تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-05-2016

دوبئی چلو

لگتا ہے نہرو، بیدی، جوش، ڈاکٹر ظفرالطاف، ایران پاکستان تعلقات کے بعد کالموں کی ایک اورسیریز ''ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے ‘‘مجھے یہیں ڈراپ کرنی پڑے گی۔ قارئین کا گلہ بڑھتا جارہا ہے کہ ایک سیریز ختم کیے بغیر میں دوسری شروع کر دیتا ہوں۔۔کیا کریں، قصے اتنے طویل ، قصہ سننے کے خواہشمندوں کی تعداد زیادہ ، قصہ خواں کے پاس سنانے کے لیے بہت کچھ ۔ چار سو پھیلی الف لیلہ کی ان داستانوں کو سنانے کے لیے یہ جہاں، اورزندگی کم لگتی ہے۔ میں بھی اب اپنے آپ کو عمرو عیار سمجھنے لگ گیا ہوں جس کے پاس زنبیل ہے اور اس میں ہاتھ ڈال کر روزانہ نئی داستان نکال لاتا ہے ۔
کل رات ہی ملتانی دیوان مول راج کی انگریزوں کے خلاف بغاوت اور اسے گرفتار کر کے لاہور میں کیے گئے ٹرائل پر72 سال پرانی ایک خوبصورت کتاب پڑھی سوچ رہا ہوں ‘اس پر نئی سیریز لکھی جائے۔ ایسی داستان، ایسی کہانی، میں نے تین گھٹنے لگا کر ایک ہی نشست میں ختم کی۔ لفاظی میری ہوگی، کہانی کا رنگ یقینا دوں گا لیکن کریڈٹ اسی کو دوں گا جس نے دیوان مول راج کے ٹرائل کی ساری داستان لکھی۔ 35 سالہ ملتانی نوجوان مول راج کی اس داستان میں رنگ بھرے بغیر کہانی کا حسن نہیں نکھرے گا ۔ 
ہمارے ہاں کہتے ہیں فلموں کی کہانی نہیں ملتی، کہانیاں ملتی ہیں انہیں ڈھونڈنے والے نہیں رہے۔ جیسے بھارت میں ایک باغی کردار منگل پانڈے پر عامر خان نے خوبصورت فلم بنائی تھی ایسے ہی دیوان مول راج پر بھی ایک بلاک بسٹر فلم بن سکتی ہے۔ چلیں فلم بنے نہ بنے لیکن کالموں کی سیریز یہاں لکھی جائے گی اور شاید بڑے عرصے تک نہ بھلائی جاسکے۔ میرے پیارے ملتانیوں کو بھی پتہ چلے ڈیڑھ سو سال پہلے ملتان کی دھرتی پر کیا لہولہان داستان رقم کی گئی تھی اور کیسے زنجیروں میں جکڑ کر نوجوان باغی مول راج کو لاہور دربار میں پیش کر کے اس کا ٹرائل کیا گیا ۔ 
ماضی کی کہانیاں ایک طرف رہ گئیں، جو کچھ حال میں چل رہا ہے وہ ایسا مسحور کن ہے کہ بندہ ششدر رہ جائے۔ ایک طرف 
پاناما لیکس ہے تو دوسری طرف میرے ہاتھ دوبئی لیکس لگ گئی ہیں۔ ڈھائی ہزار پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان ڈھائی ہزار نے ایک ارب ڈالرز یا پھر تین ارب درہم کی مالیت کی جائیدادیں دوبئی میں خریدیں اور کانوں کان خبر نہ ہونے دی ۔ زیادہ تر نے پیسہ ہنڈی کے ذریعے دوبئی بھیجا۔ابھی میں ڈھائی ہزار پاکستانی ناموں کو پڑھ رہا تھا کہ ایک اور شہ فہرست موصول ہوئی۔تیسری فہرست دوبئی سے آنی باقی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں نے دوبئی میں جائیدادیں خریدی ہیں۔جو ملک ستر ارب ڈالرز کے قرضے تلے دبا ہوا ہے، اس کے شہریوں نے آدھے سے زیادہ دوبئی خرید لیا ہے۔ جو صفحہ کھولتا ہوں، ایسے ایسے معززین کے نام پڑھنے کو ملتے ہیں کہ حیران رہ جاتا ہوں کہ ان صاحب کو بھی اپنے ملک پر یقین نہیں تھا‘ لہٰذا خاموشی سے دولت باہر منتقل کر دی گئی۔ان دستاویزات میں سب سے بڑا نام اس ملک کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا ہے۔ اس کے بعد ائیر وائس مارشل شاہد لطیف کا نام ہے جو کبھی پاکستان چین جے ایف 17 تھنڈرطیاروں کے منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رہے۔ ان کے نام دو خفیہ جائیدادیں دوبئی میں ہیں۔ موصوف روزانہ ٹی وی پر سب سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے ہیں کہ وہ ملک کو برباد کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے تھے۔ خیر شاہد لطیف کا موقف لیا گیا فرماتے ہیں ان کے ڈاکٹر داماد کا پیسہ تھا جو ملک سے باہر رہتے ہیں۔ داماد نے کہا سسر جی پیسے میرے ہیں لیکن آپ اپنے نام پر دوبئی میں جائیداد خرید لیں ۔ چلیں مان لیتے ہیں۔ ویسے کتنا اچھا داماد ہے جس نے اپنے، یا اپنے کسی بھائی بہن کے نام پر خریدنے کی بجائے اپنے سسر کے نام پر جائیداد خریدی لی ۔ پھر شاہد لطیف نے فرمایا دراصل وہ قسطوں پر خرید رہے ہیں اور ہر چیز قانونی طریقے سے کی گئی ہے ۔ دستاویزات میں لکھا ہے انہوں نے دوبئی کی دو جائیدادیں 2004ء اور2005ء میں خریدی تھیں جب ابھی وہ ایئرفورس میں سروس کر رہے تھے اور ان کی بیٹی سکول میں پڑھتی تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں شاہد لطیف نے سب کچھ حلال طریقے سے خریدا ہے۔میں ہی جھوٹا ‘بحث کا کیا فائدہ ۔ 
ایک اور فون نمبر پر فون کیا گیا جس کے نام پر دوبئی میں خفیہ جائیداد رجسٹرڈ تھی۔ ایک خاتون نے اٹھایا اور بولی پتہ ہے آپ کو کس ریٹائرڈ آرمی جنرل کے گھر کا نمبر ہے۔میرے سٹاف کے بندے نے ڈر کے مارے فون ہی بند کر دیا ۔
چلیں شاہد لطیف کو یہ داد دیں جب پکڑے گے تو مان لیا انہوں نے دو جائیدادیں خریدی تھیں۔اسحاق ڈار تو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ انہوں نے دوبئی میں تین جائیدادیں خریدیں‘ایک بیچ دی‘ دو ابھی باقی ان کے نام پر ہیں ۔ چلیں جائیدادیں خریدنا کوئی غلط کام نہیں ہوگا ۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے 2002ء کے بعد آپ مسلسل پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہیں اور ہر سال آپ پر لازم ہے آپ اپنے گوشواروں میں اپنی جائیداد ظاہر کریں، آپ نے کیوں نہیں کی؟ اسحاق ڈار کے گوشواروں کی فائل نکالی۔ تاہم کہیں پر ذکر نہیں تھا۔ میں نے اپنے سٹاف کے ایک ممبر عدنان راجہ کو ان کا موقف لینے کا کہا ۔موقف میں ڈار صاحب فرماتے ہیں ان کی کوئی جائیداد دوبئی میں نہیں اور یہ سب جھوٹ ہے۔ میں نے اپنے ذریعہ سے دوبارہ پوچھا ۔ اس نے مجھے ایک اور فہرست بھیج دی اس میں ایک اور جائیداد اسحاق ڈار کی نکل آئی ۔ اسحاق ڈار نے فرمایا پہلے بھی ان کے بیٹے علی ڈار نے عمران خان کو لیگل نوٹس بھیجا ہوا ہے۔ عمران نے الزام لگایا تھا علی ڈار نے دوبئی میں دو ٹاورز خرید رکھے ہیں ۔ اسحاق ڈار کے بقول علی نے ٹاورز نہیں خریدے بلکہ ان کے ٹاورز میں پراپرٹی خریدی ہے۔سو اعتراض علی ڈار کو اس بات پر ہے پورا ٹاور نہیں ٹاور کی کچھ جائیداد ان کے نام ہے لہٰذا انہیں عمران خان جھوٹ بولنے پر پانچ ارب روپے جرمانہ ادا کریں۔میںنے کہا اسحاق ڈار صاحب ہم علی ڈار کی جائیداد نہیں بلکہ آپ کی خفیہ جائیداد کی بات کر رہے ہیں۔
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں‘ ویسے یہ علی ڈار وہی ہیں جنہیں ان کے ابا حضور نے 2013ء میں 41 کروڑ روپے کا قرض حسنہ دیا تھا ۔ یہ وہی سال تھا جس سال اسحاق ڈار نے 55 کروڑ روپے کی جائیداد ظاہر کی جس میں لاہور میں دو بڑے گھر، سیونگ میں دس کروڑ روپے، اور دیگر جائیدادیں دکھائیں اس سال انہوں نے صرف آٹھ لاکھ روپے ٹیکس دیا جس سے لگتا تھا ان کی ماہانہ آمدن صرف ڈھائی لاکھ روپے ہے۔ تو ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ آمدن کے ساتھ آپ کیسے 55 کروڑ روپے کے اثاثے بنا لیتے ہیں اور اس میں سے نقد آپ 41 کروڑ روپے اپنے بیٹے علی کو بھی دیتے ہیں۔؟اور سنیں نوجوان نے اتنا پیسہ کما لیا ہے کِہ اس مالی سال کے گوشواروں میں اسحاق ڈار نے لکھا ہے اس کے ہونہار بیٹے نے اکتالیس کروڑ روپے قرضہ حسنہ میں سے بیس کروڑ روپے باپ کو واپس بھی کر دیا ہے۔
صرف حکمرانوں کے بچے ہی کیوں قابل نکلے ہیں۔ دنوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں؟بتایا جاتا ہے بھٹو نے شریف خاندان کی لوہے کی ایک بھٹی قومیا کر انہیں تباہ کر دیا تھا تو پھر کیسے وہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے اور راتوں رات پاناما میں آف شور کمپنیاں بھی بن گئیں، لندن میں ایک ارب پائونڈ سے زیادہ جائیدادوں کے مالک بھی بن گئے؟ ساتھ ساتھ روتے بھی رہتے ہیں ان کے ساتھ انتقامی کاروائیاں ہوتی رہیں اس کے باوجود ان کا کاروبار پاکستان کے اندر اور باہر ترقی کرتا رہا ۔ ایم این اے افتخار چیمہ کو اس لیے سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا کہ ان کی بیگم کا ایک ایسا اکائونٹ نکل آیا جو انہوں نے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا ۔ وہ دوبارہ الیکشن لڑے۔ اب جنوبی پنجاب کی ایک خاتون ایم پی اے کو سپریم کورٹ نے جائیداد چھپانے پر نااہل قرار دے دیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ملک کا وزیرخزانہ اپنے گوشواروں میں اپنی دوبئی کی جائیداد کا ذکر نہیں کرتا اور اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی ۔۔کیونکہ وہ وزیرخزانہ ہے، وزیراعظم کا سمدھی ہے؟اب آپ مجھے بتائیں کہ یہ ملک کیسے ٹھیک ہوگا۔ رحمن ملک کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ موصوف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین ہیں اور انہوں نے خود ہی کمیٹی کا اجلاس پاناما لیکس پر بلا رکھا ہے۔ وہ پہلے فرما چکے ہیں یہ را کی سازش ہے۔ 
دنیا اخبار کے کرائم رپورٹر احسان بخاری کی خبر ہے کِہ نیر بخاری کو روکنے کے جرم میں اس کے بیٹے سے تھپڑ کھانے والے پولیس والے کو معطل کر کے اس کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔جرم : اس نے نیر بخاری کو پہچانا کیوں نہیں۔!
نواز شریف چاہتے ہیں ان کے بیٹوں اور بیٹی نے جو دولت ملک سے باہر رکھی ہوئی ہے اس کی تفتیش کے لیے جو کمشن بنایا جائے گا اس کے ٹی او آرز وہ خود بنائیں گے۔کبھی جو پارلیمنٹ کے نام کی تسبیح پڑھتے تھے اب وہ اس طرف جانے کا نام نہیں لیتے۔۔اپوزیشن کو پارلیمنٹ کی خودمختاری کا درس دینے والے فرماتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوں گے۔
نیویارک آئی لینڈ کے مہربان تبسم بٹ درست فرماتے ہیں ہونا ''کجھ وی نئیں‘‘...کیسے ہوگا جب ملک کا وزیرخزانہ دوبئی میں جائیداد چھپائے گا ، بقول ائروائس مارشل شاہد لطیف کے سخی داماد اپنے سسر کے نام پر دوبئی میں جائیداد خریدے گا اور باپ بیٹا... اسحاق ڈار علی ڈار... قرض حسنہ قرض حسنہ کا کھیل کھیلتے رہیں گے... تے فیر ہونا کجھ وی نئیں...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved