تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-05-2016

ٹوٹے اور اشتہار

اُلٹی گنگا
نیب نے اگلے روز چھاپا مار کر بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے ڈالروں اور سونے سمیت کوئی 75 کروڑ روپے نقد برآمد کر لیے ہیں جس پر چیف سیکرٹری نے انہیں معطل بھی کر دیا ہے اور وہ نیب کے زیر حراست بھی ہیں جس کا مطلب ہے کہ نیب نے اُلٹی گنگا بہانا شروع کر دی ہے یعنی وزیراعظم کا خاندان تو اس لیے زیرعتاب آیا ہوا ہے کہ وہ اپنا سرمایہ ملک میں رکھنے کی بجائے باہر لے گئے ہیں اور جس شریف آدمی نے باہر لے جانے کی بجائے ملک کے اندر بلکہ گھر میں رکھا ہوا تھا‘ اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے اُسے نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے بلکہ یہی وجہ ہے کہ شریف فیملی کو بھی اپنا روپیہ گھر میں رکھنے کی بجائے باہر لے جانا پڑا‘ یہ دوہرا معیار ہے اور سخت ناانصافی بھی اور یہ بات اب سمجھ میں آ رہی ہے کہ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا‘ ہیں جی؟
زوال کی نشانی!
پاکستانی نژاد صادق امان خاں لندن کے میئر منتخب ہو گئے ہیں جن کا مقابلہ جمائمہ گولڈ سمتھ کے بھائی کے ساتھ تھا۔ ہماری طرح وہاں بھی اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ بجائے اس کے کہ صادق امان خان پر دھاندلی کا الزام لگایا جاتا‘ ہارنے والے کی بہن نے اسے مبارکباد دی ہے اور وہاں کے مسلمانوں کے لیے اسے باعث فخر قرار دیا ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کوئی الیکشن کمیشن ہی نہیں تھا ورنہ کم از کم اس پر ہی کوئی
جانبداری اور دھاندلی کا الزام لگا دیا جاتا حالانکہ وہاں پنکچر لگانے والے بھی دستیاب ہوں گے اور اگر ہارنے والے کی طرف سے اب تک کوئی الیکشن پٹیشن دائر نہیں کی گئی تو ظاہر ہے کہ وہاں لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک نہیں ہے اور دُنیا کی یہ سب سے پرانی جمہوریت زوال کی طرف سفر کر رہی ہے اور وہاں ایک طرح کا جمود طاری ہے۔ آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ کیسی بلندی‘ کیسی پستی...!
قابل ستائش
اس بات میں تو اب کوئی شک ہے ہی نہیں کہ جمہوریت کو جب بھی کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی سارے کام چھوڑ کر دھڑام سے میدان میں کُود پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اب بھی ایسا ہی کیا ہے اور چونکہ منتخب وزیراعظم ہی کا دوسرا نام جمہوریت ہے‘ اس لیے اس نے کمیشن وغیرہ کے سلسلے میں ہاتھ کافی ہولا رکھا ہوا ہے اور بلاول وغیرہ کے ذریعے دو چار بڑھکیں مارنے کے بعد وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے کیونکہ جب آصف زرداری بھی برسر اقتدار ہوتے ہیں‘ وہ مجسّم جمہوریت ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح سے یار لوگوں نے عمران خان کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے‘ اور اب جمہوریت کو ستّے خیراں ہیں اور دُشمنوں کا مُنہ کالا ہے اور اس طرح تیزرفتار ترقی کا راستہ روکنے والوں نے ایک بار پھر مُنہ کی کھائی ہے یعنی یہ مُنہ اور مسور کی دال!
سازشیں
ایسا لگتا ہے کہ ملک عزیز میں اور کُچھ نہیں ہو رہا‘ صرف سازشیں ہو رہی ہیں۔ پہلے پاناما لیکس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امریکہ وغیرہ کی سازش ہے۔ اس کے بعد رحمن ملک نے اسے اپنے خلاف ''را‘‘ کی سازش قرار دیا۔ پھر یوں ہوا کہ سابق چیئرمین سینٹ جناب نیر بخاری کے خلاف سازش ہوئی اور ایک پولیس کانسٹیبل نے جان بوجھ کر اپنا منہ ان کے تھپڑ کے سامنے کر دیا حالانکہ وہ ایک ہوائی تھپڑ تھا جیسا کہ ہوائی فائر یا ہوائی بوسہ ہوتا ہے۔ اب ڈی ایس پی عمران بابر کے خلاف بہت بڑی سازش ہو گئی ہے اور وہ حوالات میں ہیں بلکہ اس سے پہلے ہتھکڑی بھی انہیں ایک سازش کے تحت ہی لگائی گئی اور اب خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو آستین کے سانپ ڈس رہے ہیں‘ ظاہر ہے کہ ان سانپوں نے بھی کسی سازش کے تحت ہی ایسا کیا ہے یعنی پہلے وزیراعظم کی آستین میں گھسنے کی سازش کی اور اب ڈستے چلے جا رہے ہیں حالانکہ سانپ کا تو ایک بار ڈسا ہوا ہی کافی ہوتا ہے!
نمونے کی وضاحت
سب کا منہ بند کرنے کے لیے نقطہ دار وضاحت پیش ہے۔ پہلا تو یہ کہ ہم نے بیرونی سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے جو قانون بنایا تھا کہ وہ جتنا سرمایہ باہر سے ملک میں لانا چاہیں یا یہاں سے باہر لے جانا چاہیں‘ اس پر کوئی قدغن نہیں ہو گی۔ ہم بھی چونکہ باہر سرمایہ کاری کر رہے تھے اس لیے لگے ہاتھوں ہم نے بھی اس کا فائدہ اٹھا لیا۔ دوسرا اس کا ٹیکس اس لیے نہیں دیا جا سکا کہ یہ پیسہ ہمارے پاس ٹکا ہی نہیں۔ اللہ کے فضل سے جُوں جُوں آتا گیا‘ باہر بھجوا دیا جاتا رہا۔جہاں تک اثاثے ظاہر کرنے کا تعلق ہے تو یہ ہمیں خود بھی معلوم نہیں۔ آخری اعتراض یہ ہے کہ اتنی جلدی اتنا پیسہ آیا کہاں سے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ محاورہ سب نے سنا ہوا ہو گا جبکہ ماشاء اللہ یہ چھپر ہے ہی اتنا بڑا کہ اس کے پھٹنے سے جتنا پیسہ آ سکتا ہے‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے‘ اس لیے زیادہ بک بک کرنے کی ضرورت نہیں۔
مخلص : محمد نوازشریف عفی عنہ
احتجاج
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا خالد لانگو صاحب مشیر خزانہ حکومت سندھ کی اس حرکت پر سخت احتجاج کیا جاتا ہے کہ صرف ان کے سیکرٹری خزانہ جناب مشتاق رئیسانی کے گھر سے کچھ پیسے وغیرہ برآمد ہونے پر انہوں نے استعفیٰ داغ دیا ہے اور اس سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی جس سے مشتہر کے لیے مشکلات میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اور اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مہربانی کے باوجود لانگو صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے مشتہر پر ایک بار پھر استعفیٰ دینے کا دبائو بڑھ جائے گا جبکہ ان کا یہ اقدام سراسر کم عقلی پر مبنی ہے کیونکہ ان کا تو اس مسئلے میں نام تک نہیں تھا۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ لانگو صاحب سے ایک سازش کے تحت مشتہر کو زچ کروانے کے لیے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت کروائی گئی ہے؟ ہیں جی؟ اس پر سخت احتجاج کیا جاتا ہے اور یہ بھی پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ آخر مشتہر نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟
المشتہر : محمد نوازشریف عفی عنہ
آج کا مطلع
شور تھا جس کا بہت وہ انقلاب آیا نہیں
پختگی دیکھو‘ انہیں پھر بھی حجاب آیا نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved