ہاں میرے دل میں خواہش تھی کہ کبھی خضر ؑ سے ملاقات ہو۔ وہ جو بھٹکے ہوئوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ اپنی زندگی کا بیشتر وقت میں نے صحرائوں ، جنگلات اور برف سے ڈھکے پہاڑوںمیں بھٹکتے گزارا تھا۔ پھر وصل کی شام آئی۔ کوہِ ہمالیہ کی ایک اداس چوٹی پر میں نے انہیں سرو قد خاموش کھڑے دیکھا۔ ننگے پائوں ، میں ان کے حضور مودب جا بیٹھا ۔ اپنی آپ بیتی کہہ سنائی ، رہنمائی کا طلب گار ہوا۔ بلند قامت آدمی نے یہ کہا: خضر نہیں میں آدم ہوں ۔ ''باباآدم؟‘‘ حیرت سے میں نے کہا۔ یہ بات میرے گمان سے باہر تھی کہ بابا آدم سے یوں ملاقات ہوگی۔اب یہ بتا دینے میں کوئی حرج نہیں کہ دل ہی دل میں ، میں یہ سوچتا رہتا تھا کہ نہ وہ شجرِ ممنوعہ کو چھوتے اور نہ ہم زمین پہ یوں خوار ہوتے ۔
بابا آدم گویا میری سوچ پڑ ھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ کہا''میں درخت کو ہاتھ نہ بھی لگاتاتو ہمارے زمین پہ اترنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ ذرا غور کرو، کتاب میں سب سے پہلے میرا ذکر کیسے ہوتاہے '' اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے ، میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں ‘‘فرشتوں کے لیے یہ بات ہی ناقابلِ یقین تھی کہ ایک گوشت پوست کا جاندار، جانوروں میں سے دو ٹانگوں پہ سیدھا کھڑا جانور خدا کا نائب بن سکتاہے ۔ وہ یہ دیکھتے تھے کہ کرّہ ء ارض پہ جو جانور پائے جاتے ہیں ، وہ ایک
دوسرے کو نوچتے، کاٹتے اور کھا جاتے ہیں ۔ ان میں بے شمار جسمانی کمزوریاں ہیں ۔ وہ خواہشات کے مارے ہوئے ہیں ۔ مادہ کے حصول کے لیے نر آپس میں جنگ کرتے ہیں ۔ ''بولے کیا تو ایسے کو نائب کرے گا جو فساد پھیلائے اور خون بہائے‘‘ اس کے بعد اشارتاً انہوں نے اپنا ذکر کیا '' اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح بیان کرتے اورتیری پاکی بولتے ہیں ۔ کہا خدا نے '' میں جانتا ہوں وہ، جو تم نہیں جانتے ۔ البقرہ 30۔ ''تو جب خدا پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو ظاہر ہے کہ مجھے جنت میں تو نہیں رہنا تھا، آزمائش کے لیے زمین ہی پر اترنا تھا ۔‘‘ بابا آدم نے یہ کہا ۔
میں یہ سوچنے لگا کہ بھوک ، افلاس اور بیماری سے لبریز اس زمین پہ ہم اتارے کیوںگئے ؟ ''عقل کے امتحان (test)کے لیے ۔‘‘ بابا نے کہا۔''عقل کا بنیادی امتحان یہ ہے کہ وہ دیکھے بغیر ، نشانیوں پر غور کر کے ، پیغمبرؐ کا پیغام پڑھ کر خدا پہ ایمان لاتی ہے یا نہیں ۔یہ نشانیاں بہت واضح ہیں ۔دوسرا امتحان یہ ہے کہ کیا عقل خواہش پہ قابو پا سکتی ہے یا نہیں۔ خواہشات ہمارے اندر رکھی گئی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آدمی خواہش کی پیروی کرتاہے یا خدا کی طرف سے الہام کی گئی ہدایت کو اپناتاہے ۔ ‘‘
میں نے کہا : یہ کیسی آزمائش ہے ۔ شام میں عورتوں اور بچوں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں ۔ بھلا اس حال میں کون صبر کر سکتاہے ؟''زندگی کوہمیشہ تکلیف سے گزرنا ہوتاہے میرے فرزند‘‘بابا آدم نے کہا''موت ہمیشہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن یہ آزمائش کو ختم کر دیتی ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک ، اپنی موت تک آزمایا جاتا رہے گا۔ رشتے داروں سے ، شریکِ حیات اور اولاد سے ، غربت اور امارت سے ، بیماری سے، نفع اور نقصان سے ۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو دیکھتاہے ۔ کرّہ ء ارض پہ اس وقت پچاس لاکھ مخلوقات اور بھی زندہ ہیں ۔ تمہیں کیا
معلوم کہ جب ایک انسان مرتا ہے تو کتنی مخلوقات نے اس کے مردہ جسم سے رزق حاصل کرنا ہوتاہے اور پھر ان مخلوقات نے کتنی دوسری مخلوقات کی خوراک بننا ہوتاہے ۔ تمہیں کیا معلوم کہ اس زمین پہ مٹی کا ہر ذرّہ زندہ ہے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن کی صورت میں پانی جب تمہارے جسم میں موجود ہے ، تووہ زندہ ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ جو پانی تم پیتے ہو ، یا وہ جسے تم آگ پر ابالتے ہو، کیا وہ زندہ نہیں ؟ تمہارے جسم میں کاربن زندہ ہے ۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ کاربن سے بنا جو کوئلہ ، تیل اور گیس تم جلاتے ہو ، وہ زندہ نہیں ؟ فرض کرو ، شام میں مکمل امن ہوتا لیکن یہ جو خبریں سننے میں آتی ہیں کہ تین سال کی بچّی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا ، کیا وہ متاثرہ خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم ہے ۔ جب جنگل میں ایک چھوٹے بندر کو بڑا بن مانس چیر پھاڑ کے کھا جاتاہے تو کیا وہ اس کے لیے قیامت سے کم ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جب ایک زندہ جراثیم تمہارے جسم میں داخل ہوتاہے ۔ تمہارے جسم میں وہ افزائشِ نسل کرتاہے ۔ جب وہ بیماری کا باعث بنتا ہے تو کیا جراثیم کش ادویات سے تم انہیں مارتے نہیں ۔ اگر وہ فریاد کریں کہ انہیں بھی زندہ رہنے کا حق ہیں تو ہم انسانوں کو یہ کتنا عجیب لگے گا؟‘‘
بابا آدم نے مجھے یہ کہا'' کیا تم نے نہیں پڑھا موسیٰ ؑ کا واقعہ۔ جب وہ خضر کے پاس گئے تو خضر ؑ نے یہ کہا کہ (جو کچھ میں کروں گا، اس پر ) تم صبر نہ کر سکو گے کہ تمہارے پاس ان باتوں کا علم نہیں ۔ جب انہوں نے ایک لڑکے کو قتل کر دیا تو موسیٰ ؑ نے اس پر شدید اعتراض کیا کہ بے گناہ کو کیوں قتل کیا ۔ بعد میں خضرؑ نے انہیں بتایا کہ اس لڑکے نے بڑے ہو کر اپنے والدین کے لیے شدید پریشانی کا باعث بننا تھا۔ اللہ نے فیصلہ کیا کہ اس کی جگہ انہیں ایک نیک اولاد دے ۔ یہاں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ والدین کو تو یہ خدائی حکمت معلوم نہ تھی اور ظاہر ہے کہ وہ سخت رنجیدہ ہوئے ہوں گے ۔غالباً اسی میں ان کی آزمائش بھی ہوگی ۔ ‘‘
بابا آدم نے یہ کہا '' یہاں اس زمین پہ جو بھی پیدا ہوا ،امیر یا غریب، کالا یا گورا، حسین یا بدصورت ، حکمران یا رعایا، لازمی طور پر اپنی موت تک اسے آزمائش سے گزرنا ہوگا۔خدا کی حکمتوں سے مکمل طور پر کبھی کوئی واقف نہیں ہو سکتا۔ ایک ہی واقعے سے وہ کتنوں کو آزمالیتا ہے ۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر چیز کو ایک دنیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور وہ دو دنیائوں کے ۔اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ دنیا اس نے مکمل انصاف اور انعام کے لیے پیدا کی بلکہ یہ تو اس نے آزمائش کے لیے پیدا کی ہے ۔ اور اگر تم اگلی دنیا کی راحتیں دیکھ لو تو یہی خواہش کرو کہ یہاں اس زندگی میں زیادہ سے زیادہ آزمائے جائو۔ ہاں ، تم اسے دیکھ تو نہیں سکتے لیکن علم اور عقل کی مدد سے تم اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور لگا سکتے ہو۔ ‘‘