی۔ 
پنجم: یہ کالم نگار قانون کا اتنا ادنیٰ طالب علم ہے (برطانیہ سے قانون کی تین ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود) کہ بین الاقوامی مالیات کے قانون کی ابجد بھی نہیں جانتا مگر اس سچائی سے بہرحال واقف ہے کہ جرم یہ نہیں کہ پاناما میں بڑی بڑی رقوم کیوں چھپائی گئیں۔ جُرم دو ہیں اور دونوں بڑے سنگین ہیں۔ غیر قانونی ذرائع سے دولت کمانا اور پھر اسے غیر قانونی ذرائع سے ملک کے باہر بھیجنا۔ 
ہم مڑ کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ بین الاقوامی کرپشن سے پاکستان کے مالیاتی اداروں کا تعلق کافی پُرانا ہے، کم از کم نصف صدی پُرانا۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ BCCI کی صورت میں اُبھر کر سامنے آیا۔ سرمایہ عربوں کا تھا، بینک چلانے والے سارے بڑے افسر پاکستانی تھے اور اس ٹولے کے سردار (چالیس چوروں کے علی بابا) کا نام آغا حسن عابدی تھا۔ 70ء کی دہائی میں یہ بینک عالمی مالیات کے اُفق پر سب سے روشن ستارہ تھا۔ آخر وہ روز بد آیا جب اس کی بدعنوانیاں حد سے بڑھ گئیں اور اسے برطانوی قانون کی تحت بند کر دیا گیا۔ BCCI کی جنوبی امریکہ کے دو ممالک میں شاخیں سب سے زیادہ مال بناتی تھیں۔ ایک ملک کا نام تھا پاناما اور دُوسرے کا کولمبیا۔ پاناما تو اب محتاج تعارف نہیں رہا، کولمبیا منشیات کی تجارت کا عالمی مرکز ہے۔ مقامی ڈرگ مافیا کو سب سے بڑا یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اربوں ڈالروں کو کولمبیا سے نکال کرکس محفوظ جگہ پرکس طرح پہنچایا جائے؟BCCI نے اپنی پیشہ ورانہ خدمات پیش کیں تو نہ صرف مافیا کے اکائونٹ ہولڈرز کی چاندی ہو گئی بلکہ بھاری کمیشن لے کر ادھر کا مال ادھر پہنچانے والے بینک (BCCI ) کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔
میرے لئے مندرجہ بالا سطور لکھنا ذاتی اعتبار سے بڑا تکلیف دہ کام ہے۔ ستر کی دہائی میں، میں شمالی انگلستان کے ایک کالج میں سماجی علوم پڑھاتا تھا اور مانچسٹرکے مغرب میں جس قصبہ میں رہتا تھا اُس کا نام ڈارون ہے۔ وہاں سے لندن ڈیڑھ سومیل دُور ہے، اس لئے لندن سے ہر مہمان کا آنا میزبان گھرانے کے لئے خصوصی خوشی کا باعث بنتا تھا۔ ایسے ایک مہمان کا نام (غالباً ) امجد اعوان تھا۔ وہ الوداعی ملاقات کرنے آیا تھا۔ چونکہ اُس کا لندن میںBCCI کے صدر مقام سے تبادلہ کولمبیا کر دیا گیا تھا۔ اس مہمان کو میں اس لئے اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے ایک واقف جناب اے بی اعوان (سابق انسپکٹر جنرل پولیس) کا بیٹا اور ایئر مارشل اصغر خان صاحب کا داماد ہے۔ صد افسوس کہ امریکی پولیس ایف بی آئی نے امجد اعوان کو منشیات کے دھندے سے کمائے ہوئے اربوں ڈالرکی Money Laundering کے جرم میں رنگے ہاتھوںپکڑ لیا اور عدالت سے پندرہ سال قید دلائی جس سے ایک لائق فائق اور بہت سی خوبیوں کے مالک اور ہونہارBanker کا سارا مستقبل تباہ و برباد ہو گیا۔ اعلیٰ مرتبہ والدین، ساس، سُسر اور میرے جیسے سینکڑوں خیر خواہوں اور دوستوں کو جو دُکھ پہنچا اورجو شرمندگی اُٹھانی پڑی اس کا اندازہ میرے قارئین خود لگالیں، وہ ناقابل بیان ہے۔ 
حال ہی میں پاناما سکینڈل ایک شہاب ثاقب کی طرح ساری دُنیا کے اُفق پر نمودار ہوا تو امجد اعوان کے عبرت ناک انجام کے بارے میں میرا پرانا زخم پھر ہرا ہوگیا۔ میں اللہ تعالیٰ سے سر بسجود ہوکر دُعا مانگتا ہوںکہ وہ تمام والدین کو اس صدمہ سے محفوظ رکھیں جو امجد اعوان کے اعلیٰ مرتبت والدین اور قابل صد احترام سسرال کو اُٹھانا پڑا۔ اُن پر امجد اعوان کی گرفتاری اور پھر لمبی قیدکی خبر اُس بجلی کی طرح گری ہوگی جس نے ماہ اپریل میں پاناما کو اپنا نشانہ بنایا۔ اقبال نے جواب شکوہ میں یہ گلہ کیا ہے کہ 
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
غریب مسلمانوں پر تو بجلی اب بھی باقاعدگی سے گرتی رہتی ہے مگر سابقہ غریب مسلمانوں کا ایک طبقہ اب ماشاء اللہ دُنیا بھر کے ارب پتی سرمایہ داروں کے کلب کا رُکن بن چکا ہے۔ اس طبقہ کے افراد جائز ناجائز طریقے سے کمائے ہوئے اربوں ڈالر پاناما میں اتنی اچھی طرح اور اتنی احتیاط سے چھپائے ہوئے تھے کہ کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آخر یہ راز سربستہ بھی فاش ہو کر رہا۔ یااللہ! تیرے فضل وکرم سے اتنی دولت کمانے والے آخر اُسے کس غار میں جا چھپائیںکہ وہاں کسی کی رسائی نہ ہو سکے۔ تو ستار العیوب ہے، تو نے اُن کا پردہ کیوں نہ رکھا؟ اب اس سکینڈل کے متاثرین اور ''ستم زدگان‘‘ یہ فریاد کرنے میں حق بجانب ہوں گے ع 
برق گرتی ہے تو بے چارے امیروں پر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved