غیر منقسم ہندوستان میں دبے کچلے طبقات خصوصاً دَلتوں، قبائلیوں اور مسلمانوں کو متحد و منظم کرنے کا جو خواب قائد اعظم محمد علی جناح، حسین شہید سہروردی اور دوسرے رہنمائوں نے دیکھا تھا، اس کی تعبیر کے لئے اب بھارت میںکئی مسلم اور دَلت تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ حیدر آباد دکن کی مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسدالدین اویسی نے جو حیدر آباد سے باہر بھی سیاسی قسمت آزمائی کے لئے پر تول رہے ہیں، دلت مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا ہے۔ گزشتہ دنوں دارالحکومت دہلی میں جمعیت علمائے ہند نے بھی اس موضوع پر بحث کی۔ معروف دلت رہنما سریش کنوجیا بھی دلت مسلم سنگھ کی داغ بیل ڈال کر ان دنوں ملک بھر کے دورے کر رہے ہیں۔ لگتا ہے، مسلم تنظیموںکو احساس ہوگیا ہے کہ وہ صرف اپنے دم پر حقوق کی جنگ نہیں لڑ سکتے، اس لئے بقول مشہور مصنف ارون دتی رائے بھارت میں مظلوموںکا اتحاد ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔ ان طبقات کی مظلومیت اور ان کو وسائل سے باہر رکھنے کے ذمہ دار اونچی ذات یعنی برہمن، چھتری اور ویشیہ طبقے ہیں جو آبادی کا محض 15فیصد مگر ملک کے 80 فیصد سے زائد وسائل پر قابض ہیں۔
حیر ت ہے کہ 800 سال برصغیر پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں نے اسلام کے حقیقی سیاجی انصاف کا پیغام دوسرے مذاہب کے اہل وطن خصوصاً دلتوں تک نہیں پہنچایا بلکہ چھوت چھات کو برقرار رکھا۔ 1990ء ی دہائی میں عملی صحافت کے ابتدائی ایام میں نے ایک فیچر ایجنسی میں گزارے۔ آفس اسسٹنٹ ایک سید مسلمان تھے۔ ایک دن صبح آفس پہنچا تو عجب منظر دیکھا۔ صفائی کرنے والے نے جو دلت تھا،ان سے پینے کے لئے پانی مانگا تھا اور وہ آفس کے دروازے کے باہر اس کے ہاتھ پر اس طرح پانی بہار ہے تھے کہ اس کے بد ن کا کوئی عضو برتن کو نہ چھو سکے۔ مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے سید صاحب سے کہا، اس کو گلاس میں پانی کیوں نہیں دیتے؟ وہ مجھ پر بگڑگئے اور نوبت تلخ کلامی تک آگئی۔ آخر میں نے خود گلاس میں پانی بھر کر صفائی کرنے والے دلت کو دے دیا، لیکن اس کے جانے کے بعد اسسٹنٹ صاحب نے وہ گلاس ہی پاقی برتنوں سے الگ رکھوا دیا۔ چھوت چھات کی یہ لعنت غیر مسلموں کے لئے دیوار بنی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بھارت کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے، آج بھی دلت یا پسماندہ طبقہ انہیں اپنارہبرورہنما سمجھتا ہے۔ انہوں نے دنیاکے بڑے مذاہب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوںکا سسٹم موجود ہے، اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں مسلم سماج میں بھی برہمنواد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا تھا جو ان کے لئے پاؤںکی زنجیر بن گیا۔ انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریر میں کہا: ''میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔
مشہور کالم نگار اور مصنف عبد العزیز نے حال ہی میں امبیڈکر کے ایک واقعہ کا ذکر کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بار وہ دہلی کے ایک بہت بڑے عالم اور مصنف سے ملاقات کے لئے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے مرید انہیں غسل خانے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں تولیہ ہے، کسی کے ہاتھ میں تہبند اور بنیان ہے اورکوئی ہاتھ میں صابن اورمسواک لئے ہوئے ہے ۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ جس مذہب نے اپنے کام خود کرنے کی تلقین کی ہے، اسی مذہب کے عالم دین کا ہاتھ خالی ہے اوراس کا سارا بوجھ دوسروں کے سر پر ہے۔ جب عالم دین غسل سے فارغ ہوکر ڈاکٹرامبیڈکرکے پاس آئے تو انہوں نے اسلام کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر سنتے رہے۔ جب عالم دین خاموش ہوئے تو امبیڈکر نے کہا کہ ''اسلام کی باتیں تو سو فیصد سچائی اور صداقت پر مبنی ہیں مگر آپ کا سماج اسلام سے دور ہٹا ہوا ہے۔ اگر میں اسلام قبول کرلیتا ہوں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہاں بھی برہمنواد ہے اور یہاں بھی برہمنواد! ایک برہمن کو چھوڑکر آؤںگا تو دوسرے برہمن سے مقابلہ درپیش ہوگا‘‘۔
31 مئی 1936ء کو مبیڈکر نے ممبئی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جو تحریری تقریر پیش کی، اس میں کہاتھا: '' ہندو دھرم ہمارے آبا و اجداد کا مذہب نہیں ہے۔ وہ تو غلامی ہے جومسلط کردی گئی تھی۔ ہمارا نصب العین آزادی کا حصول ہے اور تبدیلیٔ مذہب کے بغیر آزادی کا حصول ممکن نہیں۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ اچھوتوں کو بھی مساوات کی اتنی ہی ضرورت ہے (جتنی دوسروں کو)۔ مساوات حاصل کرنے کے دو راستے ہیں۔۔۔۔ ایک ہندو سماج میں رہ کر، دوسراتبدیلیٔ مذہب کے ذریعے اسے چھوڑکر۔ مساوات کو مختلف ذاتوں کے ساتھ مل جل کرکھانے پینے اوران کے درمیان شادی بیاہ ہی سے حاصل کیا جا سکتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چار ورنوںکے سسٹم اور برہمنی مذہب کوختم کردیاجائے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ جب تک ہندو رہو گے سماجی روابط، کھانے پینے اور مختلف ذاتوںکے درمیان شادی بیاہ کے لئے جد و جہدکرتے رہو گے اور جب تک یہ کشمکش جاری رہے گی، تمہارے اورہندوؤںکے درمیان تعلقات مستقل دشمنوں کے سے ہی رہیںگے۔ تبدیلیٔ مذہب کے ذریعے ان تمام جھگڑوں کی بنیاد ڈھے جائے گی۔ ذاتیں اگرچہ اسلام اور عیسائیوں میں بھی پائی جاتی ہیں مگر یہ ان کے سماجی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیت نہیں ہے۔ ہندوؤں میں ذات پات کا سسٹم مذہبی بنیادرکھتا ہے، دوسرے مذاہب میں ذات پات کو مذہب کی توثیق حاصل نہیں ہے۔ ہندو اپنے مذہب کو ختم کئے بغیر ذات پات کے سسٹم کوختم نہیں کر سکتے، مسلمانوں اور عیسائیوں کو ذاتیں ختم کرنے کے لئے اپنے مذہب کوختم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا مذہب بہت حد تک ایسی تحریکات کی تائیدکرے گا‘‘۔
وہ مصنف جس نے امیڈکر کی تصنیفات کا وسیع مطالعہ کیا،کہتے ہیںکہ دلت لیڈر نے واضح لفظوں میں دلتوں سے کہا کہ ہماری چھوت چھات سے نجات کا واحد راستہ صرف قبول اسلام ۔ انھوں نے کہا: ''دوستو! ہماری شودر ہونے کی جو بیماری ہے وہ خطرناک ہے۔ یہ کینسرکی مانند ہے جو بہت پرانی شکایت ہے۔ اس کی ایک دوا ہے اوروہ ہے اسلام ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری دوا نہیں ، ورنہ یا توہمیں اس کو برداشت کرناہے یا اس کو بھلانے کے لئے نیندکی خوراک لینی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے کھڑے ہوجاؤ او رچلو ایک تندرست انسان کی طرح ۔ اسلام ہی صرف ایک راستہ ہے‘‘۔
ڈاکٹرامبیڈکر کے اس قول سے بالکل واضح ہوگیا کہ وہ صرف اسلام قبول کرناچاہتے تھے کوئی دوسرامذہب نہیں۔ ان کی دھرم تبدیلی کے رجحان سے گاندھی جی اور کانگریس آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو ہندوستان میں مسلمان غالب آ جائیںگے اور مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ اس صورت میں نہ ہندو بچیں اورنہ ہندودھرم ۔ لہٰذا انہیں تبدیلی مذہب سے روکنے کے لئے کئی جتن کئے گئے۔ جب حد سے زیادہ کوشش کی گئی تو امبیڈکر نے گاندھی جی اورکانگریس کو جواب دیتے ہوئے کہا : '' کوئی انسان صرف آسانیوں کے لئے اپنا دین نہیں چھوڑتا۔ آدمی جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے اسے بڑی تکلیف کے ساتھ چھوڑنے کافیصلہ کرتاہے۔ میں نے ہندو مذہب کو اپنے اور اپنے سماج کے لئے بے حسی کے رویہ کی وجہ سے چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔گاندھی اور کانگریس کے کچھ نیتا مجھ سے کہتے ہیںکہ میں دھرم کوکیوں چھوڑ رہا ہوں۔ میں گاندھی سے پوچھتا ہوں تمہاری چھوا چھوت مٹانے کی منشا تم سے ایک ہاتھ آگے بڑھ سکتی ہے کیا؟ گاندھی اورکانگریس نے اچھوتوںکے لئے کیا کیا ہے؟ تبدیلیٔ مذہب ایسے ہے جیسے اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے کیا گیاکوئی قدم۔ کیا ڈوبنے سے بچنے کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھانا چاہئے؟ تبدیلیٔ مذہب مادی لالچ نہیں،اخلاقی بہادری کا کام ہے‘‘۔ امبیڈکر اسلام کے پیغام مساوات اور اخوتِ اسلامی سے خاصے متاثر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک ملاقات میں انہوں نے ایک جید عالم دین مولانا حفظ الرحمن کوکہا: ''میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور پر اسلام سماجی جمہوریت اور انسانی مساوات کاداعی و نقیب ہے، لیکن ہندوستان میں آپ لوگ منوکے ورن آشرم پر عمل پیرا ہیں اور آپ نے اپنے سماج کو بھی برادریوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ میں اسلام قبول کر لیتا ہوں تو آپ مجھے کس خانے میں رکھیںگے؟‘‘ اس تلخ سماجی حقیقت کا مولاناؒ کے پاس کوئی جواب نہ تھا اوراس طرح 1956ء کو وجے دشمی کے دن انھوں نے اپنے چھ لاکھ ہمنواؤںکے ساتھ بدھ مذہب اختیارکرلیا‘‘۔
قصہ مختصر، اگر مسلمان اپنے وتیرہ تبدیل نہیں کرتے، اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عملاً نہیں اپناتے تو دلتوں کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کے ساتھ حقوق کی جنگ لڑنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔