تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     11-05-2016

اپنی جمہوریت ایسی ’’بے ننگ و نام‘‘ بھی نہیں

پانامہ پیپرز کی دوسری قسط آ گئی لیکن لندن میں صادق خان کے ہاتھوں زیک گولڈ اسمتھ کی شکست اب بھی تبصروں اور تجزیوں کا موضوع ہے۔ ایک ارب پتی یہودی خاندان کے چشم و چراغ پر ایک بس ڈرائیور کے بیٹے، پاکستانی نژاد مسلمان کی فتح۔ پاکستان میں ہم جیسے جمہوریت پسندوں کے خیال میں، اس سے جمہوریت کے حق میں ہمارا مقدمہ مضبوط ہوا ہے‘ تو دوسری طرف ہمارے سیاست بیزار دوست ایک اور انداز میں پاکستان کی ''بے ننگ و نام جمہوریت‘‘ کے خلاف اپنے مقدمے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ 
سوال ہے کہ ''ہماری بے ننگ و نام جمہوریت کیا صادق خاں جیسے کسی عام آدمی کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے‘‘؟ اوّل تو انگلستان کی ساڑھے چار، پانچ سو سالہ، جمہوریت کا‘ جس کی جڑیں بہت گہری اتر چکیں، پاکستان کی نوعمر اور ناتواں جمہوریت سے موازنہ ہی مناسب نہیں، مملکتِ خداداد کی 69 سالہ زندگی میں‘ جو پے در پے صدموں سے دوچار ہوتی رہی، جو ابھی گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتی تھی کہ اِسے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا۔ اس کے باوجود متذکرہ بالا سوال کا جواب اثبات میں ہے... جی ہاں! اپنی ''بے ننگ و نام‘‘ جمہوریت میں بھی صادق خان جیسے عام آدمی کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہیں۔ 
لندن کے نومنتخب میئر کا والد ایک بس ڈرائیور تھا‘ جس کی والدہ بھی سلائی کڑھائی کے ذریعے اپنے محنت کش شوہر کا ہاتھ بٹاتی۔ مالی و معاشرتی سٹیٹس کے لحاظ سے صادق خان کا اپنے حریف زیک گولڈ اسمتھ سے کوئی موازنہ، کوئی مقابلہ نہ سہی لیکن وہ ایسا گیا گزرا بھی نہیں تھا۔ اپنی محنت کے بل پر اب وہ آسودہ زندگی گزار رہا تھا۔ میئر کے حالیہ الیکشن سے قبل وہ دو بار ممبر پارلیمنٹ اور ایک بار کابینہ کا رُکن بھی رہ چکا تھا‘ لیکن کراچی میں تو پاکستان کی جمہوریت اِس سے بھی زیادہ قابلِ رشک اور قابلِ فخر منظر دکھا چکی۔
1958ء میں یہ پاکستانی جمہوریت کا ابھی 11واں (اور 1956ء کے آئین کا دوسرا سال) تھا‘ جب کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں اس دور کے کروڑ پتی (آج کے حساب سے ارب یا کھرب پتی) صنعت کار خاندان کے چشم و چراغ محمود ہارون لیاری میں ایک غریب سکول ٹیچر کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ کی بات کریں‘ تو 1979ء کے بلدیاتی الیکشن میں، جوتوں کی دکان پر سیلزمینی کرنے اور لیاری میں دو اڑھائی مرلے کے فلیٹ میں رہنے والے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر بن گئے تھے۔ اُنہوں نے عبدالخالق اللہ والا جیسے امیر کبیر کو شکست دی تھی۔ 1983ء میں وہ دوبارہ میئر منتخب ہوئے اور میئرشپ سے فارغ ہو کر جوتوں کی اُسی دکان پر دوبارہ سیلزمین ہو گئے۔ لیاری میں وہی اڑھائی مرلے کا فلیٹ اب بھی اُن کا مسکن تھا۔ 1970ء میں متحدہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں اربن سندھ سے منتخب ہونے والی بیشتر قیادت، لوئر مڈل کلاس سے تھی۔ پنجاب میں بھٹو کی تلوار کے ٹکٹ پر ''کھمبوں‘‘ نے بڑے بڑے بُرج الٹ دیئے تھے۔ ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ ترین علاقے میں جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر ڈاکٹر نذیر احمد جیسے لوئر مڈل کلاسیئے نے لغاری قبیلے کے چیف محمد خاں لغاری (سابق صدرِ مملکت فاروق خاں لغاری کے والد) کو ہرا دیا تھا۔ 
صوبہ سرحد میں بوریا نشین مفتی محمود نے خود ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دے دی‘ اور مشرقی پاکستان کی تو ساری منتخب قیادت لوئر مڈل کلاس سے تھی، (مغربی پاکستان کی ''اشرافیہ اور ''قوتِ مقتدرہ‘‘ اسی لیے اُدھر سے خوف زدہ رہتی) اپنے ہاں کے سیاست بیزار عناصر پروپیگنڈے کے زور پر پالیٹکس اور کرپشن کو ہم معنی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے مارشل لاء (1958ء) سے قبل یہاں کے برے بھلے سیاسی ادوار میں، سیاستدانوں پر آپ ہر قسم کا الزام لگا سکتے ہیں‘ لیکن اِن کے دامن پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا 'ہر داغ ہے اس دِل میں بجز داغِ ندامت‘۔ ایوب خان کے ایبڈو میں سیاست دانوں پر جو الزامات لگائے گئے‘ وہ پڑھیں تو ہنسی آتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں سنگین مسائل کے باوجود سیاستدانوں نے جس طرح ملک کو سنبھالا‘ (قائد اعظم ؒ صرف13 ماہ بعد اور لیاقت علی خان چار سال بعد رُخصت ہو گئے تھے) باہم ہزار میل فاصلے کے ساتھ ملک کے دونوں حصوں کو ایک وفاق کے تحت چلانے کے لیے اتفاقِ رائے کے ساتھ آئینی نظام کی تشکیل پر کیا سیاستدان تحسین کے مستحق نہیں؟ پاکستان ایک سیاسی عمل کے ذریعے، ایک سیاستدان کی زیر قیادت، ایک سیاسی جماعت کے پرچم تلے وجود میں آیا تھا۔ 1958ء سے قبل سیاسی و جمہوری عمل (یہ جیسا بھی کمزور و ناتواں تھا) ملک کو ایک رکھنے کا باعث تھا، بلکہ پاکستان کی سرحدوں میں اگر اضافہ ہوا تو وہ بھی اسی دور میں، جب ملک فیروز خاں جیسے کمزور وزیر اعظم نے پاکستان کو گوادر لے دیا، جس سے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ مذہبی رواداری کے لحاظ سے بھی مملکتِ خداداد نے شاندار مثالیں پیش کیں۔ یہاں کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ایک ہندو تھے‘ تو وزیر خارجہ ظفراللہ خان قادیانی (منڈل خود پاکستان چھوڑ کر چلا گیا)۔ قائد اعظم کا جنازہ ہوا تو ظفراللہ خان نماز میں شریک ہونے کی بجائے الگ بیٹھے رہے۔ اخبار نویسوں کے استفسار پر اُن کا کہنا تھا: آپ مجھے ایک مسلمان ریاست کا غیر مسلم وزیر خارجہ سمجھ لیں یا ایک غیر مسلم ریاست کا مسلمان وزیر خارجہ، اور اس کے بعد بھی وہ وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے۔ اسی پاکستان میں عیسائیت کے پیروکار، جسٹس کارنیلیس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے، جب جسٹس بھگوان داس، چیف جسٹس کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج تھے۔ افتخار چودھری کی معطلی کے دوران وہ قائمقام چیف جسٹس بھی بنے۔ 
احتساب کے لحاظ سے بھی سیاستدانوں کا دور کوئی ایسا ناقابلِ رشک نہیں رہا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جناب محمد خاں جونیجو، وزارتِ عظمیٰ کے لیے اگرچہ جنرل ضیاء الحق کا انتخاب تھے۔ باوردی جنرل کو یہ کہنے میں کوئی عار نہ ہوتی کہ یہ انتقال اقتدار نہیں، اشتراکِ اقتدار ہے، جس پر آٹھویں ترمیم کی 58/2B کی تلوار لٹکتی رہتی۔ شریف النفس وزیر اعظم کو سیاسی مخالفین مسکین وزیر اعظم کہتے اور ''جونیجو‘‘ کے معنی ''جو نہ جانے‘‘ بتاتے‘ لیکن اس کمزور وزیر اعظم نے بھی اپنے تین وزرا کو کرپشن کے الزام میں نکال باہر کیا۔ ان میں جناب دانیال عزیز کے والد انور عزیز بھی تھے۔ انہی وزارتوں کے تین وفاقی سیکریٹریز کو بھی احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔ متعدد مثالوں میں سے ''شریف حکومتوں‘‘ کے حوالے سے دو تین مثالیں... میاں صاحب کی دوسری حکومت میں بجلی چوری کے خلاف مہم میں گڑھی شاہو لاہور کے سینما میں بجلی چوری پائی گئی۔ یہ سینما میاں معراج الدین کی ملکیت تھا۔ لاہور کا بزرگ سیاستدان، جو اپنی برادری کا سرخیل بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کے لیے وزیر اعظم کے احترام کا یہ عالم تھا کہ وہ اتوار کو ماڈل ٹاؤن کی کھلی کچہری میں تاخیر سے پہنچتے تو وزیر اعظم کارروائی معطل کرکے اُن کے خیر مقدم کے لیے آگے بڑھتے‘ اور انہیں اپنے ساتھ کُرسی پر بٹھاتے۔ یہ سینما ٹھیکے پر تھا اور بلوں کی ادائیگی ٹھیکیدار کے ذمے تھی‘ لیکن بجلی چوری کی خبر آئی تو بزرگ سیاستدان سے صوبائی 
وزارت سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ بیگم عابدہ حسین کے اصطبل (جھنگ) میں ایسی ہی واردات پائی گئی تو اِن سے بھی وفاقی وزارت سے استعفیٰ لینے میں تاخیر نہ کی گئی‘ اور یہ تو تین چار سال پہلے کی بات ہے، لاہور کینٹ میں بیکری کے سیلزمین کی گارڈز کے ہاتھوں پٹائی پر وزیر اعلیٰ کے داماد کا نام بھی ایف آئی آر میں دے دیا گیا‘ جو اُس روز اور اُس وقت کراچی میں تھا، وزیر اعلیٰ نے اسے فوری واپسی کے لیے کہا، وہ رات کی فلائٹ سے لاہور پہنچا‘ اور ایئرپورٹ پر ہی دھر لیا گیا۔ اگلے روز ہتھکڑی کے ساتھ عدالت میں اس کی پیشی کا منظر اندرون و بیرون ملک لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔ 
پاکستان میں جمہوریت بار بار حادثات سے دوچار ہوتی رہی‘ جس سے اس کی بلوغت کا عمل بھی متاثر ہوتا رہا۔ اعلیٰ سیاسی اقدار اور جمہوری روایات کی فصل راتوں رات لہلہانے نہیں لگتی۔ یہ تسلسل چاہتی ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے کسی مارکیٹ سے، کسی سپر سٹور سے خرید کر اقتدار کے ڈرائنگ روموں میں، یا چوکوں اور چوراہوں میں سجا لیا جائے۔ ناتواں جمہوریت اپنے تسلسل سے توانائی حاصل کرتی ہے۔ جناب چیف جسٹس نے بھی گزشتہ دنوں اسی طرف اشارہ کیا، جیسی بھی لولی لنگڑی جمہوریت ہے، اِسے چلنے دیا جائے۔ جمہوریت میں اصلاح کا خود کار نظام، اس کی خرابیوں کی اصلاح بھی کرتا چلا جاتا ہے۔ ''جمہوریت نے ہمیں کیا دیا‘‘؟ اس نے کچھ بھی نہ دیا ہو، کم از کم آپ کو وہ سب کچھ کہنے کی آزادی تو دی ہے‘ جسے دُنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں، وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے خلاف کہنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مان لیا ہم اس آئیڈیل جمہوریت تک ابھی نہیں پہنچے، لیکن اس منزل کی جانب ہم جتنا سفر طے کر چکے، اسے تو ضائع نہ کریں، جو کچھ حاصل ہو چکا، اُس کی حفاظت کریں، اور جو باقی ہے، اس کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔ ہمیں لوٹ کر واپس نہیں جانا، منزل کی جانب آگے بڑھنا ہے۔ فیض کے الفاظ میں ع
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved